وزیراعظم عمران خان نے قوم سے ایک سے زائد بار خطاب میں ٹائیگر فورس کے قیام کا اعلان کیا تاکہ نوجوان اس میں شامل ہوکر لاک ڈاون کے دوران گھروں میں بند غریب عوام کی مدد کر سکیں۔ تحریک انصاف کے رہنما کہتے ہیں کہ کوئی شخص بھی انٹرنیٹ پر اپنی رجسٹریشن کروا کے اس فورس کا رکن بن سکتا ہے مگر یہ ایک کتابی بات ہے اور عملی طور پر یہ فورس تحریک انصاف کے کارکنوں اور جناب عمران خان کے ذاتی حامیوں کی فورس ہے جسے باقاعدہ طور پر ایک وردی بھی دی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کی یہ ذیلی فورس ضلعی انتظامیہ ہی نہیں بلکہ پاکستان کی مسلح افواج کے ساتھ مل کر کام کر ے گی جس کی آئینی، قانونی، سیاسی اور اخلاقی طور پر کوئی توجیہہ پیش نہیں کی جا سکتی۔ میں نے سوشل میڈیا پر اس فورس کے بہت سارے پیجز دیکھے ہیں جہاں واضح طور پرسیاسی مخالفین کو گندی گالیاں اور دھمکیاں دی جار ہی ہیں۔ اس فورس پر اعتراض کرنے والے اینکروں کے نام واضح کر کے ان کے خلاف ٹرینڈ چلانے کی لائن دی جارہی ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ حال ہی میں جن کے خلاف ٹرینڈ چلائے گئے ہیں انہیں میڈیائی حلقو ں میں موجودہ پاکستان کے معمار کہا جا سکتا ہے مگر اب وہ کتے قرار پا رہے ہیں کیونکہ انہوں نے سکرین پر نشاندہی کی کہ اس فورس کا نام جناب عمران خان کے ایک کتے کے نام پر ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو فورس بنانے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہئے اور اگرکوئی حکومت یا سیاسی جماعت نوجوانوں کی تنظیم سازی کر کے اس کے ذریعے رفاعی یا سیاسی کام کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے ذیلی ونگ کا نام دے جیسے تحریک انصاف کا یوتھ ونگ۔ فورس کے نام سے فوری طور پر ذہن میں طاقت کا خیال آتا ہے اور کسی بھی ڈکشنری میں دیکھ لیجئے فورس کی تعریف طاقت ہی ہے۔ پاکستان کے آئین کوپڑھیں تو اس کے مطابق فورسز مسلح افواج ہیں یا ان کے علاوہ رینجرز اور پولیس۔ یہ بات درست ہے کہ ٹائیگر فورس مسلح فورس نہیں ہو گی مگر اس کی باقاعدہ ایک وردی ہوگی جس کی پرنٹنگ او ر تقسیم بھی شروع کر دی گئی ہے۔ اگر میں تحریک انصاف کے دوستوں کی وضاحت مان لوں کہ اس فورس میں شمولیت اتنی ہی آسان ہے تو پھرجواب دیجئے کہ ہر محلے کے لچے لفنگے کیوں اس میں شامل نہیں ہوں گے، وہ کیوں ایک سرکاری وردی حاصل نہیں کریں گے اور حکمران سیاسی جماعت کے نام پر بدمعاشی کرتے ہوئے اس کے لئے بدنامی کا باعث نہیں بنیں گے۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ تحریک انصاف کے سکہ بند کارکن ہوں گے تو پھر اجازت دیجئے کہ باقی سیاسی جماعتیں بھی ایسے ہی اچھے مقاصد کی تشہیر کرتے ہوئے اپنی اپنی فورس تیار کر لیں مگراس کے بعد پاکستان کا ہر شہر اور ہر قصبہ الطاف بھائی کا کراچی بن جائے گا۔ ہر گلی او رہر محلے میں ایک فورس کی حکمرانی ہو گی جو دوسروں کے لئے اسے نوگو ایریا بنا دے گی۔ ہم ٹائیگر فورس کے نام پر جو گانٹھیں ہاتھوں سے لگائیں گے وہ کل پھر دانتوں سے کھولنی پڑیں گی۔
آپ خوش گماں ہوسکتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا مگر میرے پاس ماضی کے تجربات بطور حوالہ موجود ہیں۔ الطاف بھائی کے سیکٹرکمانڈر ایک طرف رہنے دیں تو کیا آپ کو ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی ہوئی گسٹاپو یعنی ایف ایس ایف یاد ہے جو لوگوں کو اٹھا کے دلائی کیمپ میں لے جاتی تھی جہاں سے جمہوریت کی چیخیں نکلتی تھیں۔ مجھے کہنے دیجئے کہ پنجاب عشروں سے ایسی روایات سے پاک ہے، ا س کی سیاست کو فورسز اور طاقت کے ساتھ آلودہ نہ کیجئے۔ سینئر صحافی ایاز شجاع کہہ رہے تھے کہ بھٹو مرحوم پر پہلا مقدمہ قتل کا نہیں بلکہ ایسی ہی فورس بنانے اوراس کے ذریعے مخالفین کو شکار کرنے کا بنا تھا۔ میں آپ کو پورے یقین سے بتا سکتا ہوں کہ کسی بھی قسم کی وردی طاقت دیتی ہے اور خاص طور پر جب آپ یہ کہیں اس وردی کو انتظامیہ اور فوج کی حمایت بھی حاصل ہے تو یہ طاقت اندھی اور بے لگام ہوجاتی ہے۔ جوآج ٹائیگر فورس کی وکالت کر رہے ہیں وہ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کے دوران سیکورٹی اور نظم و ضبط کے لئے بنائی گئی باوردی ایسی ہی فورس کو دیکھ کر چیخیں مار رہے تھے، اسے غیر قانونی اور غیر آئینی کہہ رہے تھے۔
آپ اصرار کر سکتے ہیں کہ مقصد بہت نیک ہے مگر اس کے سامنے بہت سارے سوالات موجو د ہیں۔ اگر مقصد یہ ہے کہ اس فورس کے ذریعے لوگوں کی آبادیوں میں جا کے مدد کرنی ہے تو پھر لاک ڈاون کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ بھی انسان ہیں، یہ بھی وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں اور کرونا کے پھیلا و کا باعث بن سکتے ہیں۔ دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ ریاستی وسائل کے ذریعے جمع کئے گئے فنڈز کی ایک غیر سرکاری تنظیم کے ذریعے تقسیم کرپشن کے بہت سارے دروازے کھول دے گی اور آپ کے پاس ان کی جواب طلبی کے لئے کوئی اتھارٹی اور کوئی طریقہ کار بھی نہیں ہو گا۔ آپ کے پاس بلدیاتی ادارے موجود ہیں، آپ کے پاس واسا اور لیسکو سمیت بے شمار اداروں کے اہلکار ہیں جو سرکاری ضابطوں کے پابند ہیں اور ان سے ہٹ کر پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیمیں موجود ہیں جو گھر، گھر کا ایڈریس اور رہائشیوں کے بارے سب کچھ جانتی ہیں یعنی ایک بہت ذمے دار اور پھیلی ہوئی سرکاری مشینری کی موجودگی میں اس نئی غیر سرکاری فورس کی کوئی ضرورت نہیں۔ ذرا تصور کیجئے کہ ان میں سے کچھ نوجوان بھی راہزنی، چوریاں، ڈکیتیاں کرتے، اپنے مخالفین کو اغوا یا ہراساں کرتے یا کسی اور قسم کے جرائم میں ملوث ہوئے تو اس کا سیاسی بوجھ کس کو اٹھانا پڑے گا؟
آپ بہت زیادہ عوامی اور جمہوری ہیں تو بلدیاتی ادارے بحال کر دیجئے، آپ کے پاس گاوں کی سطح تک منظم اور ذمہ دار لوگوں کی تنظیم آجائے گی۔ آپ منتخب ارکان اسمبلی کو حلقوں کے نگران بنا دیجئے اور اگر یہ بھی ضرورت پوری نہ کریں تو ہمارے پاس ہر علاقے میں مساجد ہیں اور ان مساجد کے امام ہی نہیں بلکہ نیک نمازی لوگوں پر مشتمل کمیٹیاں بھی ایک ایک گھر اور وہاں رہنے والوں کو جانتی ہیں۔ آپ ایک طرف امداد کے لئے نادرا سے ویری فیکیشن کریں گے تو دوسری طرف ہمارا سے مذہبی سماجی ڈھانچہ آپ کو متبادل فیڈ بیک فراہم کر دے گااور اگر آپ اس میں کریڈٹ کی خاطر سیاسی مداخلت ہی رکھنا چاہتے ہیں تو اپنے عہدیداروں کو ا ن کمیٹیوں میں شامل کریں مگر انہیں فورس مت کہیں، انہیں رضا کار کہہ لیجئے، آپ کو انگریزی نام بہت پسند ہے تو انہیں سروائیورز کا نام دے دیجئے مگر اسے نہ توٹائیگر کہیے اور نہ ہی فورس۔ مجھے یہ بات بہت بھائی کہ ٹائیگر اور فورس جیسے الفاظ تو اپنی طاقت کا اظہار کرتے ہوئے دھاک بٹھانے اور جس سے مقابلہ ہو اسے نیچا دکھانے کے لئے ہوتے ہیں۔ آپ اس فورس کے ذریعے ایک وائرس اور ایک بیماری سے لڑ رہے ہیں اور بیماریاں تو اللہ رب العزت کی طرف سے ہوتی ہیں۔ یہ موقع ہے کہ ہم سب اپنے رب کے سامنے جھک جائیں جیسی چودھری شجاعت حسین نے تجویز دی، دل سے توبہ استغفار کریں مگر کیا ہم اس وائرس اور بیماری کے مقابلے میں ایسے نام رکھ کر اللہ رب العزت کو (استغفراللہ) مرعوب کر سکتے ہیں؟