"تبدیلی ابھی دور ہے" کے عنوان سے میرایہ کالم گذشتہ برس تیس اکتوبر کو شائع ہوا تھا جب تاجر ہڑتالوں پر ہڑتالیں کر رہے تھے اور مولانا فضل الرحمان اپنا کارواں لے کر اسلام آباد کی طرف رواں دواں تھے اور میرے بہت سارے دوستوں کو تبدیلی سامنے دیوار پر لکھی ہوئی صاف او ر واضح نظر آ رہی تھی۔ مجھے تبدیلی نظر نہیں آئی جس پر مشورہ ملاکہ میں اپنی بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت کا بھی علاج کرواوں۔ ہمارے کچھ دوستوں کو گزشتہ برس فروری مارچ میں ہی تبدیلی آئی ہوئی تھی مگر اکتوبر میں اس کے مروڑ انتہا پر پہنچ گئے تھے۔ یہ درست ہے کہ عوام اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت سے تنگ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ انہیں تبدیلی کے تبدیل ہونے کی خبریں سنائی جائیں۔
میں نے یہی بات سٹیج کے معروف آرٹسٹ نسیم وکی کے سامنے رکھی اور ازراہ تفنن پوچھا کہ سٹیج کے اداکار جو گزشتہ ایک برس سے پی ٹی آئی حکومت کو جگتیں مار رہے تھے، اب مزا آیا کہ حکومت کرونا کے نام پر تھیٹر اور سینما ہال بند کر کے بھول گئی ہے حالانکہ وہاں ایس او پیز کی پابندی بازاروں اور پبلک ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں کہیں بہتر ہو سکتی ہے۔ نسیم وکی سنجیدہ ہو گئے اور کہنے لگے کہ تھیٹر ہماری جگتوں کی وجہ سے بند نہیں ہوئے، کرونا کی وجہ سے ہوئے ہیں اور جب کرونا کی وجہ سے بند کئے گئے باقی کاروبار کھولے جا رہے ہیں تو تھیٹر بھی کھول دئیے ہیں۔ انہوں نے کہا، جہاں تک جگتوں کی بات ہے تو ان کاکام ہی جگتیں لگانا ہے، وہ عوام کو خوشی اور مزاح فراہم کرتے ہیں۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ سٹیج اداکار کی زندگی رسپانس اور کلیپ پر انحصار کرتی ہے اور اس وقت پی ٹی آئی کو لگائی ہوئی جگتوں پر کلیپ ملتا ہے یعنی تبدیلی کی باتیں کرنا فیشن میں ان بھی ہے اورمارکیٹ کی ڈیمانڈ بھی۔ ہمارے صحافی بھی یوٹیوب چینلز بناتے اور اپنے افکار کو مقبول بناتے ہوئے اسی بھیڑچال کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ وہی دو، چار برس پہلے والی صورتحال ہے جب یہ کہاجاتا تھا کہ کرنٹ افیئرز کے کسی بھی پروگرام کی مقبولیت کے لئے ضروری ہے کہ اس میں نواز شریف پر تنقید ہو اور مجھے بطور پروفیشنل جرنلسٹ کہنا ہے کہ اس وقت کا یہ تاثر بھی غلط تھا اور آج پی ٹی آئی میں صرف اور صرف پبلک ڈیمانڈ پر دی جانے والی خبروں کا یہ رجحان بھی درست نہیں ہے۔ صحافیوں کو اداکارہ دیدار سے کچھ مختلف ہونا چاہئے کہ جب شور مچے تو وہ ایک سٹیپ کر کے دکھا دے اور صحافیوں کو بھی جب ڈیمانڈ لگے تو وہ ایک شُرلی چھوڑ دیں اور جب ان کی خبریں اور تجزئیے غلط ثابت ہوجائیں تو وہ اگلی طوطا فال کی طرف نکل جائیں۔
شور مچا ہوا ہے کہ عثمان بُزدار جا رہے ہیں، پہلے خبر آئی تھی کی ان کی جگہ سید یاور عباس آ رہے ہیں اور پھر بتایا گیا کہ چودھری پرویز الٰہی کا انتخاب کیا گیا ہے۔ یہ خبریں محض سوشل میڈیا کی ہوائیاں نہیں تھیں بلکہ انہیں بیان کرنے والے ہمارے وہ دوست تھے جو ٹی وی چینلوں پربیٹھ کربریکنگ نیوز دیتے ہیں، بڑے بڑے تجزئیے دیتے ہیں۔ ان میں ایسے بھی ہیں جن کے کالم سوشل میڈیا پر شئیر ہوتے ہیں اور انہیں مختلف چینلوں پر سیاست کے ماہر کے طور پر بلایا جاتا ہے۔ میرا گمان ہے کہ معروف مبلغ مولانا طارق جمیل بھی ایسی ہی خبروں کے آنے پر جناب چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے اور فرمایا کہ چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں اسلام کی جتنی خدمت ہوئی اتنی کسی دوسرے دور میں نہیں ہوئی۔ اس سے پہلے بتایا جا رہا تھا کہ وزارت اعلیٰ کے لئے لاہور کے صحافیوں کے دوست وزیر صنعت و تجارت میاں اسلم اقبال کا بھی انٹرویو ہوا ہے، جناب مُراد راس بھی جب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے لاہور سے طوفانی رفتار سے اسلام آباد پہنچے تو یہی بتا کر گئے کہ وہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے انٹرویو دینے جا رہے ہیں او راس افواہ سازی میں جناب سبطین خان کانام بھی شامل کر لیا گیا جو نیب سے خاطر مدارات کروا چکے ہیں مگر پھر جناب شبلی فراز کے ایک ان ویری فائیڈ ٹوئیٹر اکاونٹ نے تبدیلی کی سب ہوا نکال دی۔ اس موقعے پر جناب شہباز گل خاموش رہے کہ ماضی میں اس حوالے سے بولنے کا تجربہ ان کے لئے خوشگوار نہیں رہا تھا۔
میں آپ کو پورے یقین سے بتا سکتا ہوں کہ عثمان بُزدار کے جانے کی راہ میں کوئی سیاسی رکاوٹ نہیں ہے۔ ان کا اتنا سیاسی وزن ہی نہیں کہ وہ کسی چھوٹے موٹے طوفان کابھی مقابلہ کر سکیں۔ وہ تمام لوگ جو عثمان بُزدار کے وزیراعلیٰ بنائے جانے پر رطب اللسان تھے ان کے جانے کی بھی اسی طرح تعریفیں کریں گے۔ ان کے نہ جانے کی نوے فیصد وجوہات غیر سیاسی ہیں مگر کیا چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دی جا سکتی ہے تو اس میں رکاوٹیں سو فیصد سیاسی نوعیت کی ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی نے بطور وزیراعلیٰ، پنجاب میں دیرپا اور گہری تبدیلیوں کی بنیادیں رکھی تھیں اور یہ بات بھی درست ہے کہ وہ مسلم لیگ نون کو اسمبلی کے اندر اور باہر کرش کرنے کی صلاحیت کسی بھی دوسرے رہنما سے زیادہ رکھتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اس کے بعد پی ٹی آئی کا اپنا مستقبل کیا ہو گا۔ عمران خان اور ان کے ساتھی ابھی تک چودھری پرویز الٰہی پر اعتماد نہیں کرتے۔ چودھری صاحبان کو پی ٹی آئی میں بھی اسی صورتحال کا سامنا ہے جس کا سامنا انہیں شریف فیملی کے ساتھ تھا۔ وہ اب بھی خود کو پنجاب کی پگ کا اکیلا وارث سمجھتے ہیں مگر ان کے ساتھی ایسا نہیں سمجھتے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کے ساتھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں مگر ساتھی کوئی بھی ہوں ان کی سوچ تبدیل نہیں ہوتی۔
سوال یہ ہے کہ اگر عثمان بُزدار کو ہٹا کر کسی بھی دوسرے متحرک رکن کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا اور اس نے ہیرو بننے کی کوشش کی تو کیا ہو گا، کم از کم عثمان بُزدارسے ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے اور حکمران اتحاد میں شامل تمام ارکان اپنی سیاسی اور غیر سیاسی طاقت کے لئے وفاق کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔ چودھری پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے پر طاقت کا ایک اور مرکز لاہور کی ظہور الٰہی روڈ پر پیدا ہوجائے گا جس سے مال روڈ پر بیٹھے چودھری سرور ہی نہیں بلکہ بہت سارے دوسرے بھی ناخوش بلکہ پریشان ہوں گے۔ پی ٹی آئی نے اس وقت پنجاب میں طاقت کے بہت سارے مراکز بنا دئیے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ ایڈجسٹ ہو گئے ہیں لیکن اگر کسی طاقت ور سیاسی شخص کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا تو نہ صرف پنجاب میں طاقت کے مراکز ان کمفرٹیبل، ہوجائیں گے بلکہ مرکز میں بھی پریشانی جا سکتی ہے۔ پنجاب میں مشکلات پیدا نہ کرنے کے لئے مثبت لفظوں میں بااعتماد یا منفی لفظوں میں کٹھ پتلی وزیراعلیٰ کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ آپ جناب نوا زشریف کی پالیسی سے بھی لگا سکتے ہیں کہ انہوں نے یہ سیٹ غلام حیدر وائیں کو دی یا اس کے بعد ان کا انتخاب صرف اور صرف شہباز شریف ٹھہرے۔ اس وقت بھی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز شریف ہیں۔ اب عمران خان صاحب کا کوئی شہباز شریف تو ہے نہیں کہ وہ اسے عہدہ دیں، ہاں، ان کے پاس ایک غلام حیدر وائیں جیسا ہومیو پیتھک اور بے ضرروزیراعلیٰ ضرور موجود ہے۔ اس سے پہلے جب پیپلزپارٹی کی حکومت بنی تھی تو انہوں نے مجبوری کے عالم میں منظور وٹو کو برداشت کرنے کے بعد جناب سردار عارف نکئی جیسی شخصیت کو آدھے سے زیادہ پاکستان کا نظم ونسق سونپ دیا تھا۔
عثمان بُزدار جا سکتے ہیں لیکن اگر ان کا کوئی ایسا متبادل ہو جس کی کارکردگی کا موازنہ جناب عمران خان سے نہ ہونے لگے جو ایک نئے پاکستان کی تعمیر کا مینڈیٹ لے کر چل رہے ہیں اور اس میں بری طرح ناکام ہو رہے ہیں۔ جناب عمران خان سے منسوب یہ فقرہ سیاسی صورتحال کی درست عکاسی کرتا ہے کہ اگر عثمان بُزدار نہ رہے تو حکومت نہیں چل سکے گی۔ یہ بات بالکل اسی طرح درست ہے جیسے غلام حیدر وائیں اور سردار عارف نکئی کے بارے درست تھی۔ عثمان بزدار چلے بھی گئے تب بھی اسے ریموٹ کنٹرول سے ہی چلایا جائے گا، یہاں کے کسی حقیقی سیاسی رہنما کو اقتدار ملتادکھائی نہیں دیتا۔