یہ خواہش سابق وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری کے جنوبی پنجاب کے کسی ریگستانی دیہاتی علاقے کی بزرگ خاتون سے مکالمے سے مشہور ہوئی تھی جب وہ اس ان پڑھ اور حالات حاضرہ سے لاعلم خاتون کو اپنے ساتھ کھڑے شخص کا تعارف کروانے کی کوشش کر رہے تھے کہ یہ وہی ہیں جوپہلے شہباز شریف ہوا کرتے تھے یعنی یہ پنجاب میں شہباز شریف لگے ہوئے ہیں یعنی وزیراعلیٰ پنجاب اورمزید یعنی یہ کہ شہباز شریف جنوبی پنجاب کی بزرگ اماوں تک میں مشہور تھے۔ یہ ویڈیو اپنی اصل آڈیو کے ساتھ وائرل ہو گئی تھی اور بات صرف سمیع اللہ چوہدری کی ہی نہیں بلکہ مجھے ایک سینئر صحافی اورتجزیہ کار نے بھی بتایا جو شہباز شریف کے ساتھ ہوا کرتے تھے اوراس کے بعد انہوں نے جناب عثمان بُزدار کا بھی اعتماد حاصل کر لیا تھا، عثمان بُزدارنے ان سے پوچھا کہ شہباز شریف کیسے بنا جا سکتا ہے۔ میں نے جناب وزیراعلیٰ کو مختلف شہروں میں ہنگامی دورے کرتے ہوئے اور وہاں شہبا ز شریف سٹائل میں بیوروکریٹوں کو معطل کرتے ہوئے بھی دیکھا تویقین ہواکہ عثمان بُزدا رواقعی شہبازشریف بننے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔
جب فردوس مارکیٹ انڈر پاس کا اٹھارہ مئی کو سنگ بنیاد رکھا گیا تو ایل ڈی اے نے اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لئے چھ ماہ کا وقت مانگا مگر وزیراعلیٰ نے کہا کہ یہ وقت بہت زیادہ ہے کہ پہلے تو تین، تین ماہ میں اس سے بھی بڑے منصوبے مکمل ہوجاتے تھے، ایل ڈی اے حکام نے کہا کہ اگرآپ کی سرپرستی ہو تو ہم اس کو سودنوں میں مکمل کردیں گے مگر وزیراعلی تو وزیراعلیٰ تھے، بولے، نہیں اس کونوے دنوں میں مکمل کریں جس پر ایل ڈی اے حکام کو زور زور سے ہاں میں سر ہلانے پڑے کیونکہ وہ سرکاری ملازم تھے۔ کمپنی بھی وہی تھی جو اپنے نام اور پارٹنر بدل کر پشاور کی میٹرو بس میں ریکارڈ تاخیر کی بدنامی مول لے چکی تھی اورکاغذی کارروائیوں کے ذریعے ثابت کیا جا رہا تھا کہ نہیں، نہیں یہ وہ کمپنی نہیں۔ بہرحال ٹیکنیکل کھیل یہ کھیلا گئی کہ اٹھارہ مئی کو وزیراعلیٰ نے سنگ بنیاد رکھا اور ٹیکنیکل اپروول وغیرہ وغیرہ کے نام پر کہا گیا کہ کام چار جون کو شروع ہوا حالانکہ جس روز وزیراعلیٰ نے سنگ بنیاد رکھا تھا کام اسی روز شروع ہونا چاہئے تھامگر سولہ روز کھا لئے گئے اورکہا گیا کہ کام پانچ جون کو شروع ہوا ہے اور چھ ستمبر کو مکمل کر لیا جائے گا۔ میں نے حکام سے جولائی کے وسط میں پوچھا تووہ پرجوش تھے کہ وہ اپنے شیڈول سے آگے جا رہے ہیں اور انڈر پاس کو اگست کے آخری ہفتے میں ہی مکمل کر لیا جائے گا مگر اس کے بعد وہی ہونے لگا جوہر بیڈ گورننس میں ہوتاہے۔
میں نے پوچھا تھا کہ جناب جولائی اور اگست بارشیں ہوتی ہیں تو جواب ملا تھا کہ ہم ان بارشوں کے لئے تیار ہیں، ہوتی رہیں ہم کام کرتے رہیں مگر پھر بارشوں کو بھی تاخیر کا جواز بنایا گیا۔ یہ جواز بھی بنایا گیا کہ پہلے اس منصوبے کو مین بلیوارڈ کی بڑی سیوریج لائن کے ساتھ جوڑنا تھا مگر پھر فیصلہ ہوا کہ باغ جناح کے ساتھ بنائے جانے والے انڈر گراونڈ واٹر ٹینک کی صورت یہاں بھی پانی ذخیرہ کرنے کے ٹینک بنائے جائیں گے اور دعویٰ کیا گیا کہ اس سے منصوبے کی لاگت میں بھی کمی ہو گی جوآخری اطلاعات کے مطابق نہ ہو سکتی بلکہ بارہ، پندرہ کروڑ روپے زائد لگ گئے۔ تیسری وجہ کورونا بیان کی گئی جس کی وجہ سے ایل ڈی اے کے پاس غریب ہو گیا اوراس کے پاس فنڈ ز ہی نہیں رہے کہ یہ منصوبہ ایل ڈی اے اپنے وسائل سے بنا رہا تھا جبکہ حکومت پنجاب کی مدد صرف فیتے کاٹنے کی حد تک تھی۔ چوتھی وجہ بھی عجیب و غریب تھی کہ جس وقت یہ انڈر پاس بنانے کے لئے سرنگ بھی کھودی جا چکی تھی اس وقت تک کمشنر لاہور سمیت دیگر متعلقہ افسران اور اداروں نے سائیڈ روڈز کے لئے زمین ہی خرید کر نہیں دی تھی کہ وہ بھول گئے تھے۔ میں نے یہ وجہ سنی تو حیران رہ گیا کہ کیا کسی بلیو پرنٹ، کسی ڈیزائن اور کسی شیڈول کو سامنے رکھے بغیر ہی کام شروع کر دیا گیا تھا۔
شہباز شریف بننے کے خواہش مند عثمان بُزدارصرف یہ جانتے تھے کہ انڈر پاس کو مکمل کرنا ہے مگر وہ شہباز شریف جیسا کرداراد ا نہیں کر سکے جب واسا، واپڈا اور سوئی گیس جیسے محکموں نے اپنی تنصیبات ہٹانے میں ہی غیر معمولی تاخیر کردی۔ ماضی میں ہوتا یہ تھا کہ وزیراعلیٰ ان محکموں پر چڑھ دوڑتے تھے اور اس کے نتیجے میں مسلم ٹاون جیسا فلائی اوور بھی محض سو دنوں میں مکمل ہوجاتا تھا ور میٹرو جیسا پل بھی چھ ماہ میں۔ بہرحال اس میں احد خان چیمہ کی محنت بھی شامل ہوتی تھی جو کام کروانے کے لئے خود وزیراعلیٰ کے اختیارات بھی استعمال کر لیتے تھے۔ عثمان بُزدار منصوبے پر وہ ذاتی محنت اور سرپرستی نہیں کرسکے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ منصوبہ لٹک گیا جس منصوبے نے چھ ستمبر کومکمل ہونا تھااس روز وہاں دھول اورمٹی کے پہاڑ تھے۔ ستمبر کے بعد اکتوبر گزرااوراکتوبر کے بعد نومبر آ گیا۔ اس منصوبے کی تکمیل کی نئی تاریخ پندرہ نومبر دی گئی اور اسی دوران ایک شام عثمان بزدارنے شہباز شریف کی نقل کرتے ہوئے منصوبے کا دورہ کر کے چیف انجینئر ایل ڈی اے کو معطل کر دیا۔ نومبر بھی گزر جاتا اگر اس منصوبے کے افتتاح کی دعوت وزیراعظم کو عمران خان کو نہ دی جاتی۔ وزیراعظم افتتاح کے لئے لاہور آ ئے مگر جب علم ہوا کہ ان سے نامکمل منصوبے کا افتتا ح کروایا جا رہا ہے تو انہوں نے انکار کر دیا اور یوں اگلے روز نامکمل پراجیکٹ کا افتتاح خودوزیراعلیٰ نے یوں کیا کہ انڈر پاس کی سرنگ کے ہر طرف رنگ برنگی بتیاں لگا دی گئیں مگر دوسری طرف عالم یہ ہے کہ تین ماہ کے بجائے چھ ماہ آٹھ دن بعد کھلنے والے انڈر پاس کے اوپر آج بھی وہاں بھاری مشینری کام کررہی ہے۔
میں سمجھتا اورکہتا رہا کہ فردوس مارکیٹ انڈر پاس کا پراجیکٹ اپنی ناقص منصوبہ بندی اور تاخیر میں پشاور کی بی آرٹی ہے مگرمیں غلطی پر تھا جب میں نے لاہور کے دونوں کناروں کو دیکھا۔ ایک طرف ریلوے اسٹیشن کے ساتھ ایک موریہ پل کامنصوبہ ہے جسے شروع ہوئے اڑھائی برس گزر چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنما دیوان غلام محی الدین، ٹکٹ ہولڈر ملک نصیب زمان اور تاجر رہنما عظیم سیٹھی پورا زور لگا چکے کہ یہ مکمل ہوجائے مگر اس کی لاگت اس دورمیں باون کروڑ سے ایک ارب دس کروڑ ہو گئی مگر کام کی رفتار چیونٹی کے برابر ہے اور دوسری طرف ٹھوکر نیاز بیگ سے موہلنوال تک ملتان روڈ کی بیس کلومیٹر کی تعمیر اور توسیع کا منصوبہ ہے جسے شروع ہوئے تین برس گزر چکے اور ابھی وہاں پر پتھروں اور مٹی کے تودے ہی تودے ہیں۔ ان دونوں منصوبوں پر اب میں تفصیل سے لکھوں گا اور بتاوں گا کہ باب لاہور کے نام نیب آفس کے باہر سڑک پر نمایاں طور پر ٹیڑھا نظر آنے والا ایک دروازہ جو ایک طرف سے پانچ لین اور دوسری طرف سے تین لین کا ہے بنانے سے آپ شہباز شریف نہیں لگ سکتے۔ مجھے حیرت ہے کہ اسی ملتان روڈ پر ایک طرف سینئر وزیرعبدالعلیم خان کی پارک ویو سوسائٹی ہے اور دوسری طرف ڈی ایچ اے کا ایک فیز ہے مگردونوں کا اس سڑک کو استعمال کرنے والوں کو کوئی فائدہ نہیں۔ فردوس مارکیٹ کا اب تک زیر تعمیر انڈر پاس ہی نہیں بلکہ اک موریہ پل کے ساتھ ساتھ ملتان روڈچیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ عثمان بُزدار، شائد اپنی ماں کی دعاوں سے، شہباز شریف لگ ضرور گئے ہیں مگر نہ وہ شہباز شریف تھے اورنہ ہی اگلی ایک ڈیڑھ صدی میں بن سکتے ہیں۔