اگر وزیراعلیٰ کا دل ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال میں آگ لگنے کے بعد تیرہ بچوں کے جاں بحق ہونے پردُکھا تواس میں کچھ غلط نہیں تھا، نومولود معصوم بچوں کے اس طرح مرنے پر کسی ظالم کا دل ہی مطمئن رہ سکتا ہے۔ میرا پہلا ردعمل تھا کہ وزیراعلیٰ نے ایک ماں ہونے کا ثبوت دیا۔ وہ خود ساہیوال پہنچیں، چار گھنٹے تک طویل اجلاس میں انکوائری رپورٹس اور سی سی ٹی وی ویڈیوز چیک کیں۔ والدین سے باری باری سانحہ کی تفصیلات دریافت کیں۔
عافیہ کے والد محمد علی نے بتایا کہ سانحہ کے بعد پولیس نے ڈنڈے مارے، گارڈز نے بوڑھی ماں کو دھکے دئیے۔ ایوان وزیراعلیٰ کی طرف سے جاری پریس ریلیز کے مطابق وزیراعلیٰ نے قرار دیا بچوں کی اموات دم گھٹنے سے ہوئیں اور رپورٹ میں سب اچھا لکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جب آگ لگی تو آگ بجھانے والے آلات کیوں نہیں لائے گئے، کیا یہ آلات ڈیکوریشن پیس کے طور پر لگائے گئے تھے۔ انہیں بتایا گیا یہ آلات اپریل سے ایکسپائر ہوچکے تھے اور اطلاع کے باوجود تبدیل نہیں کئے گئے۔
انہوں نے کہا، کروڑوں کی مشینیں اور ادویات دیتے ہیں تو ایکسرے باہر سے کیوں ہو رہے، دوائیاں باہر سے کیوں آ رہی ہیں، غریب مریضوں سے داخلے کے پیسے کیوں لئے جا رہے ہیں، کیا ان کے ضمیر ملامت نہیں کرتے، خود کو ان کے والدین کی جگہ پر رکھ کے دیکھیں۔ انہیں بتایا گیا کہ ایک بچی کی والدہ کا سانحے کو سن کرہارٹ اٹیک ہوا جو پی آئی سی میں زیر علاج ہیں۔ وزیراعلیٰ نے اس موقعے پر ٹیچنگ ہسپتال کے پرنسپل، میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور ایڈمن آفیسر سمیت دیگر کو گرفتار کرنے کا حکم دیا، انہیں ہتھکڑیاں لگیں، حوالات لے جایا گیا تاہم بعد ازاں انہیں رہا کرکے محکمانہ کارروائی کی ہدایت کر دی گئی۔
میں نے بطور صحافی عشروں کے تجربے کے بعد جان لیا ہے کہ ہر سچ کے دو چہرے ہوتے ہیں۔ ایک سچ آپ کا ہوتا ہے اور دوسرا سچ آپ کے مخالف کا ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے جو کچھ کیا وہ جاں بحق ہونے والے بچوں کے لواحقین کا سچ تھا۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ ہمارے سرکاری ہسپتال بدترین قسم کی بدانتظامی کا شکار ہیں اور یہ بھی کہ اگر کسی کے پاس تھوڑے سے بھی پیسے ہوں تو وہ سرکاری کی بجائے پرائیویٹ علاج کو ترجیح دیتا ہے مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا ہر برائی اور بدانتظامی ڈاکٹروں کی وجہ سے ہے اور اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو وہ سو فیصد غلط ہے۔
مجھے میرے ڈاکٹر دوستوں کے گلے شکوے موصول ہوئے۔ ان کا کہناتھا کہ میں نے ہمیشہ متوازن بات ہے مگر یہاں مکمل طور پر سرکاری سچ کا ساتھ دیا ہے۔ مجھے وائے ڈی اے کے ایک رہنما نے جذباتی ہو کر کہا کہ وہ حکومت سے نہیں لڑنا چاہتے لیکن کیا ڈاکٹراور نرسز ہسپتالوں میں مریضوں کی جان بچاتے ہیں یا ان کی جانیں لیتے ہیں۔ ہم لڑنا چاہیں توفیلڈ ہسپتالوں سے ری ویمپنگ پراجیکٹس پر بہت محاذ کھول سکتے ہیں۔ یہ عوام کا انہی ہسپتالوں اورڈاکٹروں پر اعتماد ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بیماری کی صورت میں وہ ان کی طرف بھاگتے ہیں۔
مجھے ان سے ہڑتال کا شکوہ تھا اور ہمیشہ سے رہا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ احتجاج کے دس ہزار دوسرے طریقے بھی ہیں۔ ڈاکٹروں کو کسی بھی صورت او پی ڈیز بھی بند نہیں کرنی چاہئیں۔ انہوں نے مجھے وزیراعلیٰ کی ایک تصویر بھیجی جس میں وہ چار نومولود بچوں کے سامنے کھڑی ہیں جو ایک ہی مشین میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ساہیوال کے ہسپتال میں نومولود بچوں کی کل گنجائش پچاس کی ہے مگر ان ڈاکٹروں نے کبھی پچاس کی تعداد پوری ہونے کے بعدوہاں ہاؤس فل ہونے کابورڈ نہیں لگایا۔ یہ انہی وسائل میں جو پچاس بچوں کے لئے دئیے جاتے ہیں تین سے چار گنا بچوں کا علاج کرتے ہیں۔
مجھے وائے ڈی اے کے دوستوں کا میڈیا سے شکوہ بھی پہنچانا ہے کہ جب بچوں کے بارے یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ دم گھٹنے سے جاں بحق ہوئے، ان میں سے ایک بھی آگ یا دھوئیں سے نہیں مرا بلکہ ان ڈیڑھ سو بچوں میں سے روزانہ تین سے چار اپنے مرض کی شدت کی وجہ ضرور ہی فوت ہوجاتے ہیں اور یہ اللہ کا نظام ہے۔ یہ گارنٹی کوئی بھی نہیں دے سکتا کہ ہر مریض کی جان بچا لی جائے گی۔ میرے ڈاکٹر دوست کہتے ہیں میڈیا نے اس تین، چار دنوں میں جاں بحق ہونے والے تمام بچے اس گنتی میں ڈال دئیے جو جھوٹ ہے، زیادتی ہے حالانکہ اس موقعے پر عملے نے آگ لگنے کے بعد بچوں کی جانیں بچائیں، انہیں باہر نکالا۔
میرے ڈاکٹر دوست یہ بھی کہتے ہیں کہ بیوروکریسی نے جب سے حکومت کو اربوں روپوں سے ہسپتالوں کی ری ویمپنگ پر لگایا ہے تب سے ریپئر اینڈ مین ٹیننس کے فنڈز ختم ہو کے رہ گئے ہیں۔ یہ فنڈز اس وقت آدھے کر دئیے گئے تھے جب پی ٹی آئی کی حکومت نے صحت کارڈ شروع کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہسپتالوں کو اربوں روپوں کے فنڈز ضرور ملتے ہیں مگر ان پر لاک لگا ہوتا ہے کہ کوئی پرنسپل اس بورڈ کی منظوری کے بغیر کوئی ایک دیوار بھی نہیں بنا سکتا جس میں ایک ڈپٹی سیکرٹری بھی موجو د ہوتا ہے۔
ایک جگہ کے فنڈز دوسری جگہ استعمال نہیں ہوسکتے تو جہاں ہر روز ہزاروں لوگ آتے ہوں وہاں کی وائرنگ سمیت دیگر چیزوں کا خیال کس نے رکھنا ہے اگر اس کے لئے فنڈز ہی نہ ہوں۔ جہاں تک گارڈز کی بدتمیزی کا سوال ہے تو وہ آؤٹ سورسڈ ہیں۔ بہت سارے دوسرے شعبوں کے دوستوں کی طرح میرے ڈاکٹر دوستوں کا بھی گلہ ہے کہ بیوروکریسی، وزیراعلیٰ کوجو راہ دکھاتی ہے وہ اس پر چل پڑتی ہیں۔ انہیں آگے چل کر اندازہ ہوگا کہ وہ محض بیوروکریسی نہیں پورے عوام کی وزیراعلیٰ ہیں۔
ایک عوامی وزیراعلیٰ کو ہمیشہ ہر فریق کی بات سننی چاہئے۔ ایک بہت ہی پریکٹیکل بات کروں گا چاہے کسی کو اچھی لگے یا بری۔ اس سے پہلے بھی حکومتوں نے وائے ڈی اے سے لڑ کے دیکھ لیا ہے۔ یہ بیوروکریسی ہمیشہ حکومتوں کو ڈاکٹروں سے لڑواتی رہی ہے اوریہ کام پی ٹی آئی کے دور میں بھی ہوا ہے۔ میں وہی بات دوبارہ کہوں گا جو میں نے شہباز شریف جیسے محنتی اور ویژنری وزیراعلیٰ کو کہی تھی کہ جناب وزیراعلیٰ، یہ آپ کے بچے ہیں، آپ نے ہی ان کی بات سننی ہے اور مسائل حل کرنے ہیں۔ میں پہلے وائے ڈی اے سے کہوں گا کہ ہر جگہ طاقت کا استعمال اور ہڑتال ضروری نہیں۔
ساہیوال میں خاتون وزیراعلیٰ کا راستہ روکا جانا اور ہلڑ بازی کی کوشش احمقانہ تھی اور وزیراعلیٰ سے بھی کہوں گا کہ یہ کرپٹ بھی ہوں گے اور برے بھی مگر کیا بیوروکریسی سے بھی زیادہ ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ افسرشاہی کی بتائی ہوئی باتیں نہ سنیں اور بنائی ہوئی رپورٹیں نہ دیکھیں مگر دوسرا موقف ضرور سنیں۔ ہوسکتا ہے کہ وقتی طور پرسینئر ڈاکٹروں کی پولیس کے ذریعے تذلیل سیاسی فائدہ دے مگر یہ لانگ ٹرم میں گھاٹے کا سودا ہے۔ میں نے کسی حکومت کو ینگ ڈاکٹروں سے لڑ کے جیتتے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپ تھوڑی سی کوشش کرکے ان کے دل بھی جیت سکتی ہیں۔