وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بُزدار کا یہ حکم بظاہر بہت بھلا اور عوام دوست لگتا ہے جس میں انہوں نے لاک ڈاون میں بند پرائیویٹ سکولوں کو ماہانہ فیس بیس فیصد کم لینے کا حکم دیا ہے، یہ حکم ظاہر کرتا ہے کہ وزیراعلیٰ کو عوام کی مشکلات اور پریشانیوں کا علم ہے اور وہ اپنے ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے ان کی مصیبتوں اور مسائل میں کمی کرنا چاہتے ہیں۔ پیغام یہ بھی ملتا ہے کہ وہ اس کاروبار کی تفصیلات کو بھی سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے وزیرتعلیم کے ساتھ مل کر حساب لگایا ہے کہ سکول بند ہونے کی صورت میں مالکان کو کم از کم بیس، پچیس فیصد بچت ہو رہی ہو گی، یہ بھی عین ممکن ہے کہ ٹوئیٹر کے ایکسپرٹ کسی وزیر نے انہیں بتایا ہو کہ یہ بچت سو فیصد ہے کہ جب سکول ہی نہیں کھل رہے تو اخراجات کیسے؟
کیا واقعی ایسا ہے جیسا کچھ کاسہ لیسوں کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے یا عملی صورتحال یہ بن رہی ہے کہ جب نئے پاکستان میں کوئی کاروبار نہیں بچا تو پھرکوشش ہے کہ پرائیویٹ سکول بھی نہ بچیں۔ ایک بات ذہن میں رکھ لیجئے کہ دنیا بھر کے مہذب معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی پانچ برس کے بچوں سے اٹھارہ برس کے نوجوانوں تک کولازمی تعلیم کی مفت سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر حکومتیں کھربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود معیاری تعلیم کی فراہمی میں ناکام ہیں اور اگر ایسے میں پرائیویٹ سیکٹر موجود نہ ہو تو اعلیٰ اور معیاری تعلیم تو ایک طرف، قوم کے آدھے بچوں کے لئے تعلیم کا حصول ہی ممکن نہ رہے۔ یہ فیس میں بیس فیصد رعائیت والی بات اس مفروضے پر مبنی ہے کہ پرائیویٹ سکول بہت کماتے ہیں، اتنا کماتے ہیں کہ چند ہی برسوں میں ایک سے دو اور دو سے چار سکول ہوجاتے ہیں مگر پنجابی زبان کی کہاوت ہے راہ پیا جانے یا وا پیا جانے، ، پچھلے چار سے پانچ برسوں میں ایک نام نہاد عوامی شعور بیدار ہونے اور مختلف ریاستی اداروں کی مداخلت کے بعد اس کاروبار میں بھی منافع محدود ہو گیا ہے اور اگر آپ کہتے ہیں کہ اسے نقصان کے ساتھ چلایا جائے تو پھر جان لیجئے کہ علم معاشیات کے اصولوں کے مطابق کوئی بھی کاروباری شعبہ مسلسل نقصان کے ساتھ نہیں چل سکتا، وہ بند ہوجاتا ہے۔
یہ اندازہ کیسے لگایا کہ لاک ڈاون کے دوران سکولوں کے اخراجات میں کم از کم بیس سے پچاس فیصد تک کمی واقع ہوگئی ہے۔ کیا آپ اس ظلم کی حمایت کرتے ہیں کہ اساتذہ سے کلرکوں اور گارڈوں تک کوسرکار کی طرف سے دی گئی جبری چھٹیوں کے دنوں کی تنخواہیں نہ دی جائیں کہ سب سے بڑی بچت یہی ہوسکتی ہے، کوئی ذی شعور اس کی حمایت نہیں کر سکتا بلکہ وہ ایسے سکولوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرے گا۔ کیا چھٹیوں کے دوران ان سکولوں کی عمارتوں کے مالکان کرایہ طلب نہیں کریں گے جو رینٹ پر ہیں یا وہ بیس سے پچاس فیصد کم کرائے لیں گے کہ سکول بند ہیں۔ کیا ان پچیس کے لگ بھگ ٹیکسوں میں بھی بیس فیصد کمی کر دے گی جو وہ سکولوں سے وصول کرتی ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے، ہاں، صرف ایک بچت ہو گی کہ ان عمارتوں میں بجلی کا بل کم آئے گا، اس کے سوا کوئی دوسری بچت نہیں ہے مگر آپ کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس کے ساتھ ہی بہت سارے پرائیویٹ سکولوں نے بچوں کے تعلیمی نقصان کو کم سے کم رکھنے کے لئے آن لائن کلاسز شروع کر دی ہیں جن کے کم ہی سہی مگر اپنے اخراجات ضرور ہیں۔
چلیں ! صورتحال کو ایک اور طرح سے دیکھتے ہیں کہ تعلیمی ادارے سمجھتے ہیں کہ کچھ ہی دنوں کے بعدرمضان شروع ہونے والا ہے لہذا بچت کےلئے سٹاف کوہی نکال دیا جائے مگر سوال یہ ہے کہ جب چھٹیوں ےعدسکول دوبارہ کھلیں گے تواچھا اورتجربہ کارسٹاف کہاں سے ملے گا۔ کیا اچھے اورمحنتی اساتذہ کرام ان سکولوں پر اعتماد کریں گے جو ہرچھٹیوں میں انہیں نکال باہرکریں۔ اس وقت پرائیویٹ سکولوں کو جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے وہ اچھے ٹیچروں کو بہرصورت ری ٹین، کرنا ہے کیونکہ وہی اچھے نتائج یعنی اچھے بزنس کی ضمانت ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ خوف کی بنیاد پر کئے گئے جبری لاک ڈاون میں سکولوں کو فیسوں کی ریکوری کے سنگین ایشو کا سامنا ہے۔ جب بچے سکول واپس جائیں گے تو تب والدین کو علم ہوگاکہ انہوں نے دو سے چھ ماہ تک فیسیں ہی ادا نہیں کیں، حکومت نے بھی تیرہ مارچ سے سکولوں کو اپنے دفاتر تک کھولنے کی اجازت نہیں دی، فیسیں کہاں سے جمع ہوتیں یوں ریکوری کے اس بحران میں ابھی نجی تعلیمی ادارے ٹیچروں کو لازمی تنخواہ اداکرنے کے حکم کی تعمیل کی راہ نکال رہے ہیں کہ نیا بحران پیدا کر دیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ نے جب یہ حکم دیا تو انہوں نے بطور چیف ایگزیکٹو اپنے باقی صوبے کوبھی دیکھا ہو گا اورمجھے یقین کرلینا چاہئے کہ ایک مبینہ طور پرپڑھے لکھوں کی جماعت کے وزیراعلیٰ کے طور پر انہوں نے توازن برقرار رکھا ہو گا۔ انہو ں نے کم از کم اساتذہ کے لئے حکم جاری کیا ہو گا کہ ان کو ہرکریانہ فروش دالیں، ہر سبزی فروش سبزی اور ہر قصائی گوشت بیس فیصد سستا دے۔ عثمان بُزدار شوباز نہیں ہیں لہذا انہوں نے خاموشی سے حکم جاری کیا ہو گا کہ ان کے بیمار والدین کو تمام ادویات اور بچوں کو دودھ بھی بیس فیصد سستا دیا جائے۔ انہوں نے سکولوں کی کرایوں کی عمارتوں ہی نہیں بلکہ جن گھروں میں اساتذہ کرایوں پر رہتے ہیں ان کے کرائے، بجلی پانی گیس کے بل بھی بیس، بیس فیصد کم کر دئیے ہوں گے اور سوال یہ ہے کہ اگر انہوں نے یہ سب نہیں کیا تو پھر وہ صرف ایک سیکٹر کواپنے واجب الادا روپے بیس فیصد کم لینے کا حکم کیسے دے سکتے ہیں۔ یہ کس آئین، قانون یا عدالت کے فیصلے میں لکھا ہے۔ میں پھر کہوں گا کہ یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ پرائیویٹ سکول سونے کی کانیں ہیں اور مالکان ان سے سونا نکال رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نااہلی اور کرپشن کے ساتھ ساتھ نحوست نے ہر کاروبار کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔ ابھی تک اس سے صرف تین سیکٹر بچے ہوئے ہیں، پہلا بینکنگ سیکٹر، دوسرا ہیلتھ فیسی لیٹیز کا سیکٹر اور تیسرا ایجوکیشن سیکٹر۔ حکومت نے یہاں بچے کھچے کاروباروں کو تباہ کرنے کا تیسرے سیکٹر سے کام شروع کیا ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ محکمہ تعلیم کے جس وزیر کو اپنے ڈپیارٹمنٹ کے لئے باپ اور محافظ کا کرداراد ا کرنا چاہئے تھا وہ ٹی و ی پروگراموں میں کہہ رہا ہے کہ وہ ڈنڈے کے زور پر فیسیں کم کروائے گا۔ آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا کہتے ہیں کہ اساتذہ ماں اور باپ کی طرح ہوتے ہیں اور ماں باپ کو ڈنڈے مارنے کی دھمکیاں نہیں دی جاتیں۔ یہاں پیرنٹس ایسوسی ایشن کے کوارڈینیٹر یاسر قریشی کہتے ہیں کہ حکومت نے جس طرح انڈسٹری کے لئے اربوں، کھربوں کا پیکج دیا وہ اسی طرح ایجوکیشنل پیکج کا بھی اعلان کرے، حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں مخالفین وزیر تعلیم کو تبدیل کرنے کے مطالبے کر رہے ہیں۔ سینئر ایجوکیشنل جرنلسٹ راشد منظور کہتے ہیں کہ تعلیم کا پورا محکمہ ہی ٹوئیٹر پر چلایا جا رہا ہے، فیسوں میں بیس فیصد کمی کا حکم بھی ٹوئیٹر پر ہی سنایا گیا، ابھی تک اس کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا مگر وزیر تعلیم کہہ رہے ہیں کہ وہ ڈنڈے کے زور پر عمل کروائیں گے۔
میں یہاں کسی اور طرح بھی سوچ رہا ہوں کہ اس حکومت نے کسی ایسے شخص کو نہیں چھوڑنا جس نے اس کی مدد کی ہو۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام میں اہم کردار ادا کیا (حالانکہ میری نظر میں وہ کردار اپنے پیشے اور ذمے داریوں کے ساتھ ایسی ہی بددیانتی تھی جیسی بددیانتی ڈاکٹروں کے ایک گروہ نے اپنے نسخوں پر یہ لکھ کر کی کہ آپ کے علاج کا حصہ ہے کہ آپ بلے پر مہر لگائیں )، جملہ معترضہ ہی سمجھ لیں کہ جو حکومت جہانگیر ترین کے ساتھ نہ سگی ہو تو وہ باقیوں کے ساتھ کیسے ہوسکتی ہے، چلیں، سیاست چھوڑیں کہ یہ لاکھوں، کروڑوں بچوں کی تعلیم کا معاملہ ہے جس میں وزیراعلیٰ کا حکم بظاہر سوشل میڈیا پر کم آئی کیو والوں کی واہ واہ کا مرکز بنا ہوا ہے مگر وزیراعلیٰ کو تعلیم کے ساتھ ایسا مذاق نہیں کرنا چاہئے، انہیں تعلیم کے شعبے سے ایسا انتقام نہیں لینا چاہئے کہ یہ مذاق اور انتقام تعلیم کے شعبے کے لئے جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔