جس سے پوچھو کہ کیا تم ٹیکس دیتے ہو تو جواب ملتا ہے پاکستان میں کون ٹیکس نہیں دیتا۔ ہوائی جہاز کے سفر سے ماچس کی خریداری تک پر دیتے ہیں۔ بچوں کے دُودھ کے ڈبے، اماں ابا کی دوائی سے پٹرول اورمٹی کے تیل کے پر لیٹر پر دیتے ہیں۔ میرا جواب ہے کہ یہ ان ڈائریکٹ ٹیکس ہے، تم خریداری نہیں کرو گے تو ٹیکس بھی نہیں دو گے، سوال یہ ہے کہ تم اپنی زمیندار ہو یا دکاندار، تم ڈاکٹر ہو یاوکیل، تم فیشن ڈیزائنر ہو یا کوئی بھی دوسرے پروفیشنل، تم اپنی انکم پر ٹیکس کتناٹیکس دیتے ہو؟
پچھلے مالی سال کے اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ پاکستان کے تنخواہ دار طبقے (سیلریڈ کلاس) نے 264.3 ارب روپے کا ٹیکس ادا کیا اور یہ ٹیکس ملک بھر کے ریٹیلرز اور ایکسپورٹرز کے ادا کئے ہوئے مشترکا ٹیکس سے دو سو فیصد زیادہ ہے اور یہ شرح اس برس جنوری تک بھی برقرا ر رہی۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ ہمارے ملک کے ایکسپورٹرز بارہ، تیرہ سو ارب کی سب سڈیز لے جاتے ہیں۔
یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی جیب گرم رکھنے کے لئے ڈالر کو سستا نہیں ہونے دیتے مگر ان کا ٹیکس ادائیگی میں شئیر شرمناک ہے۔ درست، ان کی وجہ سے ڈالر آتے ہیں جو ہماری ضرورت ہیں مگر ان کا انکم ٹیکس دیکھا جائے تو یہ دینے کی بجائے لے رہے ہیں۔ اسی ملک کے بڑے بڑے زمیندار ایک ہزار ارب روپوں تک کماتے ہیں۔ اس وقت بھی ہماری گندم دنیا میں مہنگی ترین گندم ہے۔ ان کا جی ڈی پی میں شئیر سترہ فیصد ہے مگر یہ سال بھر کا صرف چھ ارب روپے ٹیکس ادا کرتے ہیں یعنی آمدن کے ایک فیصد سے بھی تقریباً آدھا، کیوں؟
میرا سوال ہے کہ کیا تُم ٹیکس دیتے ہو اور اس کا جواب ملتا ہے کہ بہت، بہت زیادہ تو پھر ہمارے نئے وزیر خزانہ کو یہ شرمناک ٹارگٹ مقرر کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ ہم اپنے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کو دس فیصد پر لے جانا چاہتے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان میں یہ شرح ہم سے دوگنی ہے۔ ہم چھ، سات فیصد کے ارد گرد ہیں جبکہ دعویٰ آٹھ سے نو فیصد کا ہے۔ ہم جن جدید، مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دیتے ہیں، جن کی سڑکیں اور عمارتیں دکھا دکھا کے اپنے حکمرانوں کو شرمندہ کرتے ہیں وہاں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح آسانی سے تیس فیصد یا اس سے بھی اوپر تک پہنچی ہوئی ہے۔
میرے باقی کالم کو پڑھنے سے پہلے ایک بات ذہن رکھ لیں کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں یا پاکستان میں کوئی بھی حکمران اپنی جیب سے آپ کو کارپیٹڈ سڑکیں، جدید تعلیمی ادارے اور سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال بنا کے نہیں دے سکتا۔ یہ سب کچھ اس ملک کے شہریوں کے دئیے ہوئے ٹیکس سے ہی ممکن ہے۔ ہم اپنے روز مرہ کے معاملا ت قرض لے کر بھی چلاتے رہے ہیں۔ آج ہم ذلت اور تباہی کے جس گڑھے میں گرے ہوئے ہیں وہ عوام کے ٹیکس نہ دینے اورحکمرانوں کے قرض لینے کی روش کی وجہ سے ہی ہے۔
باتیں تلخ اور بُری لگ رہی ہوں گی، لگتی رہیں، ایک اور غلط فہمی دور کر دوں، بڑا پروپیگنڈہ ہے کہ اس ملک کا غریب ہی ٹیکس دیتا ہے امیر نہیں دیتا۔ یہ درست ہے کہ غریب کی طرح امیر بھی ڈائریکٹ ٹیکس نہیں دیتا۔ خود عمران خان جو ملک کا وزیراعظم رہے اور سینکڑوں کنال کے گھر کا رہائشی ہے وہ وزیراعظم بننے سے پہلے 2017ء میں ایک لاکھ تین ہزار اور 2018ء میں دو لاکھ بیاسی ہزار چار سو روپے ٹیکس ادا کرتے رہے۔
میاں نواز شریف نے اپنے نام پر کوئی کاروبار نہیں رکھا لہٰذا ان کا انکم ٹیکس بھی چند ہزار ہی بیان کیا جاتا رہا ہے مگر دوسری حقیقت یہ ہے کہ جب ایک امیر آدمی اپنی فیملی کے ساتھ کسی مہنگے ہوٹل میں جا کر ایک وقت کا کھانا کھاتا ہے تو اتنا ٹیکس ادا کردیتا ہے جتنا غریب مہینے بھر میں نہیں کرتا۔ ایک امیر آدمی ایک بڑی گاڑی امپورٹ کرتا ہے تو اتنا ٹیکس ادا کردیتا ہے جتنا غریب زندگی بھر میں نہیں کرتا۔ ایک امیر آدمی کی بڑی گاڑی ایک لیٹر میں چار سے چھ کلومیٹر طے کرتی ہے اور غریب کی موٹرسائیکل چالیس سے ساٹھ کلومیٹر تو امیر آدمی کی ٹیکس ادائیگی خریداری کے حوالے سے خود بخود دس گنا بڑھ جاتی ہے۔
بات پھر وہی ہے کہ کیا ہم خود اپنی انکم پر ٹیکس ادا کرتے ہیں یا ریاست ہم سے ہماری پرتعیش زندگی کے لوازمات پر سے ٹیکس لے لیتی ہے جیسے زیادہ بجلی، گیس کے استعمال پر بھاری ٹیکس۔ یہ تو طے ہوگیا کہ ہم سب ٹیکس دیتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ہم سب خود کو ٹیکس میں رجسٹرڈ کیوں نہیں کرواتے۔ میں ایک طویل عرصے تک حکومت کی اس پالیسی کو درست سمجھتا رہا کہ جو نان فائلر ہو اس پر زیادہ ٹیکس ہو۔ جیسے میں نے ایک گاڑی خریدی تو بطور فائلر اس پر ٹیکس سترہ ہزار روپے تھا مگر بطور نان فائلر ستر ہزا ر روپے سے بھی زائد۔ مگر اب میں سوچتا ہوں کہ جو نان فائلر ہے اسے گاڑی اور مکان خریدنے، اپنے بچوں کو مہنگے سکولوں میں داخل کروانے یا ہوائی جہازوں پر اڑتے پھرنے کا حق ہی کیوں ہے یعنی فائلر اور نان فائلر کی بحث ہی غلط ہے۔
یہاں ہر کسی کو فائلر ہونا ہے مگر یہاں ریاست (یا حکومت) کی برائی اور بدنیتی سامنے آتی ہے۔ وہ ٹیکس چوری کے خود راستے بتاتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ کچھ روپے زیادہ دو اور فائلر مت بنو۔ اسی طرح آئی ایم ایف، ایف بی آر کی آٹومیشن کا کہہ رہا ہے تو کیا غلط کہہ رہا ہے۔ ایف بی آر کے پاس اڑھائی کروڑ ایسے لوگوں کا ڈیٹا موجود ہے جنہوں نے گھر، گاڑیاں خریدیں یا ہوائی سفر وغیرہ کئے مگر وہ فائلر نہیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ گاؤں کا دکاندار اور کسان فائلر نہیں ہوسکتا مگر جب اس نے بیرون ملک جانا ہو تو وہ سارے قانونی تقاضے پورے کر لیتا ہے مگر یہاں نہیں۔ اب دیہات میں ٹک ٹاک بن سکتی ہے مگر فائلر نہیں ہوسکتے، کمال ہے۔
ہم سب کا یقین ہے کہ ہم سب بہت ٹیکس ادا کرتے ہیں مگر ڈائریکٹ نہیں، ان ڈائریکٹ۔ ایف بی آر کی آٹومیشن ہو۔ اس کے کرپٹ افسران کے اختیارات بہت محدود ہوں۔ جو انکم ٹیکس ادا نہ کرے وہ نہ تو جائیداد خرید سکے اور نہ ہی گاڑی۔ یہ منطقی بھی ہے کہ جب آپ کی انکم ہی نہیں ہے تو آپ جائیداد یا گاڑی کیسے خرید سکتے ہیں۔
ایک بار پہلے بھی کہا تھا اور پھر کہتا ہوں کہ نادرا اور ایف بی آر کی کوارڈینیشن ہو چکی۔ اب شناختی کارڈ پر نمبر پرتمام بینک اکاؤنٹس کا ڈیٹا نکل آتا ہے۔ وہی آٹومیٹک ریٹرن ہو اور اس کے ساتھ منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کا ریکارڈ لگا دیا جائے۔ بندہ صرف یہ بتائے کہ اس کے بات اکاؤنٹ میں جو رقم آئی ہے وہ کہاں سے آئی ہے۔ اس نے کیسے کمائی ہے۔ اس سے جائز ناجائز کے بہت سارے مسائل بھی حل ہوجائیں گے۔