جماعت اسلامی نے بجلی کے بلوں میں بے تحاشا اور ناقابل برداشت اضافے کے خلاف دھرنا دیا۔ جب یہ دھرنا دینے جا رہے تھے تو حکومت نے انہیں ڈی چوک یعنی پارلیمنٹ کے سامنے اورڈپلومیٹک انکلیو کے قریب آنے سے باقاعدہ کنٹینر لگا کے روکا۔ شروع میں جماعت کے رہنما غصے میں بھی آئے کہ جہاں پی ٹی آئی لمبا چوڑا دھرنا دیتی رہی وہاں ہم کیوں نہیں کے جا کے بیٹھ سکتے۔
میں اس روز اسلام آباد جا رہا تھا۔ موٹروے کھلی ہوئی تھی مگر اسے اسلام آباد سے جوڑنے والی ایکسپریس وے جی ٹی روڈ پر کنٹینر رکھ کے بند کی گئی تھی۔ ہم نے جی ٹی رود سے ایک ٹرن لیا اور دوبارہ ایکسپریس وے پر ہو گئے اوراس کے بعداگلے کنٹینر ڈی چوک اور میریٹ ہوٹل کے باہر ملے۔ مجھے بے نظیر حکومت کے آخری دنوں میں مرد مجاہد قاضی حسین کا دیا ہوا دھرنا بھی یاد آ گیا۔ اس وقت کی حکومت نے گوجرانوالہ، گجرات، جہلم سمیت مختلف شہروں میں جی ٹی روڈ پر خندقیں کھود کے اور مٹی کے پہاڑ بنا کے راستے روکے تھے مگر ہم پھر بھی امیر العظیم بھائی اور منصور جعفر کی معیت میں لیاقت باغ پہنچ گئے تھے۔
رات سامنے والے ہوٹل میں قیام تھا اور اگلی صبح ڈی چوک پہنچنا تھا۔ قاضی حسین احمد کے ساتھ مری روڈ پر مارچ کرتے ہوئے میں نے بطو رصحافی اس روز جتنی آنسو گیس کھائی تھی زندگی میں کبھی دوبارہ نہیں کھائی۔ اس روز سید منور حسن ڈی چوک پہنچنے اور وہاں نماز ادا کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس سیاسی تحریک کے بعد فاروق لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کر دی تھی مگر جماعت اسلامی کو کچھ نہیں ملا تھا۔
اس مرتبہ بھی جب جماعت اسلامی کے دوست اصرار کررہے تھے کہ ڈی چوک پہنچنا ہے تو میرا کہنا تھا کہ کیا بجلی کی قیمتوں میں کمی ڈی چوک پہنچ کر ہی ہو سکتی ہے، لیاقت باغ میں دھرنے سے نہیں ہو سکتی۔ جماعت اسلامی کے دھرنے سے تکلیف حکومت کو ہونی چاہئے تھی مگر ایک اور سیاسی جماعت کو ہوئی۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ حافظ نعیم الرحمان ان کے ہینڈ سم کے مقابلے میں ہینڈ سم بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ویسے ان کے ذہنوں میں موجود خدشات اور خطرات اتنے غلط بھی نہیں ہیں کہ اگر حافظ نعیم الرحمان جنہوں نے کراچی جیسے شہر کو فتح کیا وہ اگر کچھ شاندار سٹروکس کھیلیں تو اپوزیشن کی بڑی جماعت کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں۔
میں اس دھرنے کے دوران ان کی تصویریں دیکھتا رہا کہ وہ عوام کے ساتھ سوئے ہوئے تھے اور ان کے لئے کوئی دوسرا انتظام بھی نہیں تھا۔ میں نے پوچھا کہ وہ کسی دوسرے لیڈر کی طرح ویڈیو بنوا کے چپ کرکے نکل تو نہیں جاتے تھے اور گھر جا کے تو نہیں سو جاتے تھے مگر پتا چلا کہ ایسا نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا پر یہ تصاویر بہت وائرل ہوئیں کہ وہ اپنے نہیں بلکہ ہمارے بلوں میں کمی کے لئے احتجاج کر رہے ہیں۔ وہاں باپردہ خواتین تھیں اور ان کے احترام کا پورا انتظام بھی تھا۔
اسلامی جمعیت طلبا کے نوجوان کسی بھی دوسری طلباتنظیم کے کارکنوں کے مقابلے میں زیادہ مہذب ہیں۔ بہرحال اصل بات کی طرف آتا ہوں کہ میرے خیال میں حکومت بھی بجلی کے بلوں کے مسئلے پر پریشان ہے اور اسے حل کرنا چاہتی ہے مگر وزارت بجلی و پانی اور وزارت خزانہ کا خیال ہے کہ اگر معاہدوں کو ختم کیا گیا تو اس سے سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہوگی اور اس وقت سرمایہ کاری ہی پاکستان کی لائف لائن ہے لیکن اس پر اجماع امت ہے کہ آئی پی پیز کو ہونے والی کپے سٹی پیمنٹس بھی بند ہونی چاہئیں۔
مجھے اصل خوشی تو اس بات کی ہوئی کہ اس دھرنے میں نہ تو کوئی ہلڑ بازی تھی اور نہ ہی بدتمیزی۔ مجھے مزا تو اس وقت آیا جب وزیر اطلاعات عطا تارڑ اور وزیر داخلہ محسن نقوی سٹیج پر موجود تھے اور میرے پرانے محلے دار جناب لیاقت بلوچ اپنے منفرد انداز اور لہجے میں خطاب کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ مجمع حافظ، حافظ کے نعرے لگا رہا تھا تو انہوں نے دیکھا کہ محسن نقوی اور عطا تارڑ مسکرا رہے تھے جس پر لیاقت بلوچ نے انہیں بتایا کہ یہ آپ کے حافظ نہیں ہمارے حافظ کے نعرے لگا رہے ہیں جس پر سب ہنس پڑے۔
لیاقت بلوچ بھی کیا خوب شخصیت ہیں۔ سیاست میں توازن اور وضع داری کی علامت۔ انتہائی سمجھدار، بردبار اور متحمل مزاج۔ میں ان کی ڈیسنٹ جگتوں کا فین ہوں اور اگر جماعت اسلامی میں ہوتا تو امارت کے لئے میر اووٹ ان کا ہوتا کیونکہ وہ جماعت اسلامی کو طاقت اور اقتدار کے قریب لے جانے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ حافظ نعیم الرحمان بھی نیشنل اننگز کے آغاز پرنیچے یا دھیمے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی اوپننگ میں سیاسی بلے بازی ایسی کی ہے کہ عوام کی توجہ بھی لی ہے اور کئی دوسرے بلے بازوں کی نیندیں بھی حرام کی ہیں۔
حافظ نعیم الرحمان کی سیاسی سوجھ بوجھ اس سے پتا چلی کہ انہوں نے مذاکرات کے لئے کمیٹی کی سربراہی لیاقت بلوچ کو دی اور دوسری طرف سے عطاتارڑ تھے جنہیں آپ اپنی شخصیت، اخلاق اور کردار میں جماعت اسلامی پلس بھی سمجھ سکتے ہیں۔ مذاکرات پر مذاکرات ہوئے اور پھر وہی ہوا جو دو سمجھدار سیاسی جماعتیں کرتی ہیں کہ جو حق اور سچ تھا اس پر اتفاق کر لیا۔ میں جانتا ہوں کہ وزیراعظم شہباز شریف بھی بلوں میں کمی چاہتے ہیں اوراس کے لئے وہ صدر زرداری اور سپہ سالار جنرل عاصم منیر سے بھی مشاورتی عمل میں ہیں اوریہاں جماعت اسلامی کے دھرنے اور دباؤ نے اپنے کام کو تیز کرنے کاموقع دے دیا اور بہت ساروں کے سامنے ایک فیس سیونگ کہ اب ہم کیا کریں۔ ان سب کا ٹارگٹ عوام کو ریلیف ہے۔
عامل صحافی کی کالم نویسی میں واقعات گھسے چلے آتے ہیں سو آپ سوال کریں گے اس کالم کا عنوان یہ کیوں ہوا کہ شکریہ جماعت اسلامی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جماعت اسلامی کا پہلا شکریہ تو اس لئے کہ اس نے ہم سب کے مسائل کے حل کے لئے آواز بلند کی، خاص طو رپر اس مسئلے کے حل کے لئے جو ہم سب کے لئے جان لیوا ہو چکا ورنہ ہماری نام نہاد اپوزیشن کے مسائل اور معاملات ہی کچھ اور ہیں، وہ بھارت میں جشن برپا کرنے والے نو مئی کرنے اور پاکستان کو معاشی موت دینے کے لئے آئی ایم ایف کو خط لکھنے کی سیاست کرتی ہے۔
جماعت اسلامی کا دوسرا شکریہ اس لئے کہ اس نے انتشاری اور فسادی دھرنے کی بجائے مکمل طورپر عوامی، سیاسی اور اخلاقی دھرنا دیا ورنہ ہم تو دھرنوں کو جتھوں کی دھونس، دھاندلی اوربدمعاشی ہی سمجھ بیٹھے تھے۔ جماعت اسلامی کا تیسرا شکریہ اس لئے کہ وہ نے حکومت کو سات نکاتی معاہدے پر مجبور کر دیا اور اب امید ہے اس کے تمام نکات پر عمل ہوگا اور یہی اصل سیاست اور جمہوریت ہے۔ مجھے اس پولیٹیکل ایکٹیویٹی میں بہت مزا آیا۔ مجھے امید ہے کہ بہت جلد بجلی کے بلوں میں کمی ہوگی اوراس کا کریڈٹ جماعت اسلامی لے سکے گی۔