میں صحافی ہوں اور عشروں سے اس شعبے سے وابستہ۔ میں ان سے بہت تنگ ہوں جو سوشل میڈیا پر محض سیاسی رائے کے اختلاف پر گالیاں دیتے ہیں، ان کے پاس تعصب اور دھڑے بندی کی بنیاد پر ملینز کی فالوور شپ ہے اوروہ جھوٹی خبریں تراشتے ہیں جیسے ابھی کرغزستان ایشو پر وہاں لاشوں کے بکھرے ہونے اور غیر ملکی طالبات کے ریپ جیسی خبریں۔ ان سے بھی جو ٹی وی سکرینوں پر بیٹھتے ہیں، جھوٹ بکتے، الزام لگاتے ہیں۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ صحافت کے شعبے کو رنڈی کے کوٹھے سے زیادہ ناقابل اعتبار اور ناقابل عزت بنا دیا گیا ہے۔ ایسے میں ہماری صحافتی تنظیموں کو اس پیغمبرانہ پیشے کی عزت اورپیشہ ورانہ اقدار کی بحالی کے لئے میدان میں آنا چاہیے تھا مگر، افسوس، وہ جھوٹوں، بلیک میلروں اور دیہاڑی بازوں کے تحفظ کے لئے سرگرم عمل ہوگئی ہیں۔
پنجاب میں منظور کیاجانے والا ہتک عزت کے خلاف قانون کیا ہے کہ جب آپ صحافی یا غیر صحافی الزام لگائے تو متاثرہ فریق اس کے خلاف عدالت چلا جائے، وہاں ایک دعویٰ دائر کر دے اور اسے کہے کہ اپنے کہے ہوئے الزام کو اپنی پسند کی تاریخوں پرجواب دیتے ہوئے ثابت کر دو اور اگر نہ کر سکو تو تیس لاکھ روپے تک ہرجانہ اداکرو۔ پنجاب ڈیفیمیشن لا، کو پڑھا جائے تو نہ اس میں پولیس ہے، نہ حوالات ہے اور نہ ہی جیل۔ یہ سول نوعیت کی مقدمے بازی ہے جس کے لئے ہائیکورٹ کے جج بننے کی اہلیت والوں کے مساوی پروفیشنل لوگوں کے ٹریبونل بنیں گے جو چھ ماہ کے اندر فیصلہ کر دیں گے۔
میرے دوستوں کا کہنا ہے کہ اس بل کو عجلت میں منظور کیا گیا ہے مگر میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ساتھ ساتھ اپنی صحافتی تنظیموں سے پوچھتا ہوں کہ اس میں غلط کیا ہے کہ اگر گالی دینے والے اور الزام لگانے والوں کو قانونی طور پر پوچھ لیا جائے یا وہ چاہتے ہیں کہ ایسی شکایات پر ہمیشہ گولیاں ہی ماری جائیں، اسکے سواا حتساب کا کوئی راستہ نہ ہو۔ کیا اس ملک میں ہر قسم کے آئینی اور انسانی حقوق چوروں، ڈاکوؤں اور بلیک میلروں کے ہی ہیں۔
مجھے افسوس کے ساتھ کہنا ہے کہ میری صحافتی تنظیمیں پہلے صرف مالکان کی ایجنٹ ہوا کرتی تھیں اور اب وہ ڈالر کمانے والے سوشل میڈیائی بلیک میلروں کی بھی ہوگئی ہیں۔ اعتراض یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ ٹریبونل کیوں؟ معمول کی عدالتیں کیوں نہیں جیسے پہلے ہم نے معمول کی عدالتوں سے بہت انصاف حاصل کر لیا ہے۔ عمران خان نے نجم سیٹھی پر الزام لگایا کہ اس نے پینتیس پنکچر لگائے ہیں، الزام والے انتخابات کو بھی دس برس سے زائد گزر گئے، کیا انصاف ملا؟
اسی عمران خان نے شہباز شریف پر بھی کرپشن کی آفر کا الزام لگایا اور شہباز شریف بھی برس ہا برس سے عدالت میں ہیں۔ یہاں شہباز شریف، نجم سیٹھی اور آئی ایس آئی کے کمانڈر تک کوالزام پر انصاف نہیں ملتا تو عام آدمی کہاں جائے، کیا امید رکھے؟ مجھے مزید افسوس کے ساتھ کہنا ہے کہ عمران خان فین کلب کے ٹائیگرز کے کلٹ کو بچانے کے لئے صحافتی تنظیموں نے صحافت کے قتل کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میرے پریس کلب نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ یوٹیوبرز کو بھی ممبر شپ دے گا اورمیں نے اس پر انا للہ و اناالیہ راجعون پڑھ لیا تھا۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس میں صحافی اور غیر صحافی کی تفریق نہیں کی گئی تو میرے نزدیک یہ زیادہ اچھا کام ہے۔ صحافی کو عام بندے زیادہ محتاط اور سچا ہونا چاہئے اور دوسرے صحافیوں کے لئے الگ ٹارگٹ کرتے قانون کیوں بنیں؟ یہ بھی کہاجا رہا ہے کہ حکومت اس قانون کا غلط استعمال کرے گی مگر سوال ہے کیسے؟ اس میں تو پولیس، ایف آئی آر ہی نہیں ہے اور دوسرا سوال ہے کہ کیا قتل سے ڈکیتی تک کے قوانین کا غلط استعمال نہیں ہوتا؟ کیا وہ سب قوانین ختم کر دئیے جائیں۔
کیا عمران خان نے آئین کا غلط استعمال کرکے اسمبلی نہیں توڑی تھی تو کیا آئین ہی نہیں ہونا چاہئے؟ بہرحال اس قانون میں راہ موجود ہے کہ اگر آپ نے صحافتی تقاضوں کے مطابق عمل کیا تو یہ جواز دیا جا سکتا ہے اور یہ بھی کہ آپ نے سچ بولا ہے یا فیئر تجزیہ کیا ہے۔ ہمارے ایک دوست آج کل سپریم کورٹ کے باہر کیمرہ مائیک پکڑے کھڑے ہوتے ہیں۔
وہ کہہ رہے ہیں کہ اس قانون میں کمنٹ کرنے یا سٹیٹمنٹ پر پابندی لگاکے بڑا ظلم کیا گیا ہے اور مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے کیسے کیسے کورٹ رپورٹرز ہیں۔ دنیا بھر میں عدالتی کارروائی پر آپ کمنٹ نہیں صرف رپورٹنگ کر سکتے ہیں۔ اعتراضات یہ بھی ہیں کہ پہلے سے قوانین موجودہیں، نئے قانون کی کیا ضرورت ہے اور میرا سوال ہے کہ ان قوانین کے تحت کتنے مجرموں کو سزائیں ہوئی ہیں؟
آئیں، میں آپ کو بتاتا ہوں کہ حقیقت میں کیا ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر تو گالی گلوچ اور الزام تراشی کابازار گرم ہی ہے۔ کسی کی ماں، بہن تک محفوظ نہیں ہے مگر دوسری طرف ہمارا ایک سیٹلائٹ چینل ہے جسے پاکستان کے ابتدائی چینلوں میں شمار کیا جاتاہے۔ اس کے خلاف پاکستان کے ہی شہری اسحاق ڈار، میاں منشا، ناصر بٹ، سید عالم شاہ، گل بخاری سمیت وہ صاحب بھی لندن میں مقدمات اور مجموعی طور پر لاکھوں پاؤنڈ جرمانے جیت چکے ہیں جن کا ادارہ اس وقت ہتک عزت قانون کے خلاف خبریں بڑھا چڑھا کے دے رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ لوگ تو لندن جا کے مقدمہ کر سکتے ہیں عام پاکستانی تو نہیں کر سکتا۔ میری بات معروف سوشل میڈیا انفلوئنسرز گوہر بٹ اور رضوان الرحمان رضی (دادا پوتا شو والے) سے ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پر انہیں اعتراض ہونا چاہئے جو یوٹیوب سے کما رہے ہیں مگر وہ اس کے حامی ہیں کیونکہ وہ ایک ذمے دار پاکستان دیکھناچاہتے ہیں تاہم رضوان رضی نے دلچسپ بات کی کہ اس قانون کے آنے کے بعد الزامات لگانے والا کلٹ ججوں کی پہلی محبت ہے سو وہ تو بچ نکلے گا مگر پکڑے رضوان رضی اور نجم ولی خان جائیں گے۔
یہ بات درست ہے کہ بہت سارے لوگ یہاں پر تحفظات رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عمران خان کے فین کلب کو بچانے کے لئے ججوں کا کوئی نہ کوئی گروپ اس قانون کوضرور معطل یا ختم کر دے گامگراس سے ہٹ کر تاریخ بتاتی ہے کہ فوج کے حوالے سے جھوٹی خبریں پھیلانے والے ایک صحافی کو توہفتوں میں تین مقدمات سے نجات مل گئی مگر دوسری طرف رضوان رضی ایک مقدمے کا سامنا چھ برس تک کرتے رہے۔
میرا بھی یہی خیال ہے کہ ہم سب جو ایک مہذب پاکستان اور ذمے دار صحافت کے لئے مہم چلا رہے ہیں، وزیراعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر بننے والے اس اچھے قانون کی حمایت کر رہے ہیں، باقی سب تو چھوٹ جائیں گے مگر ہم پکڑے جائیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ میرے خلاف سب سے پہلی گواہی بھی مریم نواز کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کی دیں گی اور وہ اس میں سمیع اللہ خان کی بھی نہیں سنیں گی۔