Sunday, 24 November 2024
  1. Home/
  2. Najam Wali Khan/
  3. Thief Minister, Crime Minister

Thief Minister, Crime Minister

مریم نواز کی بطور وزیراعلیٰ محنت اور کارکردگی پر پی ٹی آئی کے دوستوں کی جلن اور تکلیف کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ان کی ہر ایکٹیویٹی کو ڈراما قرار دے رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ جہاں بھی جاتی ہیں ان کے کیمرہ مین ان کے ساتھ ہوتے ہیں، بھئی، سرکاری کیمرہ مینوں کی ڈیوٹی ہی یہ ہے کہ وہ چیف منسٹر کی ایکٹیویٹیز کی کوریج کرتے رہیں۔

یہ بات کہنے والے وہ ہیں جنہیں ایک شخص کے ہیلی کاپٹر میں نماز پڑھنے کی ویڈیو بنوانے اور جاری کرنے پر بھی اعتراض نہیں تھا حالانکہ ہیلی کاپٹر میں نماز پڑھنا ان صاحب کا سراسر ذاتی فعل تھا جس کی نہ ویڈیو گرافی کی ضرورت تھی اور نہ ہی ریلیز کئے جانے کی۔

کسی کو اس بات سے تکلیف ہوجاتی ہے کہ وزیراعلیٰ لڑکیوں کو اپنے گلے کیوں لگا لیتی ہیں اور کسی کو یہ بات بہت ہی پرسنل سپیس میں مداخلت لگتی ہے جب وہ خواتین سے پوچھتی ہیں کہ وہ آج کیا پکا رہی ہیں مگر انہیں اس وقت اپنا لیڈر کسی کی پرسنل سپیس میں مداخلت کرتا ہوا نظر نہیں آتا تھا جب وہ دوپٹہ لے کر اسی شخص کی گھٹیا سی نقل اتارتا تھا جسے بعد میں اس نے خود ہی صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ وہ اس وقت بھی کسی کی پرسنل پرسٹیج کو ڈیمیج کرتا ہوا نظر نہیں آتا تھا جب وہ خاتون جج کو دھمکیاں دیتا تھا۔ جب وہ سیاسی مخالف خاتون رہنما کا نام لے کر کہتا تھا کہ وہ اس کا نام یوں نہ لیا کرے کہ کہیں اس کا شوہر اس سے اس بات پر ناراض ہی نہ ہوجائے۔

مجھے پی ٹی آئی کے رہنماؤں او ر کارکنوں کی طرف سے تنقید پر کوئی اعتراض نہیں، اپوزیشن تنقید نہیں کرے گی تو اور کیا کرے گی مگر وہ سب یقینی طور پر وہ گندگی اور غلاظت کے ڈھیر تھے۔ مریم نواز کی سرگرمیوں کو ڈراما کہنے والے وہ ہیں جوارب پتی ہونے کے باوجود ایسی قمیضیں پہن کر تصویریں کھنچواتے تھے جن میں موریاں ہوتی تھیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کیمروں کے سامنے بھی یہ مشورہ دیتے ہوئے نہیں ہچکچاتے تھے کہ اس میں اسلامی ٹچ دے دیں یعنی مذہبی کارڈ کھیلیں۔

مجھے ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ پنجاب کی واضح اکثریت سے منتخب ہونے والی وزیراعلیٰ کو تھیف منسٹر کہہ کے پکارا جا رہا ہے اور کہنے والے وہ ہیں جو نہ صرف خود عدالتی تصدیق یافتہ چور ہیں بلکہ دہشت گرد بھی ہیں۔ ایک خاتون کی جن کی ہمشیرہ نومئی کے واقعات میں باقاعدہ ڈنڈا بردار ہو کے کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ آور نظر آتی ہیں وہ وزیراعلیٰ کو اس لقب سے پکار رہی ہیں۔

یہ معاملہ بھی عجب ہے کہ ایک طرف پی ٹی آئی کہتی ہے کہ وہ نو مئی کے واقعات میں ملوث نہیں ہے اور خود کو معصوم قرار دیتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ بھی کرتی ہے مگر دوسری طرف اس کی قومی اسمبلی سے سینیٹ تک کی ٹکٹوں کا میرٹ اب صرف اور صرف نو مئی کو کئے جانے والے حملوں میں زیادہ سے زیادہ گھنائونا کردار ہے۔ ویسے اگر پی ٹی آئی والوں کی تعریف مان لی جائے کہ مسلم لیگ نون نے حالیہ انتخابات میں کسی قسم کا مینڈیٹ چوری کیا ہے اور اسی کے نتیجے میں مریم نواز کو وزیراعلیٰ کا عہدہ ملا ہے تو پھر انہیں یہ اعزاز سب سے پہلے عمران خان اور عثمان بُزدار کودینا چاہئے۔

2018ء کے انتخابات کا تھیفٹ اب کوئی ڈھکی چھپی واردات نہیں رہ گئی۔ اس کے لئے باقاعدہ طور پر امیدوار اغوا کئے گئے۔ ان سے ٹکٹیں واپس کروائی گئیں۔ جنوبی پنجاب محاذ بنوایا گیا۔ آر ٹی ایس بند کروایا گیا، وغیرہ وغیرہ۔ بلاول بھٹو زرداری نے تو ایوان میں بہت ہی مہذب لفظ استعمال کیا تھا اور سلیکٹڈ پرائم منسٹر کہا تھا حالانکہ جس طرح ووٹ پر ڈاکا ڈالا گیا گیا تھا اورا سکے بعد جس قسم کے کردار کا مظاہر ہ کیا تھا وہ پرائم منسٹر والا نہیں، کرائم منسٹر والا تھا۔

پنجاب کی تاریخ میں ا گر کسی کو تھیف منسٹر کا لقب مل سکتا ہے تو وہ اس کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا حقدار پی ٹی آئی کا وہ چیف منسٹر پنجاب ہے جس کا نام عثمان بُزدار ہے۔ حیرت ہے کہ پی ٹی آئی ایک سروے میں یہ کہلواتی ہے کہ اسے پڑھے لکھوں نے ووٹ دئیے اور انہی پڑھے لکھوں نے ایک آلو اور گونگلو کو وزیراعلیٰ مان لیا جو ساڑھے تین، چار برس تک ٹرین، ہوتا رہا۔

تھیف منسٹر کہنا ہے تو اسے کہیں جسے عمران خان نے خود پارٹی میں میرٹ اور اہلیت کا تھیفٹ کرکے صحیح معنوں میں تھیف منسٹر لگایا تھا۔ بات غیر اخلاقی ہوجائے گی مگر عدالت کا فیصلہ ہے۔ یہ کہنے والے وہ ہیں جنہیں ایک پیر خانے سے ایک بیوی کا ثابت شدہ تھیفٹ بھی برا نہیں لگا۔ انہیں توشہ خانے سے گھڑی کے تھیفٹ سے بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ ان کی آنکھیں عشروں سے زکوات و صدقات کے تھیفٹ پر بھی اسی طرح بند ہیں جس طرح امریکی عدالت کے فیصلے مطابق ٹیریان خان کی ولدیت پر۔

مریم نواز کو تھیف منسٹر کہنے والے اس پرائم منسٹر کو کرائم منسٹر کیوں نہیں کہتے جوہر طرح کے آئینی، سیاسی، اخلاقی، مذہبی اور مالی جرائم کاثابت شدہ مجرم ہے۔ اس نے آئین کو سبوتاژ کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو غیر آئینی طریقے سے توڑا۔ اس نے سیاسی رواداری کے اعلیٰ ترین رویوں کا قتل کیا۔ اس نے اوراس کے ٹولے نے کسی مخالف کی عزت نہیں کی۔ اس نے قرآنی آیات سے عدت جیسے عائلی قوانین کو پامال کیا۔ اس نے گھڑی سمیت بہت ساری چوریاں کیں۔ یہ سب کچھ عدالتی فیصلوں سے ثابت ہے۔

جی ہاں، تھیف منسٹر کہنا ہے تو اسے کہو جس نے بشریٰ بی بی، فرح گوگی اور ٹی کے کے ساتھ مل کے ایسی ایسی دیہاڑیاں لگائیں کہ ایوان وزیراعلیٰ کا ایک ایک ملازم بلکہ ایک ایک اینٹ شرمندہ ہے۔ تھیف منسٹر وہ تھا جس کا فرنٹ مین کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کے لگانے کے تین، تین کروڑ ہی نہیں لیتا تھا بلکہ ہیلتھ اور فوڈ کے انسپکٹروں سے جیلروں تک کی تقرری کے ریٹ مقرر تھے، جائیں، جا کے ڈاکٹروں سے پوچھیں، پانچ برس تک ایم بی بی ایس کرنے والوں کو ایک نوکری نہیں دی گئی اور جو ایڈہاک نوکریاں دی گئیں وہ سب کی سب تین سے بارہ لاکھ روپے رشوت لے کر بیچی گئیں۔

پنڈی کی رنگ روڈ سے حاجیوں کے حج اور گاڑیوں پر لگی ہوئی نمبر پلیٹوں تک کون سا شعبہ تھا جس میں چوری نہیں کی گئی، ڈاکا نہیں ڈالا گیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں قومی اور صوبائی اسمبلی کی ٹکٹوں تک میں دیہاڑیاں لگائیں یعنی اپنے کارکنوں اور اپنے بچوں تک کو نہیں چھوڑا حالانکہ ڈائن بھی سات گھر چھوڑ کے کھاتی ہے اور اب تازہ ترین الزامات ہیں کہ وزارتیں تک آٹھ سے دس کروڑ میں بیچیں۔

پنجاب ہی نہیں خیبرپختونخوا کے بھی یہ وہ تھیف منسٹرز ہیں جن کی لوٹ مار کی گواہیاں ان کا شریک جرم شیر افضل مروت تک دے رہا ہے جبکہ پرویز خٹک پہلے دے چکا، علی بابا چالیس چوروں کا گروہ کا کھرب پتی بن چکا ہے اور انتہائی بے شرمی سے باتیں یہ مریم نواز شریف پر بنارہا ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran