نئے پاکستان کے دو برسوں میں سب سے بڑے صوبے کے پانچویں آئی جی کو مشکل صورتحال کے بعد ہزیمت کا سامنا رہا جب اس کی مشاورت کے بغیردارالحکومت کے لئے پولیس کے سربراہ کا نہ صرف چناو کر لیا گیا بلکہ دروغ بہ گردن راوی اس نئے سربراہ نے آتے ہی حکم جاری کر دیا کہ شہر بھر میں اس کو اطلاع اور منظوری کے بغیر آئی جی کے کسی بھی حکم پر عمل نہ کیا جائے۔ اسی تنازعے پر صفائی دیتے ہوئے جہاں سی سی پی او نے یہ کہا کہ جب وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ایس پی ان کی کمانڈ میں کام کریں تو وہ خود کیسے کمانڈ تسلیم کرنے سے انکار کر سکتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ انہیں پولیس میں اٹھائیس برس ہوئے ہیں جبکہ آئی جی کو تیس برس یعنی پیغام یہ تھا کہ تم کون سے بہت سینئر ہو۔ ´ انہوں نے اپنے قریبی دوستوں کو بتایا کہ انہوں نے آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کو ایک معذرت واٹس ایپ کیا ہے مگر اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ سی سی پی او لاہور کا چناو وزیراعظم عمران خان کی طرف سے بھیجے گئے کچھ قابل اعتماد ساتھیوں کی ٹیم نے کیا تھا لہٰذا وہ پراعتماد تھے۔
نئے پنجاب کی پولیس کا حال یہ ہے کہ نیا پاکستان بننے کے بعد سید کلیم امام تین ماہ، محمد طاہر ایک ماہ، امجد جاوید سلیمی چھ ماہ، کیپٹن ریٹائرڈ عارف نواز خان سات ماہ ہی آئی جی رہ سکے۔ شعیب دستگیر نے دس ماہ گزار لئے تو بڑی بات ہے اور اگر یہ کہا جا رہا تھا کہ فروری میں ان کی ریٹائرمنٹ کا نوٹیفیکیشن ہوچکا ہے اور حکومت کو چاہئے کہ ان کی مدت پوری کرنے دے تو یہ باتیں ان ریاستوں اور معاشروں میں ہوتی ہیں جہاں قوانین، اداروں، روایات اور اخلاقیات کا خیال رکھا جاتا ہے، بادشاہت کے نظام میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ آئی جی پنجاب نے سی سی پی لاہور کی طرف سے ڈسپلن کی خلاف ورزی پر تین چار روز سے دفتر آنا چھوڑ رکھا تھا جس کے بعد وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار بھی اس معاملے میں آ گئے تھے۔ انہوں نے اب سابق ہوجانے والے آئی جی سے ملاقات بھی کی تھی تاہم یہ ملاقات آئی جی کے لئے مفید ثابت نہیں ہوسکی کیونکہ انہیں ہٹانے کے احکامات اوپر سے آ گئے تھے۔
پولیس سروس آف پاکستان کا پنجاب چیپٹر بھی اس معاملے میں کود پڑا اور انہوں نے باقاعدہ اجلاس منعقد کیا جس میں نئے مقرر ہونے والے سی سی پی او نے اپنی وضاحت پیش کی کہ ان کی بات کو آئی جی پنجاب تک غلط انداز میں پہنچایا گیا اور اس کے بعد انہوں نے معذرت بھی کی مگر ان کی معذرت قبول کرنے سے انکا رکر دیا گیا۔ پنجاب پولیس کو اس وقت ایک چیلنج کا بھی سامنا ہے کہ انہیں ماضی کی طرح ڈپٹی کمشنر کے تابع کیا جا رہا ہے جو اصلاحات کو ریورس گئیر لگانے کے مترادف ہے۔ معاملہ جو بھی ہو مگر یہ ایک ڈسپلنڈ فورس کے لئے قطعی طور پر اطمینان بخش صورتحال نہیں ہے جبکہ اس کی پہلے ہی صوبائی دارالحکومت میں کارکردگی زیرو سے بھی انیس پوائنٹ پیچھے ہے۔ یہ وہی لاہور پولیس ہے جس نے سانحہ ماڈل ٹاون برپا کیا تھا اور جس نے ہمیشہ حکمرانوں کے ہاتھ کی چھڑی بننے کو ہی عافیت کی راہ سمجھی ہے اور اس کی تازہ ترین مثال اپوزیشن کے کارکنوں پر بدترین تشدد کے بعد دہشت گردی کی دفعات کے ساتھ مقدمات کا اندراج ہے۔ اس امر پر تنقید کے باوجود کہ کسی بھی صوبے کی پولیس فورس کو دو برس میں چھٹا سربرا ہ نہیں ملنا چاہئے کہ اس طرح سربراہی کی اوسط عمر چار، پانچ ماہ ہی رہ جاتی ہے جس میں کوئی بھی نتائج نہیں دے سکتا مگر یہاں لاہور کے حوالے سے صورتحال سب سے بدترین ہے اور ہمیں اس پورے معاملے کا جائزہ پوائنٹ ٹو پوائنٹ لینے کی ضرورت ہے۔
پہلا نکتہ یہ کہ دو برس میں چھٹا آئی جی اچھی بات نہیں، بہت نامناسب ہے، بہت نان پروفیشنل ہے۔ دوسرا نکتہ یہ کہ جب لاہور پولیس کا سربراہ لگایا جا رہا تھا تو وزیراعظم کی طرف سے قریبی دوستوں کی ٹیم کو سی سی پی او لاہور کے لئے براہ راست انٹرویوز کرنے کے بجائے آئی جی سے رائے لینی چاہئے تھی کہ یہاں کسی ذاتی ملازم کی تقرری نہیں کی جا رہی تھی بلکہ ایک سو فیصد پروفیشنل پوسٹ کا معاملہ تھا۔ ظاہر ہے میں عمرشیخ کے تجربے سے انکار نہیں کر رہا مگر بہرحال ان کے سی سی پی او مقرر ہونے کے بعد کمنٹس نے ہی جلتی پر تیل ڈالا یعنی پہلے آئی جی کے مشورے اورمرض کے بغیر تعیناتی ہوئی اور اس کے بعد سی سی پی او صاحب نے بڑے صاحب کے پسندیدہ ہونے کا فائدہ بھی اٹھا لیا۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ آئی جی صاحب کو بھی اس کے بعد دفتر آنا نہیں چھوڑنا چاہئے تھا اور اپنی ذمہ داریاں سرانجام دینی چاہئے تھیں کہ ان کا دفتر سے غائب ہوجانا بھی نان پروفیشنل ازم میں آتا ہے۔ چوتھا نکتہ یہ ہے کہ جب سی سی پی او نے ان سے معذرت کر لی تو انہیں بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی معذرت قبول کر لینی چاہئے تھی کہ پروفیشنل پوسٹس پر ذاتی لڑائیاں نہیں ہوتیں۔ پانچواں نکتہ یہ ہے کہ کیا سابق آئی جی پنجاب، لاہور کے سابق سی سی پی او کو ہی برقرار رکھنا چاہتے تھے تو پولیس کی کارکردگی رپورٹ کے مطابق ان کا رویہ اور سرپرستی بھی درست نہیں تھی کہ سابق سی سی پی او لاہور کی سربراہی میں لاہور پولیس گزشتہ چھ ماہ سے بدترین کارکردگی کامظاہرہ کر رہی تھی۔ پنجاب کے تمام اضلاع کی کارکردگی کے لئے پولیس نے انٹرنل پوائنٹ سسٹم بنا رکھا ہے اور اب تک رپورٹ ہونے والی آخری میٹنگ میں سابق سی سی پی او کی سربراہی میں لاہور پولیس نے مائنس انیس پوائنٹ حاصل کئے تھے جبکہ دوسری طرف جھنگ پولیس کے اسی پوائنٹ تھے، بہاولنگر کے اٹھاون، چنیوٹ کے چھپن، خانیوال کے تریپن اور اوکاڑہ کے پچاس پوائنٹ تھے۔ لاہور پولیس بالترتیب اٹک، چکوال، فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، سیالکوٹ، ملتان، گوجرانوالہ اور راولپنڈی سے بھی پیچھے تھی۔ ایک طرف یہ کہاجاتا ہے کہ سابق حکومت نے تمام وسائل لاہور پر لگا دئیے اور دوسری طرف پولیس کی اتنی مایوس کن کارکردگی قطعی طور پر قابل قبول نہیں ہے۔
بات صرف اتنی ہے کہ حکمران جس طرح پولیس کو چلانے کی کوشش کر رہے ہیں اس طرح تو ایک جنرل سٹور بھی نہیں چلتا کہ وہاں کا آ پ روزانہ مینیجر بدلتے رہیں۔ حکمرانوں کے پا س اب یہ دلیل نہیں رہ گئی کہ وہ نئے ہیں یا ناتجربہ کار ہیں۔ انہیں ان معاملات میں پختگی دکھانے کی اشد ضرورت ہے۔ ان سے یہی عرض کرنی ہے کہ صاحب اس رفتار سے تو چپڑاسی بھی نہیں بدلے جاتے جس رفتار سے آپ آئی جی بدلتے جا رہے ہیں۔