شہزادہ سلیم، لاہور کارڈیلرز فیڈریشن اورجیل روڈٹریڈرزایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔ ہمار ی لاہورکی جیل روڈ نئی اورپرانی کاروں کی خریدو فروخت کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، اس کے ساتھ ساتھ ڈیفنس، سمن آباد، فیصل ٹاؤن کی مارکیٹوں میں بھی یہ کام ہوتا ہے۔ آپ شہزادہ سلیم سے ملیں گے تو اندازہ ہوگاکہ یہ وہی شہزادہ بندہ ہے جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتا ہے اور ہر فکرفاقے سے آزاد ہوتا ہے۔ ہمارے لاہور کے ایسے شہزادے عمومی طور پر تحریک انصاف سے ہی وابستہ تھے اور خود شہزادہ صاحب بتاتے ہیں کہ جب جناب عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال کے لئے چندہ مہم شروع کی تو وہ تاجروں میں سے اس مہم کے سرخیلوں میں تھے۔ وہ جیل روڈ پر اپنے شوروم کی طرف اشارہ کر کے دکھا رہے تھے کہ عمران خان نے چندہ مہم کے دوران یہاں عصر کی نمازکی امامت کروائی تھی اور وہ مقتدیوں میں تھے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ انہوں نے زندگی بھر ووٹ کاسٹ نہیں کیا مگر اس مرتبہ وہ اپنے گھروالوں کے ساتھ باقاعدہ لائن میں لگ کے ووٹ ڈالنے گئے تھے اور ظاہر ہے کہ انہوں نے بلے پر ہی ٹھپے لگائے تھے۔
اب شہزادہ سلیم کم و بیش وہی کہتے ہیں جو ینگ ڈاکٹرزکہتے ہیں، جی ہاں، وہی ینگ ڈاکٹرز جو نسخے پر لکھ کر دیتے تھے کہ علاج کے لئے دووقت دوا کھائیں اور ٹھپہ بلے پر لگائیں اور پھر یوں ہواکہ ان کا مکمل علاج ہو گیا۔ ایم ٹی آئی، بننے کے بعدپی ایم سی، بھی آ گیا ہے اور یہ دونوں ان کے پروفیشن کے لئے کیا بلائیں ہیں، یہ وہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ شہزادہ سلیم کا تازہ ترین مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نے پرانی گاڑیوں کی خرید و فروخت پر بھی سترہ فیصد سیلز ٹیکس عائد کر دیا ہے۔ میں تازہ ترین اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ ان دوبرسوں میں ہرتھوڑے دنوں کے بعد ان کو ایک نئے مسئلے کا سامنا ہوتا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ تویہ رہا کہ موجودہ دور میں گاڑیوں کی قیمتیں دوگنا کے قریب بڑھ گئی ہیں جبکہ عوام کی قوت خرید آدھی رہ گئی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ا یک ہی جیپ فورچُون، بنتی تھی جو پرانے پاکستان میں پنتالیس لاکھ روپوں میں مل جاتی تھی مگر نئے پاکستان میں اس کی قیمت ایک کروڑ پانچ لاکھ روپے ہے اور یقینی طو ر پر اس میں سونے کا سٹئیرنگ یا چاندی کی سیٹیں بھی نہیں لگائی گئیں۔ ہونڈاسوک ہمارے شہرمیں رہنے والے امیروں یا ہونڈا سٹی اپر مڈل کلاس کی بہترین چوائس ہوا کرتی تھی، سوک پرانے پاکستان میں چھبیس لاکھ روپوں میں مل رہی تھی اور اب اس کا مکمل پیکج چھیالیس لاکھ روپوں میں ہے۔ ہمارے دیہی علاقوں کے چودھریوں کی اولین پسند ٹویوٹا کورولا جو انیس، بیس لاکھ کی ہوتی تھی اب پینتیس چھتیس لاکھ روپوں کی ہوچکی ہے۔ مڈل یا ورکنگ کلاس کی سوزوکی ویگن آر جو کریم اور اوُبر وغیرہ کے کام کی بھی پسندیدہ ترین سوار ی ہے وہ نولاکھ روپوں سے ساڑھے سولہ لاکھ روپوں تک پہنچ چکی ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھاکہ ایک بندہ دو، چار لاکھ روپے بچا کے گاڑی کاماڈل بدل لیتا تھا مگر اب یہ کام اتنی بچت میں نہیں ہوسکتا بلکہ آپ جیب میں دس لاکھ روپے لے کر جائیں تو پرانے پاکستان میں کلٹس یا چھ سو ساٹھ سی سی کوئی اچھی سی امپورٹڈ ری کنڈیشنڈ گاڑی لے آتے تھے مگر اب اس رقم میں آپ کو کاٹ کر آدھی پونی گاڑی ہی ملے گی۔
بات نئی گاڑی مہنگی ہونے تک ہوتی تب بھی قابل برداشت تھی مگرمعاملہ اب پرانی گاڑیوں تک آ پہنچا ہے۔ حکومت ہر نئی گاڑی کی سیل پر سترہ فیصد سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس وغیرہ وصول کرتی ہے جو قابل فہم ہے مگر اب پرانی گاڑیوں کی سیل پرچیز پر بھی جہاں بنک اکاونٹ کے ذریعے ٹرانزیکشن کی شرط عائد کر دی گئی ہے وہاں اس پر سیلز ٹیکس بھی عائد ہو گیا ہے یعنی ایک گاڑی جتنی مرتبہ فروخت ہو گئی اس کے منافع سے سیلز ٹیکس منہا ہو گا، فائلر اورنان فائلر کے لئے ٹیکسوں کے تحفے الگ ہیں۔ تاجروں کا کہنا یہ ہے کہ کسی ایک پراڈکٹ پر ایک ہی مرتبہ سیلز ٹیکس لیا جاسکتا ہے ہرمرتبہ وصولی ڈبل ٹرپل ٹیکسیشن ہے۔ میں نے تاجروں سے کہاکہ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ٹیکس خریداروں پر ہے حالانکہ میں خودبھی جانتا ہوں کہ ہر ٹیکس گاہکوں پر ہی ہوتا ہے اور قیمت میں شامل ہوجاتا ہے۔ تاجروں نے اس کابھی جواب دیا اورکہا اگر یہ ٹیکس ہم پر ہے تو کیا ہم سے اسی منافعے پر انکم ٹیکس نہیں لیا جاتا یوں جب ہم اسی پرافٹ پر انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں تو اسی پر سیلزٹیکس لگادینا بھی ڈبل ٹیکسیشن میں آتا ہے۔ یہ بھی پابندی ہے کہ اب جوبھی گاڑی لے گا اس کی ادائیگی چیک کے ذریعے ہو گی اور پھر اس کا ریکارڈ ایف بی آرکو دیا جائے گا یعنی آپ پرانی اور استعمال شدہ گاڑی لینے والے کے لئے بھی خوف و ہراس کی فضا پیداکر رہے ہیں۔ گاڑیوں کی سیل پرچیز کاکام پہلے ہی ٹھپ ہے، ملک بھر میں گاڑیوں کے تیس سے چالیس فیصد شوروم بند ہوچکے ہیں اورموجودہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے اچھا خاصا کاروبار کرتے ہوئے کارڈ یلر قرضوں تلے یوں دب چکے ہیں کہ ان میں سے تین کراچی، فیصل آباد اور ساہیوال میں خود کشی کر چکے ہیں۔ شہزادہ سلیم نے میرے ساتھ بات کرتے ہوئے جیل روڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر اقبال خاں کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ یہ اپنا شوروم بیچ چکے ہیں اور اب خود کشی کے بارے سوچ رہے ہیں۔ میں نے اقبال خان کو چھیڑا تو وہ بھی حکومت کے خلاف پھٹ پڑے اوریوں بولے کہ مجھے پوچھنا پڑ گیا کہ میں کارڈیلروں کے ساتھ موجود ہوں یایہ عمران خان کی حکومت کے خلاف نواز لیگ والوں کے غصیلے کارکنوں کاکوئی اجتماع ہے۔
عمران خان صاحب ہمیں بتایا کرتے تھے کہ فلاں ملک کا وزیراعظم سائیکل پر اپنے دفتر جاتا ہے مگر اب یوں لگتا ہے کہ وہ پوری قوم کو ہی سائیکل پر لانا چاہتے ہیں حالانکہ ابھی تازہ ترین خبروں کے مطابق انہوں نے قواعد میں تبدیلی کرتے ہوئے تینتیس بلٹ پروف مہنگی ترین گاڑیوں کے ایوان وزیراعظم، ایوان صدر کے ساتھ ساتھ وزراءکے استعمال کی بھی منظوری دے دی ہے جبکہ ایسی بلٹ پروف گاڑیوں کے حوالے سے سابق وزرائے اعظم پر توشہ خانہ کیس بنا ہوا ہے اور ایوان وزیراعظم کی گاڑیاں وہاں کی بھینسوں کے ساتھ ساتھ فروخت کی جا چکی ہیں۔ میں چاہتا تھا کہ شہزادہ سلیم کی بات سن لی جائے جو عمران خان کا ساتھ دینے اورتحریک انصاف کو ووٹ دینے پر توبہ توبہ کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس سے پہلے کا دور بہت اچھا تھامگر میرے خیال میں اس وقت شہزادہ سلیم کی بات سننے کے لئے کسی کے پاس وقت نہیں ہے اور یوں بھی ان شہزادوں نے کتنے ہی برسوں سے کرپشن کرپشن کا شورمچا کے انت مچائی ہوئی تھی، ہمیں ثاقب نثار کا صادق اورامین دکھا دکھا کے ریاست مدینہ کا شور مچایا کرتے تھے اور جب مجوزہ ریاست مدینہ بن گئی ہے تو خود ان کی اپنی چیخیں نکل گئی ہیں۔ اس دور کی ایک سب سے بڑی خوبی، یہ ہے کہ یہ کسی کی بھی بات نہیں سنتے بلکہ وزرا تو سٹیک ہولڈڑز سے ملنے کی بھی زحمت نہیں کرتے ورنہ اس سے پہلے یہی تاجر وفاقی اور صوبائی وزیروں کو اپنے گھر کی مرغی اوردال برابر سمجھاکرتے تھے مگر اب انہیں دال روٹی کا بھاو اچھی طرح معلوم ہو گیا ہے جب ان دوبرسوں میں انہوں نے گذشتہ پندرہ برسوں کی کمائی اوربچت بھی کھا پی کربرابرکرلی ہے۔ اس وقت گاڑیوں کے شوروم خریداروں سے خالی پڑے ہیں، امپورٹڈ گاڑیاں آنی بند ہوچکیں، لوکل اسمبلڈ گاڑیوں کی سیل آدھی رہ چکی، ان کے پلانٹ جو کبھی ڈیمانڈ پوری نہیں کرتے تھے اب ہفتہ ہفتہ اور پندرہ پندرہ دن بند رہتے ہیں۔ ویسے یہ گاڑیوں والے ہی زیادہ تھے جو تبدیلی چاہتے تھے۔ اب شہزادہ سلیم سمیت بہت سارے شہزادے تسلیم کرتے ہیں کہ تبدیلی آچکی ہے مگر ایک خوبصورت خواب کی تعبیر بہت خوفناک نکلی ہے۔