پنجاب کی تین ڈویژنوں میں کنٹونمنٹ الیکشن میں کلین سویپ کے بعد وزیراعظم لاہور آئے تو وہ برہم تھے، انہیں برہم اپنی نااہل حکومتی، انتظامی اور سیاسی ٹیم پر ہونا چاہیے تھا مگر انہوں نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی ایک مرتبہ پھر (نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر) تعریف کی اور اپنی ساری برہمی عوام پر نکال دیا۔ یہی روز تھا جب ڈالر پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی 172 روپوں کی شرح تبادلہ پر پہنچا۔ یہی روز تھا جب لاہور میں آٹے کاتھیلا ساڑھے بارہ سو روپے میں بکا اور نان بائیوں کی تنظیم کے صدر آفتاب گل نے بالکل درست منطق اور جواز کے تحت دھمکی لگا ئی کہ اگر پیر کے روز تک آٹے کی قیمت میں کمی نہ ہوئی تو وہ روٹی بارہ اور نان اٹھارہ روپوں کا کر دیں گے۔ یہی روز تھا جب بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعدتقسیم کار کمپنیوں کی طرف سے اوور بلنگ بھی ثابت ہو گئی اور اسی روز انہوں نے اوگرا کی طرف سے پٹرول کی قیمتوں میں ایک روپے اضافے کی سمری کے جواب میں پانچ روپے اضافہ کر دیا جو غیر قانونی تھا، غیر منطقی تھا، غیر اخلاقی تھا اور ان کے عوام پرغصے کو ظاہر کر رہا تھا۔
حکمرانوں اور ان کے حواریوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ زخم لگانے کے بعداس پر نمک بھی لگاتے ہیں سو انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ اس وقت بھی خطے میں سب سے سستا پٹرول پاکستان میں مل رہا ہے اور یہاں تک کہا گیا کہ دنیا میں سب سے سستا پٹرول ہمارے ملک میں ہے۔ کہنے والے تو وزیراعظم کے فوڈ سیکورٹی کے مشیر بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے جب وہ سبزی کی دکانوں پر کدو، شلجم، کھیروں اور شلجم جیسی سبزیوں کے نرخ بھی سوروپے کلو تک پہنچا چکے ہیں۔ اس کا ترنت جواب تو سوشل میڈیا پر ہزاروں، لاکھوں یہ دے رہے ہیں کہ اگر سو ا سو روپوں کے قریب ایک لیٹر پٹرول دنیا میں سب سے سستا ہے تو پھر نواز شریف دور کا ساٹھ، ستر روپے لیٹر پٹرول کیسے مہنگا تھا اوراسد عمر کیسے ثابت کرتے تھے کہ اس وقت کے حکمران عوام کو لوٹ رہے تھے۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں پٹرول سب سے سستا ہے اور اسے انگلینڈ، امریکا اور دیگر بہت سارے ممالک کی قیمتوں کے ساتھ ملایا جاتا ہے وہ اس کے پیچھے فکری بددیانتی ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ انگلینڈ میں مہنگا پٹرول ہے اور فی لیٹر پاکستان کے تین سو روپوں کے لگ بھگ پڑتا ہے مگر اس طرح گمراہ کرنے والے کبھی یہ نہیں بتاتے کہ مہنگائی کا تعلق کسی شے کی قیمت کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ مہنگائی اور سستائی عوام کی قوت خرید سے جڑی ہوتی ہے۔ ہم انگلینڈ کے ساتھ ہی موازنہ کرتے ہیں کہ وہاں فی کس آمدن چالیس ہزار پونڈ سالانہ سے بھی زیادہ ہے اور اس وقت ایک پاونڈ میں دوسو چونتیس روپے آتے ہیں یعنی ایک عام انگریز سال کا چورانوے لاکھ روپے کما رہا ہے جو ایک مہینے کے آٹھ لاکھ پاکستانی روپوں کے قریب بنتا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں فی کس آمدن ہی سال کی سوا آٹھ لاکھ روپوں کے لگ بھگ ہے جو ماہانہ ساٹھ سے ستر ہزار روپوں کے قریب بنتی ہے۔ (مجھے پاکستان کے بارے میں یہ اعداد و شمار پیش کرنے پر معاف کیجئے گا مگر حکومتی اداروں نے یہی بنا رکھے ہیں جبکہ عملی صورتحال یہ ہے کہ ہماری کم از کم تنخواہ بیس ہزار روپے مقرر کی گئی ہے جو نوے فیصد مزدوروں کو نہیں ملتی اور عملی طور پر ہماری شہری اور دیہی آبادی کا بیشتر مزدور طبقہ پندرہ ہزار روپے ماہانہ سے کم کماتا ہے)۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری اوسط اس طرح بنتی ہے کہ حکومت یا کسی مافیا سے جڑا ایک شخص تو دس لاکھ روپے ماہانہ کما رہا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں کئی درجن شہری محض دس، بارہ ہزار۔ اس اوسط کے بارے میں کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر آپ کا ایک پاوں جلتے ہوئے کوئلوں پر اور دوسرا برف کی سل پر ہو تو اوسطا آپ مزے میں ہیں۔
اگر آپ ابھی تک اسی فکری بددیانتی اوراعداد کی ہیراپھیری کو نہیں سمجھے تو اس طرح دیکھئے کہ امریکا میں فی گھنٹہ آمدن بارہ ڈالر کے لگ بھگ ہے جوپاکستان کے دو ہزار روپے فی گھنٹہ اور ایک دن کے سولہ ہزار روپے بنتے ہیں مگر دوسری طرف پاکستان کا مزدور مہینے کا بھی سولہ ہزار روپے نہیں کماتالہذا اگر امریکا کا مزدور تین، چار ڈالر کا میکڈونلڈ کھا کر پیٹ بھر لے تو اس وہ اس کے ایک گھنٹے کی مزدوری کا بھی چوتھا حصہ اور سستا ترین کھانا ہوگا لیکن اگرپاکستانی مزدور میکڈونلڈ کھانا چاہے تو اس کی یہ پوری دن کی محنت کا معاوضہ اور عیاشی ہوگی۔ مزید سمجھئے کہ آپ کے پاس اگر ایک کروڑ روپے ہیں تو آپ کے لئے بائیس لاکھ روپے کی کلٹس ہرگز مہنگی نہیں بلکہ سستی ہے اور آپ اس سے بھی اچھی گاڑی خرید سکتے ہیں لیکن اگر آپ کے پاس دو، تین یا پانچ لاکھ روپے ہیں تو آپ کے لئے کلٹس بھی بہت مہنگی ہے اور آپ اسے خریدنے کاسوچ بھی نہیں سکتے۔ یہی فارمولہ پٹرول پر لگتا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پٹرول انڈیا اور چین سے بھی سستاہے تو دراصل ہم جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم اتنی آمدن پیدا ہی نہیں کر رہے کہ ہمارا عام آدمی وہ پٹرول خرید سکے۔ میں برملا کہتا ہوں کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت میں روزگار بڑھ رہا ہوتا تو ہم پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمت پر اعتراض نہ کرتے مگر ایک کروڑ نوکریاں دینے کے دعوے کرنے والے تین برسوں میں ستر لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو بے روزگار کر چکے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان میں بہت سارے ایسے ہیں جنہیں اپنی جائز نوکریوں سے محروم کر دیا گیا ہے جیسے میری ملاقات ہال روڈ پر ایک ایسے انجینئر سے ہوئی جو ایک کمپنی میں پچاس ہزارروپے پر ملازم تھا مگر حکومت کی ناقص پالیسیوں کے نتیجے میں جب کساد بازاری ہوئی تو کمپنی نے اپنے بہت سارے شعبے بند کر دئیے اور ایک انجینئر کو میں نے ہال روڈ پر سولہ ہزار روپے پر سیلزمینی کرتے دیکھا کیونکہ اس نے اپنے بیوی بچوں کے پیٹ کا جہنم بھرنا تھا۔
مجھے لگتا ہے کہ میرے ملک پر ایک اور ایسٹ انڈیا کمپنی مسلط کر دی گئی ہے جس کا پاکستان کے عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کاکام صر ف اور صرف ان کے بدن سے لہو کا آخری قطرہ تک نچوڑنا ہے۔ میں گذشتہ روز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے پاکستان میں ستر ہزار معصوم اورنہتے شہریوں کے ساتھ ساتھ فوجیوں کی بربریت کے ساتھ قتل کرنے والی ٹی ٹی پی کو عام معافی کی پیش کش سے حیران رہ گیا۔ مجھے آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں کا قتل عام یاد آگیا، اپنے شہر کے جی پی او چوک، مون مارکیٹ، گلشن اقبال، واہگہ بارڈر، آراے بازار سمیت کتنے ہی مقامات پر بدترین دہشت گردی کے واقعات دل چیرنے لگے۔ میں سوچنے لگا کہ اگر پاکستان اور پاکستانیوں کا کوئی بدترین دشمن بھی ان پر مسلط کر دیا جاتا توکیا ایسی بات سوچتا، ایسی بات کہتا۔ کیا ایسی پیش کش سے پہلے ہمیں فوج، پولیس، عدالتوں اور جیلوں سمیت اپنے تحفظ اور قانون کی تمام علامتوں کو ختم نہیں کر دینا چاہیے؟