آپ وزیر تعلیم ہیں اور آپ نے خود کہا کہ یونیورسٹیوں میں جو پڑھانے جاتے ہیں وہ ماسٹرز ہی نہیں بلکہ ڈاکٹریٹ کئے ہوتے ہیں یعنی اعلی ترین تعلیم یافتہ طبقہ اور جو پڑھنے جاتے ہیں وہ بھی بچے نہیں ہوتے، بچوں اور بزرگوں کے مقابلے میں سمجھدار ہوتے ہیں، طاقتور ہوتے ہیں تو پھر آپ کرونا کے پھیلاو کے ڈر سے بند کی گئی یونیورسٹیاں کھول کیوں نہیں دیتے جب آپ نے بازار کھول دئیے، پبلک ٹرانسپورٹ کھول دی۔ یہ کامن سینس کی بات ہے مگر مسئلہ فیصلہ سازی کا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں بھی وہی المیہ، وہی بحران ہے کہ فیصلہ کس نے کرنا ہے۔ آئی ایس ایف، جمعیت، اے ٹی آئی، ایم ایس ایف، این ایس ایف اور پی ایس ایف سمیت چودہ طلبا تنظیموں نے جب تعلیمی بجٹ کم کرنے، آن لائن کلاسز کے غیر معیاری ہونے، فیسوں میں کمی نہ کئے جانے اورگورنمنٹ سیکٹر کی یونیورسٹیوں کوملی ہوئی آزادی اور خود مختاری سلب کرنے کے خلاف مال روڈ پر احتجاج او رگورنر ہاوس کے گھیراو کی کال دی تو پہلے منسٹر ہائیر ایجوکیشن اور اس کے بعد گورنر پنجاب نے ان سے مذاکرات کئے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ میں یہاں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اورمنسٹر ہائیر ایجوکیشن راجا یاسر سرفراز ہمایوں کی تعریف کرنا چاہتا ہوں اگرچہ میں نہیں جانتا کہ مسائل حل ہوں گے یا نہیں مگر مجھے خوشی ہے کہ ان کی طرف سے کسی احتجاج کی کال پر رسپانس تو دیا گیا ورنہ میں نے یہاں سڑکوں پرپیف اساتذہ ہی نہیں بلکہ کینسر کے مریضوں تک کو چیختے چلاتے اور سسکتے بلکتے دیکھا ہے مگر سکول ایجوکیشن اور صحت کے وزرا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی جب تک ان پر کہیں دوسری طرف سے دباو نہیں آیا لہٰذا اس دور میں وہ بھی قابل تعریف ہے جو اس مظلوم شہری کی بات سن لے جس کے ٹیکسوں پر وہ عیش کر رہا ہے۔ مسائل ایک ہفتے میں حل کرنے کے لئے گورنر پنجاب نے ایک کمیٹی بنا دی ہے مگر اس کی سربراہی ایک بیوروکریٹ کو سونپ دی ہے اور اس پر ہمارے دوست پروفیسر ڈاکٹر ممتاز انور، جو اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن پنجاب یونیورسٹی کے منتخب صدر ہیں، سخت ناراض ہو گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک بیوروکریٹ کو ایسی کمیٹی کی سربراہی کا کوئی اخلاقی اور قانونی حق نہیں جس میں وائس چانسلر ز موجود ہوں، میں ان کے بہت حد تک اخلاقی اور کسی حد تک تکنیکی اعترا ض کی حمایت کرتا ہوں مگر مسئلہ یہ بھی ہے کہ احکام تو حکومت نے ہی جاری کرنے ہیں لہٰذاوہ اس فضول سے لطیفے کی طرح کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ ان کابابا نیچے ہو۔
جامعات کی آزادی اورخود مختاری سلب کرنے والا مجوزہ مسودہ قانون بھی ایک لطیفہ ہی ہے اور اس کی پہلی شق ہی بیوروکریسی کی عمر خضر کی خواہش کو ظاہر کر رہی ہے، جی ہاں، اس بیوروکریسی کی سازش کو جس نے پہلے ہی کمی کمین سرکاری ملازمین کے مقابلے میں اپنی تنخواہیں ڈیڑھ سو فیصد تک بڑھوا لی ہیں اور اب یہ فیض پولیس کے گریڈ سترہ سے بائیس تک کے افسران تک بھی پہنچ گیا ہے۔ یہ مسودہ قانون بتاتا ہے کہ جیسے ہی کسی بیوروکریٹ کو یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ میں ذمے داری دی جائے گی اس کے ساتھ ہی اس کی مدت ملازمت میں پانچ برس کا اضافہ ہو جائے گا یعنی چپڑی بھی ہوں گی اور دو، دو بھی ہوں گی ویسے اتنی بڑی سہولت تو آرمی چیف کو بھی حاصل نہیں ہے کہ جب ایک لیفٹیننٹ جنرل کو فل جنرل بنا کے آرمی چیف کی ذمہ داری دی جاتی ہے تو مجموعی طور پر تین سال کی توسیع ملتی ہے۔ یہی مزاحیہ مسودہ قانون بتاتا ہے کہ ریٹائرڈ بیوروکریٹ یاریٹائرڈ اس سینڈیکیٹ کی صدارت بھی کرے گا جس میں حاضر سروس بیوروکریٹ اور جج بیٹھے ہوں گے اور اس کی تیسری اول جلول شق یہ ہے کہ گریڈ اکیس کا ریٹائرڈ بیوروکریٹ اس سینڈیکیٹ کی چئیرمینی کرے گا جس میں گریڈ بائیس کے وائس چانسلرز بیٹھے ہوں گے۔ مسودہ قانون بنانے والے یقینی طور پر کسی تھیٹر میں تھرڈ کلاس سکرپٹ لکھتے رہے ہوں گے کہ اس کے بعد عملی طور پر وائس چانسلر بھی اپنی ہی جامعہ کی فیصلہ سازی سے آوٹ ہوجائے گا اور تمام فیصلے آوٹ سائیڈرز یا اس جامعہ کے لئے مسلط کی گئی خلائی مخلوق کرے گی۔ صورتحال یہ ہے کہ گذشتہ دو عشروں میں بننے والے یونیورسٹیوں کے سینڈیکیٹس میں پہلے ہی حکومتیں تین، تین ایم پی اے گھسیڑ چکی ہیں، وہاں گورنرو ں کے تین، تین نمائندے خواتین، سول سوسائٹی اور علما کی نمائندگی شمائندگی کے نام پر موجود ہیں، کئی قسم کے بیوروکریٹ ہیں، جج ہیں مگر نہیں ہیں تو اساتذہ نہیں ہیں اور سٹوڈنٹس یونینز کے الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے سٹوڈنٹس نہیں ہیں۔ ویسے مجھے یہاں وزیر صاحب کے موقف کی سمجھ نہیں آئی۔ وہ ایک طرف کہتے ہیں کہ یونیورسٹیز کے ایکٹ میں کوئی ترمیم نہیں ہو رہی اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ یہ محض ایک تجویز پر مبنی مسودہ قانون ہے جو قبل از وقت لیک ہو گیا ہے، ا س پر احتجاج قبل از وقت ہے یعنی یہ ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔
اچھا، بات ہور ہی ہے کہ یونیورسٹیاں کھول دی جائیں جن کی وجہ سے آن لائن کلاسز کی مشکلات سے فیسوں کی کولیکشن سمیت بہت سارے مسائل حل ہوجائیں گے اور جب ہم یونیورسیٹیاں کھولیں گے تو اس کے ساتھ ہی کالجز بھی کھول سکتے ہیں کہ وہاں بھی پڑھے لکھے اور سمجھدار نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہی جاتے ہیں۔ اس سے اگلا مرحلہ میٹرک اور مڈل کی کلاسز کی بحالی کا ہو سکتا ہے یعنی ہم مرحلہ وار آگے بڑھ سکتے ہیں مگر سوال پھر وہی ہے کہ فیصلہ کون کرے گا۔ متحد ہو کر حکومت کو گھٹنوں کے بل لانے والی طلبا تنظیموں کو سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس سے بات کریں۔ سکول ایجوکیشن کا وزیر تو بات کرنا ہی پسند نہیں کرتا وہ صرف ٹوئیٹ کرتا ہے مگر منسٹر ہائیر ایجوکیشن کی طرف سے گورنر کی طرف "ریڑھ" دیا گیا اور دلچسپ صورتحال یہ ہوئی کہ گورنر صاحب بھی آف دی ریکارڈ گفتگو میں انہیں شفقت محمود کی طرف ریڑھتے، رہے مگر بہرحال ایک نوٹیفیکیشن ضرور جاری ہوگیا جس کی صحت، کارکردگی، زندگی، موت ایک ہفتے میں واضح ہوجائے گی۔ آئی ایس ایف والوں کا خیال تھا کہ فیصلہ ایوان وزیراعلیٰ سے ہو سکتا ہے۔ یہاں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ تین ماہ میں کسی وزیر مشیر یا بیوروکریٹ نے تعلیمی اداروں کے کھولنے کے حوالے سے چوں اور چاں تک نہیں کی اور اگر کوئی میدان میں آیا تو وہ خود طلبا تھے حالانکہ جگتیں لگائی جا رہی تھیں کہ تاجر اور ٹرانسپورٹر تو احتجاج کر رہے ہیں کہ ان کے کاروبار کھول دئیے جائیں مگر طلبا نہیں کہ وہ چھٹیوں کی موجیں منا رہے ہیں مگر وہ طالب علم بھی موجود ہیں جو ایک ایک سیمسٹر کی ایک، ایک اور ڈیڑھ، ڈیڑھ لاکھ فیس دے رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کے باپوں کا کمایا ہوا ایک ایک روپیہ اور ان کا تعلیم کے لئے ایک ایک منٹ قیمتی ہے۔
ایک بہت اچھی بات یہ ہوئی کہ طالب علموں کو فیس کی ادائیگی کے لئے قرض حسنہ کی بات ہوئی۔ سابق دور میں انڈوومنٹ فنڈ موجود تھا جس کے تحت موجودہ سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں میرٹ پر فیس کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ پچیس طالب علموں کو بین الاقوامی اداروں میں تعلیم دلوائی جاتی تھی جو واقعی ایک انقلاب تھا مگر اب یہ تعداد کم کر کے صرف چار کر دی گئی ہے۔ بہت سارے ممالک طالب علموں کو یہ سہولت دیتے ہیں کہ وہ قرض لے کر تعلیم حاصل کریں اور جب ملازمت کریں تو یہ قرض واپس کر دیں۔ بینکوں سے قرض کی یہ سہولت نجانے ہمارے ملک میں کیوں نہیں ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگر ہر بینک طالب علموں کی ایک مخصوص تعداد کو ایسا مقدس قرض دینا شروع کر دے گا تویہ سرمایہ کاری اس کی عالمی بحرانوں اور کساد بازاری کے باوجود دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ طالب علم تو یہاں تک پیش کش کرتے ہیں کہ انہیں عبوری رزلٹ کارڈ جاری کر دیا جائے اور ڈگری ا س وقت ایوارڈ کی جائے جب وہ قرض کی رقم واپس کر دیں۔