اس امر سے اختلاف نہیں کہ سردار ایاز صادق پارلیمنٹ کے تقدس اور ارکان کے احترام کو یقینی بنانے کے لئے ایک تاریخ ساز کردارادا کر رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ وہ جن کے ساتھ اچھا کر رہے ہیں وہ اس اچھائی کا جواب اچھائی سے دیں گے، میرا گمان ہے کہ نہیں۔ الفاظ سخت سہی مگر یہاں دو نکتہ نظر ہیں، پہلا یہ کہ سانپ کو دودھ پلانے کا کوئی فائدہ نہیں، وہ جب اپنی کمزوری پر قابو پائے گا آپ کو ڈس لے گا مگر دوسرا نکتہ نظر " نیکی کر دریا میں ڈال" والا ہے مطلب یہ کہ آپ نے اپنی اچھی تربیت، فطرت اور عادت کے مطابق اچھائی کرنی ہے جیسے کسی دریا کے کنارے ایک بزرگ بیٹھے ایک بچھو کو ڈوبنے سے بچا رہے تھے۔
وہ بار بار پانی میں گرتا اور وہ بزرگ اسے ہاتھ سے پکڑتے اور باہر نکال لیتے۔ وہ جب اسے باہر نکالتے وہ اسی وقت ان کے ہاتھ پر کاٹ لیتا اور چلتے چلتے دوبارہ پانی میں گر جاتا۔ کسی شخص نے ان سے پوچھا، آپ بچھو کے ساتھ بار بار اچھائی کرتے ہیں، اس کی جان بچاتے ہیں اور وہ بار بار آپ کے ساتھ برائی کرتا ہے، آپ کو ڈنگ مارتا ہے۔ بزرگ مسکرائے اور بولے، میں اپنی فطرت کے مطابق عمل کرتا ہوں، وہ اپنی فطرت کے مطابق عمل کرتا ہے۔
ارکان اسمبلی کی پارلیمنٹ کی حدود کے اندر سے گرفتاری غلط تھی۔ اس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا مگر کیا اس تقریر کا دفاع کیا جاسکتاہے جو علی امین گنڈا پور نے سنگجانی میں کی۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ارکان کی گرفتاریاں کوئی عمل نہیں تھا بلکہ ردعمل تھا اور آپ کسی بھی ردعمل کو اس کا جواز بننے والے عمل کی جانچ کئے بغیر غلط قرار نہیں دے سکتے۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ پی ٹی آئی کے بانی سمیت پوری پارٹی اس تقریر کی مذمت کرتی جس میں پاک فوج، شریف فیملی اور صحافیوں کو بے ہودہ گوئی کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تھا، اس پر بیرسٹر گوہر اور گوہر ایوب نے صحافیوں کے سامنے معذرت کی تو جیل میں بیٹھے ہوئے عاقبت نااندیش لیڈر نے اسے بزدلی قرار دے دیا اور کہا کہ جو معافی مانگتا ہے اسے پی ٹی آئی میں ہی نہیں ہونا چاہئے۔
میں یہاں ایک مغالطے کی درستی چاہتا ہوں کہ کسی بھی بے ہودہ گوئی کی معذرت اور معافی ہرگز بزدلی نہیں بلکہ بہادری اور اعلیٰ ظرفی ہے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ صرف صحافیوں نہیں، فوج اور شریف فیملی سے بھی معذرت کی جاتی مگر پارٹی کے نئے سیکرٹری جنرل سے پارٹی کے کلچر اور بانی کی گائیڈ لائن کے عین مطابق فوج سے معذرت کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ شریف خاندان ایک باوقار خاندان ہے اور نواز شریف کی وضع داری ایک ضرب المثل سی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ بانی پی ٹی آئی جیسے بدتمیزی کرنے والے شخص کو بھی عمران خان صاحب کہہ کے بلاتے رہے ہیں۔
نواز شریف ہوں یا شہباز شریف، وہ ان فقروں کو نہ دہرا سکتے ہیں اور نہ ایشو بنا سکتے ہیں جو علی امین گنڈا پور نے جلسے میں بولے مگر سوال یہ ہے کہ کیا سردار ایاز صادق بھی ان فقروں کو بھول جائیں گے اور صرف یہ یاد رکھیں گے کہ وہ سپیکر قومی اسمبلی ہیں۔ کیا وہ یہ یاد نہیں رکھیں گے کہ نواز شریف ان کے لیڈر ہیں اور وہ یہ بھی یاد نہیں رکھیں گے کہ وہ مریم نواز کو اپنی بہن کہتے ہیں اور اگر کوئی سیاسی اور سماجی اخلاقیات سے عاری شخص ان کی بہن کے بارے فضول گوئی کرے تو وہ صرف اس کے ردعمل پر غصے میں ہوں گے، انہیں پہلے یاوہ گوئی پر غصے میں لال پیلاہونا چاہئے۔
کہا جا رہا ہے کہ فضول گوئی علی امین گنڈا پور نے کی ہے تو اس میں باقی ارکان اسمبلی کا کیا قصور ہے۔ سیاست اور پارلیمان میں مشترکہ ذمے داری کا اصول چلتا ہے۔ علی امین گنڈا پور نے جو غلطی کی اس کی انہیں خود معافی مانگنی چاہئے اور اگر وہ نہیں مانگتے تو ان کی پارٹی کو مانگنی چاہئے لیکن اگر وہ دونوں ہی معذرت خواہ نہ ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ ان کی پالیسی ہے۔
میں جس سردار ایاز صادق کو جانتا ہوں وہ بہت شریف النفس اوربھلا مانس بندہ ہے لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ایک شریف النفس اور بھلا مانس بندہ کسی بدمعاش سے زیادہ غیرت مند ہوتا ہے اور اپنی عزت کے بارے حساس۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ جب وہ پارلیمنٹ کے اند ر سے پی ٹی آئی کے ارکان کی گرفتاریوں کے معاملے پر برہمی کا اظہار کر رہے ہیں، اس پر ایف آئی آر درج کروانے کے بیان دے رہے ہیں، سارجنٹ ایٹ آرمز سمیت اہلکاروں کو معطل کر رہے ہیں، ان ارکان کوپروڈکشن آرڈرز کے ذریعے پارلیمنٹ میں بلوا رہے ہیں، میثاق پارلیمنٹ کرنے کی تجویز دے رہے ہیں تو کیا وہ کوئی" میثاق اخلاقیات" کی تجویز دینے بارے بھی سوچ رہے ہیں۔
میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ میثاق جمہوریت، میثاق معیشت اور میثاق پارلیمنٹ سے زیادہ اہم میثاق اخلاقیات ہے۔ ہم نے اپنی پوری نسل کو بے شرمی اور بدگوئی کرنے والوں کے سامنے پھینک دیا ہے۔ وہ تمام لوگ جو گالی کھاتے ہیں وہ قانونی اور سماجی سطح پرلاوارث ہو کے رہ جاتے ہیں۔ گالی دینے والے لچے لفنگے ہونے کے باوجود بہادر اور ہیرو بن کے دندناتے ہیں اور میرے لئے یہ معاشرہ قابل قبول نہیں ہے۔ ہمیں اس کلچر کا سوشل میڈیا پر بہت زیادہ سامنا ہے۔ بہت سارے فیک اکائونٹس ہیں اور کچھ اصلی پروفائلز بھی جو ہر وقت گالی گلوچ کرتی ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ سردار ایاز صادق صرف قومی اسمبلی کے سپیکر بن کے گنڈاپُوریت کو تحفظ دے رہے ہیں حالانکہ ان کو اچھا سپیکر بننے سے پہلے اچھا انسان بن کے پارلیمنٹرینز کو سیاسی اور سماجی اخلاقیات کی طرف لانا چاہئے۔ میں اس پر بہت واضح ہوں کہ کوئی شخص اس وقت تک اچھا جج، اچھا جرنیل، اچھا بیوروکریٹ، اچھا تاجر اور اچھا سیاستدان نہیں ہوسکتا جب تک وہ اچھا انسان نہ ہو۔
کہا جا رہا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی اس طرح پی ٹی آئی کو گھیر گھار کے پارلیمنٹ کے احترام کی طرف لا رہے ہیں اور میثاق پارلیمنٹ اس کی کڑی ہے مگر مجھے کہنا ہے کہ اگر آپ میں اپنے سیاسی مخالفین اور اس سے بھی بڑھ کے خواتین کا احترام نہیں ہے تو آپ سو مرتبہ بھی دوبارہ پیدا ہوجائیں تو آپ کسی عمارت کا احترام نہیں کر سکتے۔ میں سپیکر صاحب سے درخواست کروں گا کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ تہذیب اور تمدن ایک پورے کلچر اور ایک پورے پیکج کا نام ہوتا ہے، پی ٹی آئی نے بدتمیزی اور گالی گلوچ کا جو کلچر دیا ہے اس میں سے آپ صرف پارلیمنٹ کا احترام نہیں نکال سکتے۔
میں اپنی بات پر قائم ہوں کہ سردار ایاز صادق بہت اچھے اور بہت بھلے آدمی ہیں۔ وہ بطور کسٹوڈین آف دی ہائوس جو کر رہے ہیں وہ بہت اچھا اور بہت بھلا ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ جن کے لئے کر رہے ہیں وہ بھی اتنے ہی اچھے اور اتنے ہی بھلے ہیں؟