وزیر خرانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ اگر اس ملک کو آگے لے جانا ہے تو سب کچھ پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنا پڑے گا۔ یہ ایک ایسا بیان (یا حکمت عملی) ہے جس کی مخالفت میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلا سوال حب الوطنی کی اس سوچ کے تحت کیا جا سکتا ہے کہ کیا حکمران سب کچھ بیچ کے چلے جائیں گے۔ یہ سوال بہت ساروں کوامپریس کرتا ہے جو حکمرانوں کی نیت پر شک و شبہ رکھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ہر حکمران اپنے پیاروں کو ہی نوازتا ہے سو ملکی اثاثے کوڑیو ں کے مول دے دئیے جائیں گے۔
اس سوال پر میں بہت زیادہ بحث نہیں کر سکتا کیونکہ نجکاری ایک پیچیدہ عمل ہے جس کے بہت سارے پہلو ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ سویپنگ سٹیٹمنٹ میں انصاف نہیں کیا جا سکتا۔ جس نے اعتراض کرنا ہے اس نے بہرصورت اعتراض ہی کرنا ہے مگر کچھ بنیادی باتیں ہم سب کو تسلیم کر لینی چاہئیں کہ حکومتوں کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے۔ حکومتیں بیوروکریسی کے ذریعے کاروبار کرتی ہیں جوافسران کی ذاتی دلچسپی، مفاد اور مستقبل نہ ہونے کی وجہ سے مطلوبہ نتائج نہیں دے پاتا۔
اب وقت آ گیا ہے کہ حکومتوں کا حجم چھوٹے سے چھوٹا ہو۔ بیوروکریسی کا کردار صرف ریگولیٹری ہو اوراس نظام میں ایک سیاسی حکومت اور ایک پروفیشنل افسرشاہی ایک دوسرے کے لئے رہنما ا ورمحتسب کا کام کریں۔ میں یہ فیصلہ اس لئے بھی دے رہا ہوں کیونکہ ہمارا اس پر اجماع ہوچکا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قومیا لئے جانے کی پالیسی کے ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثرات سامنے آئے۔
میں نے بہت سارے ماہرین سے تفصیل سے بات کی ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نجکاری کی مخالفت نہیں ہوسکتی مگر اس عمل کوبہرحال ذمے داری کے ساتھ سرانجام دینے کی ضرورت ہے۔ دنیا تیزی کے ساتھ فئیر مارکیٹ کمپی ٹیشن کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ہمارے سامنے اس وقت ایک ہی بڑی مثال موجود ہے جو پی ٹی سی ایل کی نجکاری کی ہے۔
میں بطور صارف یہ جانتا ہوں کہ میرے لئے ٹیلی فون لگوانا ایک بہت ہی دشوار عمل تھا اور اگر وہ خراب ہوجاتا تھا توا سے ٹھیک کروانا بھی بہت مشکل لیکن ٹیلی کام کے شعبے کی نجکاری اور اس میں پرائیویٹ کمپنیوں کے آنے کے بعد اب میرے پاس سستے اور بہترین آپشنز موجود ہیں۔ اب جہاں پی ٹی سی ایل کا انٹرنیٹ بھی موجود ہے وہاں پر بھی شکایت کا فوری جواب ملتا ہے بلکہ مجھے تو ایک، دو مقامات پر لائن مین نے رابطہ کرکے کہا، اگر کوئی خرابی ہو تو کمپنی میں شکایت مت کیجئے، میرا نمبر رکھ لیجئے میں خود فوری طور پر آ کے ٹھیک کر دوں گا۔ وہ اپنا ریکارڈ خراب نہیں کرنا چاہتا مگر وہ اس سے پہلے دستیاب ہی نہیں ہوتا تھا۔
میں نے ایک طویل عرصہ تک بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کی مخالفت کی ہے۔ واپڈا کی یونینوں میں میرے دوستوں نے مجھے قائل کئے رکھا کہ کے الیکٹرک کی کارکردگی کراچی میں بہت بُری ہے اور اگرمیں نے لیسکو، گیپکو اور فیپکو وغیرہ کی نجکاری کی حمایت کی تو میں ٹھیکیدار کے ہتھے چڑھ جاؤں گا مگرمیری رائے ہے کہ دنیا تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ دس سے پچیس برسوں میں یہ بجلی کے نیشنل گرڈ وغیرہ بھی آؤٹ ڈیٹڈ ہوجائیں گے۔ سولر انرجی کی ٹیکنالوجی نے تیزی کے ساتھ ترقی کی ہے اور کرتی چلی جا رہی ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ دو، اڑھائی عشروں میں ہمیں ان کی ضرورت ہی نہیں رہے گی لہٰذا اگر حکومت ان اداروں سے جان چھڑوا لے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ وقت آ چکا ہے کہ گھر اپنی ضرورت کی بجلی خود پیدا کر رہے ہیں بلکہ وہ ہمسایوں کو بھی دے سکتے ہیں اگر قانون انہیں اجازت دے۔ ابھی خیبرپختونخوا میں بجلی صورتحال دیکھ لیجئے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کیجئے اور اس کے بعد جو کمپنی چاہے جتنی بجلی خریدے اور اس کا بل بھی وصول کرے۔
جب ہم سب کچھ پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے کی بات کرتے ہیں تو میرے ذہن میں فوری طور پر امن و امان، تعلیم اور صحت کے تین شعبے ایسے آتے ہیں جن کو ریاست کی ذمے داری ہونا چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ریاست کی ذمے داری اسی صورت میں ہوگی اگر وہ خود سکول اور ہسپتال بنائے اور چلائے۔ ہم نواز شریف کے دور میں شروع ہونے والے اور عمران خان کے دور میں فروغ پانے والے صحت کارڈ کو دیکھ چکے ہیں جو ایک کامیاب ماڈل تھا۔
تعلیم میں پیف اور پیما کے ماڈلز بھی موجود ہیں جن پر پنجاب کی موجودہ حکومت پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا ایک نیا تجربہ کرنے جا رہی ہے۔ جو ماڈل مجھے بتایا اور دکھایا گیا ہے وہ شاندار ہے۔ اس وقت سرکار ایک بچے پراپنے سکولوں میں تقریباً تین ہزار روپے ماہانہ خرچ کرکے وہ نتائج نہیں لے پا رہی جو پیف اور پیما میں صرف ساڑھے چھ سور وپے دے کر مل رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہم ان تین شعبوں کو اگر مکمل طور پر پرائیویٹائز نہ بھی کریں تو کم از کم پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے کسی شاندار ماڈل پر ضرور لے جا سکتے ہیں۔
امن و امان کے حوالے سے پہلے ہی ہم تاجروں وغیرہ کو قانون سازی کرکے ذمے داری دے چکے ہیں کہ وہ اپنی سیکورٹی کا بہت بڑا انتظام خو دکریں، ہاں، تنازعات کی صورت میں پولیس اور عدلیہ کی ضرورت ہے مگر مجھے وہاں بھی کہنا ہے کہ ہماری عدلیہ بھی نتائج نہیں دے پا رہی اور ہمیں یہاں بھی آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزلیوشن، کی طرف زیادہ سے زیادہ جانا پڑے گا۔ کیا برا ہے کہ کسی چھوٹے موٹے مقدمے میں اگر برس ہا برس کی تاریخیں پڑ رہی ہیں تو فریقین بلدیاتی نظام سمیت کسی بھی متبادل طریقے فوری طور پر اپنے تنازعا ت کے حل کی طرف جا سکیں۔ کوئی چاہے برا مانے مگر جرائم کے ایک ماہر نے کہا کہ آپ جس معاملے میں وکیل کو شامل کر لیتے ہیں وہ قانونی معاملہ لمبا ہوجاتاہے کیونکہ ہمارے وکلا کا یہی مفاد ہوتا ہے۔
ہم خوف رکھتے ہیں کہ ہمارے بہت سارے قیمتی اثاثے کوئی سیٹھ لے جائے گا جیسے ریلوے، پی آئی اے اور سٹیل ملز وغیرہ مگر میرا سوال یہ ہے کہ کیا وہ اثاثے اٹھا کے ملک سے باہر لے جائے گا، کیا وہ ہماری جغرافیائی حدود میں ہمارے قبضے میں نہیں ہوں گے۔ مجھے اسی پر کہناہے کہ ہمیں نجکاری کرنی ہے مگر ذمے داری کے ساتھ کرنی ہے۔ ایسی شرائط ہرگز قبول نہ کی جائیں جو ریاست کے نقصان میں ہوں۔
اب سوال یہ بھی ہے کہ ہم اپنے ٹیکسوں کی کمائی سے ان اداروں کو اربوں، کھربوں روپے دے رہے ہیں، کیوں؟ ہمیں تو بطور کلائینٹ سروسز لینی ہیں، آپ سرکاری بینکوں میں جا کے دیکھ لیجئے۔ میں اپنی رہائش کے علاقے ڈیفنس میں لالک جان چوک میں سرکاری بینک میں گیا اور وہاں کا عملہ، فرنیچر اور ماحول دیکھ کے مجھے لگا کہ میں کسی گاؤں کی آڑھت میں آ گیا ہوں جبکہ پرائیویٹ ہو جانے والے بینکوں کا سٹائل ہی مختلف ہے۔