میں کورونا کے لاک ڈاون میں ایک سے زائد پروگرام کر چکا جن میں پرائیویٹ سکولوں کا بالعموم اور پیف کے سکولوں کا بالخصوص مقدمہ لڑا کہ جب تک ریاست ہر بچے کو مساوی اور معیاری تعلیم دینے کی ذمے داری ادا کرنے کے قابل نہیں ہوجاتی اس وقت تک ہمیں اپنے پرائیویٹ سکولوں کو بچانا ہے۔ مجھے سخت گرمی میں مال روڈ پر جا کے کھڑا ہونا پڑا یا اپنے سٹوڈیو میں حکمرانوں کی ناراضی مول لینا پڑی تو وہ بھی لی۔ جب میرے پروگرام میں حکمران جماعت کے ایک درد دل رکھنے والے کروڑ بلکہ ارب پتی رہنما نے یہ کہاکہ وہ تمام سکول جو چالیس، چالیس ہزار روپے مہینہ فیس لے رہے ہیں وہ ایک مافیا ہیں تو میں نے اسی وقت ان کی بات کاٹی اور کہا کہ استاد کو مافیا نہیں کہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ مالکان کو کہہ رہے ہیں اور میرا جواب تھا کہ میں مالکان کو بھی تعلیم دینے والوں میں ہی سمجھتا ہوں۔
مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا ہے کہ حکمران جماعت کے رہنما درست تھے جبکہ میں ایک اصولی اور کتابی بات کر رہا تھا جس کا ہمارے بہت سارے کاروباروں کی طرح تعلیم کے کاروبار کے ساتھ کچھ زیادہ تعلق نہیں رہا۔ اس امر کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب انگریزی سکول کی لاہور گرامرسکول کے نام سے بڑی چین نے اے لیول کے سٹوڈنٹس کی فیس کے چالان فارم جاری کئے۔ یہ چالان فارم اپریل سے جون تک کی فیس کے تھے۔ بہت سارے والدین نے یہ فیس اس لئے ادا نہیں کی کہ ان کے بچے لاک ڈاون سے پہلے ہی مارچ کے مہینے سے اپنا سیشن مکمل کر کے سکولوں سے فارغ ہو چکے ہیں۔ اپریل کے اختتام پر ان کے امتحانات تھے جن کی وہ ایک الگ بھاری فیس جمع کروا چکے ہیں لہذا مئی اور جون کی فیس بالکل ہی بلاجواز تھی۔ اس کے ساتھ عدالتی فیصلے کی روشنی میں ہر سکول پابند تھا کہ ایک ایک ماہ کی الگ فیس لے مگر مذکورہ سکول دھڑلے کے ساتھ تین ماہ کی فیس وصول کر کے اس پر ٹھپے لگا کر دے رہا تھا اور جب والدین اس پر احتجاج کر رہے تھے تو بدمعاش قسم کے اکاونٹس کلرک کی طرف سے جواب مل رہا تھا کہ جاو سپریم کورٹ چلے جاو۔
میرا سوال یہ تھا کہ مارچ تک کی فیس ادا کرنے کے بعد والدین کیوں مجبور تھے کہ اگلے تین ماہ کی فیس بھی ادا کریں، انہیں چاہئے تھا کہ وہ اسے نظرانداز کر دیتے تو اس کا جواب ہے کہ سکول کی طرف سے اچانک ایک ایس ایم ایس بھیجا گیا کہ مئی کی فیس ادا نہ ہونے کی وجہ سے آپ کے بچے کا امتحان ہی منسوخ کر دیا گیا ہے اور اب وہ اگلے امتحان میں بیٹھ سکے گا جو چھ ماہ کے بعد ہو گا۔ میرا سوال یہ بھی تھا کہ سکول کو یہ کس نے اختیار دیا تھا کہ وہ کسی بھی طالب علم کا امتحان والدین کی اجازت کے بغیر ہی ختم کر دے۔ یہ وہ دھمکی تھی جس کے باعث والدین مجبور ہوئے کہ وہ اپنے بچوں کا قیمتی سال بچائیں اور سکول والوں کی بلیک میلنگ کے سامنے سرنڈر کر دیں۔ ایک ٹیچر نے سوال کرنے پر کہا کہ اگر فیس نہیں ادا ہو گی تو ٹیچرز کی تنخواہیں کیسے دی جائیں گی۔ یہ موقف درست ہے مگر ان کے لئے جو بچے وہاں پر زیر تعلیم ہوں نہ کہ وہ طالب بھی فیس ادا کرتے رہیں گے جن کی کلاسز ختم ہوچکی ہوں، امتحانات کا شیڈول ختم ہو چکا ہو مگر وہ اس سے اگلے مہینے بھی سکول کی فیس ادا کر رہے ہوں، کیوں؟
یہ سکول اچھے گریڈز پر رعائیت دیتے ہیں مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ اس کے بدلے وہ تمام رعائیتیں منسوخ کر دیتے ہیں جو سرکاری طورپر دی جاتی ہیں جیسے ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے جو چالان فارم فیس کے لیے پہلے جاری کیا تھا اور اب جو فیس وصول کر رہے ہیں وہ یکساں ہے، اس میں وہ بیس فیصد رعائیت شامل نہیں جس کا اعلان حکومت نے کیا ہے توانہوں نے حکومت کوجوتے کی نوک پر رکھا اور کہا کہ ہم پہلے ہی رعائیت دے رہے ہیں، مزید نہیں دے سکتے، جس نے شکایت کرنی ہے کر لے۔ انہوں نے جون کی فیس وصول کرنے کی وضاحت دی کہ حکومت کے ساتھ یہ طے ہے کہ جن بچوں کے امتحانات اپریل اور مئی میں ہوبھی جائیں ہم ان کی بھی جون کی فیسیں وصول کر یں گے اور اگر آپ کو عدالت جانے کا بہت شوق ہے تو وہاں ان قواعد وضوابط کو بھی چیلنج کر لیجئے گا جو حکومت کے ساتھ طے شدہ ہیں۔
میرا یہ یقین پختہ ہوتا چلا جا رہا ہے کہ ہم ایک بنانا ری پبلک میں رہتے ہیں جس میں صرف بلیک میلرز اور بدمعاش ہی کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں چاہے وہ کتنے ہی مقدس اور اہم پیشے سے وابستہ ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ تمام والدین کو اپنے بچوں کی فیسیں ادا کرنی چاہئیں مگر وہ صرف تعلیمی سیشن کی ہونی چاہئیں۔ بورڈ یا کیمبرج کے امتحانات کے دوران یا ان کے بعد فیسوں کی وصولی کے قواعد وضوابط غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہیں۔ اپریل اور مئی کی فیسیں جسٹی فائیڈ ہوتیں اگر وہ سکول خود امتحان لے رہا ہوتا۔ اب بات صرف یہاں تک محدود نہیں ہے بلکہ پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے سربراہ کاشف مرزا کے مطابق اس وقت بورڈز نے جن بچوں سے امتحانات کے لئے فیسیں لیں مگرلاک ڈاون کے باعث امتحانات نہیں لئے تو ان کے پاس والدین کے پچیس ارب روپے جمع ہیں جو انہیں واپس کرنے چاہئیں اور اسی طرح او او ر اے لیول کے امتحانات کی فیسوں کی واپسی کے لئے ردا نور ایڈووکیٹ آواز بلند کر رہی ہیں وہ بھی درست ہے کہ ان امتحانات میں ہر طالب علم سے ایک لاکھ روپے تک فیس وصول کی گئی ہے مگر اب کیمبرج بغیر امتحانات کے ہی بچوں کو پروموٹ کر رہا ہے۔ بورڈوں کی طرح کیمبرج کے بھی وہ تمام اخراجات بچ گئے جو سنٹرز بنانے اور عملے کو مقرر کرنے وغیرہ کے تھے۔
بات صرف اتنی ہے کہ اگرکچھ تعلیمی ادارے بلیک میلنگ کریں گے، بچوں کے داخلے از خود منسوخ کرکے ایسی فیسوں کی ادائیگی کے لئے مجبور کریں گے جو امتحانات کے عرصے کے بھی بعد کی ہوں گی، اگر وہ حکومتی اعلانات کی اطاعت نہیں کریں گے تو سوچئے کہ ایسے تعلیمی ادارے بچوں کو کیا تعلیم دیں گے، کیا سکھائیں گے کہ تم بھی جہاں بلیک میل کر سکتے ہو کرلو، جس کی جیب سے نکال سکتے ہو نکال لو۔ میں حیران ہوں کہ اس کے بعد بندوق لے کر جیبیں خالی کروانے والے سے لے کر ان سکولوں کے مالکان تک میں کیا فرق باقی رہ گیا ہے۔ میں سو فیصد یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ اضافی فیسیں دینے سے والدین غریب نہیں ہوجائیں گے کہ وہ پہلے ہی اپنے بچوں کو بھاری فیسیں ادا کرکے پڑھا رہے ہیں مگرایسے سکول مالکان کیا اخلاقی اور معاشرتی مقام رکھتے ہیں جو تعلیم کو کاروبار سے بھی آگے بڑھ کے باقاعدہ ڈکیتی بنا رہے ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان ڈکیتیوں کا کوئی حساب لینے والا بھی نہیں۔