آج نیب نے ایک نیانوٹس جاری کر دیا ہے کہ مئی کی سخت گرمی میں حاضر ہوجاو اورمیرا خیال ہے کہ وہ مجھے کرونا پر متحرک ہونے پر گرفتار کرنا چاہتے ہیں کیونکہمیں نے حکومت کی نااہلی کوپوری طرح ایکسپوز کر کے رکھ دیا ہے مگرانہی دو صحافیوں میں سے ایک کا اصرار ہے کہمیں نے لندن سے واپس آ کر معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، جی ہاں، وہی صحافی جن کے ذریعے میں الیکشن سے پہلے اپنے اور ان کے دوستوں سے اپنی کابینہ منظور کروا رہاتھا کہ بھائی جان اور مریم کے ووٹ کو عزت دو، کے نعرے نے سب معاملہ خراب کردیاتھا اگرچہ پرویز رشید کا موقف ہے کہ وہ مجھے صرف انگیج رکھنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں تھا مگر اصل بات یہ ہے کہ اگر بھائی جان اور مریم نے خاموش ہونے کے میرے اس دانشمندانہ اور دور اندیشانہ مشورے کو قبول کرنا ہی تھا تو پہلے کر لیتے اور میں نے تو ابھی پوری بات ہی نہیں بتائی کہ اگر مشرف دور میں ہی مجھے میرے گھر سے راستہ دے دیا جاتا تو میں اب تک تین، چار مرتبہ وزیراعظم بن چکا ہوتا اور پاکستان ترقی میں یورپ کو پیچھے چھوڑ چکا ہوتا، اُس وقت بھابھی نے سارا معاملہ خراب کر دیا تھا۔
میں نے دوستوں کو بتایا ہے کہ پارٹی کے نوے فیصد ارکان اسمبلی میرے ساتھ ہیں اور میری پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں، یہ بات بھی گھر اورپارٹی ہائی کمان میں طے ہوچکی کہ بھائی جان ہر مرتبہ ہی اپنی حکومت کی مدت پوری نہیں کرپاتے لہذا اب مجھے موقع ملے گا مگر مریم کا ٹوئیٹر اکاونٹ اور اس کے فالوورز، ان کے علاوہ گڑ بڑ یہ ہے کہ میرے دوست بضد ہیں کہ اپنے بھائی سے مکمل بغاوت کا اعلان کرو، اپنی شناخت الگ بناو تو اس کے بعد ہی تم قابل قبول ہوسکتے ہو اور میں کہتا ہوں کہ بھائی جان کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہیں ہے۔ اب اسی بات پر اختلاف ہے اور اسی اختلاف کی وجہ سے حمزہ اندر ہے، سلمان اور عمران کو جلاوطنی کاٹنی پڑ رہی ہے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ میرا راستہ روکنے والوں میں ایک طرف خود میرے خاندان والے ہیں جنہیں میرے ہر ذاتی اور سیاسی فیصلے سے خواہ مخواہ ہی اختلاف رہا ہے اور دوسری طرف میرے وہ دوست ہیں جن سے وفاداری نبھانے میں، میں نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ میں نے تو ہمیشہ ان کے دوستوں کو ہی اپنا دوست سمجھا، ان صحافیوں کی ہی مثال لے لیں جن کو ہمیشہمیں نے اپنے قریب رکھا، ان کو بلاناغہ گڈ مارننگ اور گڈنائیٹ کے میسج تک بھیجے چاہے وہ اپنے کالموں، پروگراموں میں ہی نہیں بلکہ نجی گفتگووں میں بھی ہماری حکومت، پارٹی اور فیملی کی ایسی تیسی کرتے رہے۔
میں رات کے اس پہر میں آبدیدہ ہوں، سوچ رہا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ مجھے کبھی سچی محبت نہیں ملی، نہ خاندان کی طرف سے نہ دوستوں کی طرف سے، کیا یہ میری وفا اور خلوص کا جواب ہے کہ مجھے نیب کے نوٹس بھیجے جائیں، حمزہ کو اندر رکھا جائے۔ میں نے عمران اور سلمان کو اسی لئے واپس نہ آنے کی ہدایت کی ہے کہ میرے وہی دو دوست صحافی بتا رہے تھے کہ حمزہ کے خلاف تو کچھ خاص نہیں ہے مگر سلمان کے خلاف کافی مواد موجود ہے۔ میں قسم اٹھا سکتا ہوں کہمیں نے کبھی رشوت نہیں لی، کبھی کرپشن نہیں کی اور چونکہمیں حمزہ کو سیاسی وراثت میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینا چاہتا تھا لہٰذا اسے بھی یہی ہدایت کی کہ کبھی مال نہ پکڑنا مگر سلمان کے بارے میں بہت پروپیگنڈہ ہو رہا ہے۔ سچی محبت کی بات کی جائے تو عوام نے بھی مجھے میری محبت کا جواب محبت سے نہیں دیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ جن ہزاروں، لاکھوں طالب علموں نے ایجوکیشن فاونڈیشن یا انڈوومنٹ فنڈ سے اپنی تعلیم مکمل کی، جن ہزاروں، لاکھوں نے مجھ سے لیپ ٹاپ لئے، جن ہزاروں لاکھوں نے میٹرو پر سستا ترین اور بہترین سفرکیا، پیلی ٹیکسیاں لیں، اخوت سے قرضے لئے وہ میرے حق میں باہر نکلیں گے مگر ان میں سے کسی نے کبھی میرے لئے تنکا تک دہرا کرنے کی زحمت نہیں کی۔
میں نے بتایا بھی ہے کہ کورونا پر صرف میں قابو پا سکتا ہوں اور ان دنوں میں ثابت بھی کیا ہے۔ خواجہ سلمان رفیق، خواجہ عمران نذیر، سائرہ افضل تارڑ، سعدیہ تیمور سب ہسپتالوں میں جا کے ڈاکٹروں میں پرسنل پروٹیکٹیو ایکویپمنٹس بانٹ رہے ہیں او راب ڈاکٹروں، نرسوں کو بھی علم ہو رہا ہے کہمیں کتنا اچھا تھا اور کتنا اچھاہوں جنہوں نے مجھے کبھی سکون سے حکومت نہیں کرنے دی۔ مجھے ڈینگی کے وہ دن یاد آتے ہیں جب میں نے بائیس، بائیس گھنٹے کام کیا تھا مگر ظٓالموں نے میری محنت کی قدر ہی نہیں کی اور اب بھی میں اگراپوزیشن میں ہونے اور کینسر کا مریض ہونے کے باوجود اتنی محنت کررہا ہوں تو مجھے اس کا صلہ ملنا چاہئے اور اگر نہیں ملتا تومیرے پاس تین راستے ہیں، ایک یہ کہمیں سیاست سے ہی الگ ہوجاوں کہ بھاڑ میں جائے یہ سب کچھ، جب کسی کو میری پروا نہیں تومیں دوسروں کی پروا کیوں کروں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہمیں اپنے بھائی اور بھتیجی کے ساتھ مل جاوں کہ اگر مجھے اتنی قربانیوں اور وفاداریوں کے بعد بھی ایک مرتبہ پھر نیب کے ہاتھوں ذلیل وخوارہی ہونا ہے، میرے بیٹوں نے جیل میں یا بیرون ملک ہی رہنا ہے تو پھر اس یک طرفہ محبت کو خیر باد کہہ دوں۔ کیا میرے دوست نہیں جانتے کہمیں نے عام انتخابات کے بعد اس سسٹم کو برقرار رکھنے کے لئے کتنی محنت کی ورنہ مولانا فضل الرحمان تو پارلیمنٹ میں نہ پہنچنے کے غصے میں سب کچھ تباہ وبرباد کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ یہمیں اور بلاول ہی تھے جن دو نے سب کچھ بچایا۔ اگر میرے ساتھ یہی کچھ کرنا ہے کہ مجھے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا نا ہے، اس کے پیچھے خوب بھگانا ہے اور دینا دلانا کچھ بھی نہیں تو پھر یہی ٹھیک ہے کہ جو نواز شریف اور مریم کا بگاڑ لیا گیا وہ میرا بھی بگاڑ لیں۔
مگرمجھے ایک مرتبہ پھر سوچنا چاہےے۔ یہ درست کہمیں ایک سیریس پیشنٹ ہوں اور یہ بھی درست کہ معاملات طے کروانے والے صحافی نما دوستوں نے جو کچھ بتایا وہ سب اک سراب، ایک دھوکا نکلا۔ کابینہ میرے ساتھ بن رہی تھی اور وزیراعظم عمران خان بن گیا۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ میرا بلڈ پریشر ہائی ہو رہا ہے، میں جذباتی ہو رہا ہوں، مجھے دوا لے کر حکمت عملی طے کرنی چاہئے، مجھے اپنی عمر بھر کی محنت ضائع نہیں کرنی چاہئے، بڑی مشکل سے بھائی جان اور مریم کو سمجھایا ہے، یوں بھی امید بن رہی ہے کہ اگلے بجٹ کے بعد مجھے موقع مل سکتا ہے۔ مجھے غصہ تھوکتے ہوئے صبح اپنے انہی دو صحافی دوستوں سے دوبارہ رابطہ کرنا چاہئے اور انہیں بتانا چاہئے کہ عمران خان نے صرف قرض موخر کروائے ہیں، میں قرض معاف بھی کروا سکتا ہوں، ایک مرتبہ پھر جی ڈی پی اور گروتھ ریٹ بڑھا سکتا ہوں، ملک میں سرمایہ کاری لا سکتا ہوں، سٹاک ایکسچینج کو میں ہی دوبارہ پاوں پر کھڑا کر سکتا ہوں کیونکہمیں محنتی ہوں، دیانتدار ہوں اور یاروں کا یار ہوں بس فی الوقت اتنا ہی ہوجائے کہ نیب کا نوٹس واپس ہوجائے تو اس سے بھی میری بلے بلے ہوجائے گی۔ اس وقت رات کے چار بج گئے ہیں اور مجھے صبح چھ بجے اس آپشن پر کام شروع کردینا ہے، میرے لئے یہ دو گھنٹے کی نیند بھی کافی ہے تاہم ابھی میں اپنے رابطہ کار دونوں صحافی دوستوں کو وہ مشہوروالا شعر واٹس ایپ کردیتا ہوں تاکہ انہیں علم ہوجائے کہ آج کیا کرنا ہے، عزم ویقیں سے قافلہ کہاں سے برآمد کرناہے، ایڑھیاں کہاں پررگڑنی ہیں اور چشمہ کہاں سے نکلنا ہے۔
وطن کی مٹی مجھے ایڑھیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے چشمہ یہیں سے نکلے گا