یاسمین راشد ایک بزرگ خاتون ہیں، زندگی بھر مسیحائی کے پیشے سے وابستہ رہیں، وہ ایک متحرک اور کمٹڈ سیاسی کارکن بھی ہیں اور کچھ عرصہ پہلے تک میرے ذہن میں سوال تھا کہ وہ 73برس کی عمر میں کینسر کی مریضہ اور جیل میں کیوں ہیں مگر اب نہیں ہے۔ میں نے قذافی سٹیڈیم میں 32 چھوٹے اور بڑے موبائل ہسپتالوں کی افتتاحی تقریب میں وزیر صحت پنجاب خواجہ سلمان رفیق کو اعلان کرتے ہوئے سنا کہ مریم نواز کی حکومت کینسر کے مریضوں کی مفت ادویات کی فراہمی بحال کر رہی ہے۔ اس کے لئے پہلے مرحلے میں ساڑھے تین ارب روپے مختص کر دئیے گئے ہیں۔
اب یہ کینسر کے مریضوں کو مفت ادویات کی فراہمی اور بحالی کی کیا کہانی ہے۔ یہ قصہ آج سے کم و بیش بارہ برس پرانا ہے جب اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے غیر ملکی کمپنی نوارٹس کے تعاون سے ان ادویات کی مفت فراہمی کا پراجیکٹ شروع کیا تھا۔ شکریہ تو نوارٹس کابھی بنتا ہے جس نے گیارہ ماہ کی دوا مفت فراہم کی اور ا یک ماہ کے پیسے چارج کئے مگر مریض اتنے زیادہ تھے کہ یہ خرچہ بھی اربوں روپوں میں پہنچ گیا تھا۔ مسلم لیگ نون کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کام اتنا زیادہ کرتی ہے کہ اس کے پاس اس کے بتانے اور اس کا کریڈٹ لینے کا بھی وقت نہیں رہتا۔
بہرحال اس کی میڈیا ٹیم کی ناکامی ہے جس کے مزاج لیڈر شپ سے بھی زیادہ شاہانہ ہیں۔ اس کے دلچسپ واقعات بھی اگلے کسی کالم میں شیئر کروں گا۔ بہرحال مجھے بھی بطور صحافی کینسر کے مریضوں کو مفت ادویات کی فراہمی کے بارے میں اس وقت پتا چلا جب پی ٹی آئی کی حکومت نے چار، پانچ برس پہلے ان مفت ادویات کی فراہمی یہ کہتے ہوئے بند کر دی کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں، جی ہاں، ریکارڈ چیک کر لیجئے، یہ پی ٹی آئی کی حکومت تھی جس کے سربراہ عمران خان تھے، وہی عمران خان جنہوں نے اپنی والدہ کے نام پر کینسر ریسرچ ہسپتال بنایا اور جس کے بارے پروپیگنڈہ ہے کہ وہاں مفت علاج ہوتا ہے۔ کینسر ہسپتال کے نام پر سیاسی اور مالی کمائی کرنے والوں کی حکومت تھی جس میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار تھے اور وزیر صحت یاسمین راشدجو ڈاکٹر بھی ہیں، بہت سارے ڈاکٹروں کا یہ شوق بھی انہوں نے ہی اتارا کہ وزیر صحت کوئی ڈاکٹر ہونا چاہئے۔
جن کی یادداشت اور سمجھ دانی میں کوئی وائرس نہیں ہے انہیں یاد ہوگا کہ اس پر کینسر کے مریضوں نے احتجاج شروع کر دیا۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ بندہ غریب بھی ہو اورکینسر کا مریض بھی ہو تو اس میں کتنی طاقت ہوگی۔ جب کئی بار چھوٹے موٹے احتجاجوں سے کام نہیں چلا تو انہوں نے پنجاب اسمبلی کے سامنے مال روڈ کو بلاک کر دیا۔ ایک مرتبہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس بھی ہو رہا تھا سویہ معاملہ وہاں بھی اٹھا اور انٹرنیشنل میڈیاکی زینت بھی بن گیا۔ یہ حکومت کے لئے انتہائی شرم کا مقام تھا، اس نے وعدہ کیا کہ وہ ادویات کی فراہمی بحال کرے گی مگر وہ وعدہ ہی کیا جو پی ٹی آئی پورا کر دے۔ اس کے بعد کینسر کے مریضوں نے دو، تین مرتبہ میٹرو کا ٹریک بھی بند کیا اور میڈیا کی توجہ حاصل کی۔
میں نے ایک سے زائد مرتبہ ان کے احتجاجوں کے دوران ان کے ساتھ پروگرام ریکارڈ کئے۔ میں نے وہاں بزرگوں اور خواتین کو باقاعدہ روتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے بتایا کہ کینسر کی ماہانہ ادویات کا خرچ چالیس پچاس ہزار سے چار، پانچ لاکھ روپے تک پہنچ جاتا ہے۔ جب انہیں ادویات کی فراہمی بند ہوتی ہے تو بلڈ کینسر کے مریضوں کی حالت خراب ہونے لگتی ہے۔ ان کے جسم میں اذیت ناک درد بڑھ جاتا ہے۔ اس درد کو کنٹرول کرنے کاطریقہ وہی ادویات ہیں جو ڈاکٹر لکھ کے دیتے ہیں مگر بہت سارے ایسے ہیں جو کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں، جن کی ماہانہ آمد ن ہی تیس، چالیس ہزار سے پچاس، ساٹھ ہزارہے، وہ گھروں کے کرائے دیں، بچوں کو روٹی اور کتابیں دیں کہ کینسر کی ادویات خریدیں۔
مجھے یاد ہے کہ ان لوگوں کے ایشو پر بات کرنے کے لئے میں نے ڈاکٹر یاسمین راشد کو کئی مرتبہ فون اور اپنے پروگرام میں مدعو کرنے کی کوشش کی۔ مجھے شرم سے کہنا ہے کہ اپوزیشن میں اپنا کلینک اور فیسیں چھوڑ کے پروگرام میں آنے والی یاسمین راشد نے میرا فون سننا ہی چھوڑ دیا اور ایک مرتبہ خاتون وزیر کے پی اے نے مجھے کہا کہ آپ براہ راست فون مت کریں، اپنے ہیلتھ رپورٹر سے کہیں کہ وہ رابطہ کرے جس پر میں نے اس پر لعنت بھیجتے ہوئے رابطہ کرنے سے توبہ کرلی۔
ان کی گردن میں سریا تھا اور جو اب کہیں اور پہنچ چکا ہے۔ سریے کا یہ سفر بہت ساروں میں جاری رہتا ہے جس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ خدا یہ لوگ نہیں ہیں، خدا کوئی اور ہے۔ یاد آیا، کینسر مریضوں کی تنظیم کانیک دل سربراہ، پی ٹی آئی کا ہی ٹاؤن شپ سے ہی اس تنظیم کا مقامی صدر تھا مگر یاسمین راشد اس سے بھی نہیں ملتی تھی بلکہ دروغ بہ گردن راوی ان کی تُو تُو میں میں بھی ہوئی تھی۔
میں کینسر کے مجبور غریبوں کے شکوؤں اور آنسوؤں کو یاد کرتا ہوں تو میرا ایمان غریب کی بددعا اور خدائے بزرگ و برتر کی حکمرانی پر بڑھ جاتا ہے۔ میں پورا یقین رکھتا ہوں کہ آج ڈاکٹر یاسمین راشد جس حال ہیں یعنی کینسر کی مریضہ اور جیل میں ہیں تو وہ اپنے اسی جرم کی وجہ سے ہیں۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ ایک وزیر، ایک خاتون اور ایک ڈاکٹر اتنی بے رحم کیسے ہو سکتی تھی۔ ویسے انہیں بددعائیں تو ان نوجوان ڈاکٹروں نے بھی بہت دی ہوں گی جنہوں نے پی ٹی آئی کے دور میں ایم بی بی ایس کیا مگر چار سال تک کسی ایک کو بھی باقاعدہ ملازمت نہیں دی گئی اور جو ایڈہاک ملازمتیں دی گئیں ان میں لاکھوں روپے کی رشوت لی گئی حتیٰ کہ ایک معذور ڈاکٹر کو بھی بغیر پیمنٹ ایڈہاک نوکری سے انکار کر دیا گیا۔
میں نے حمزہ شہباز کی حکومت کے دوران بھی کوشش کی کہ کینسر کے مریضوں کی ادویات کھل جائیں، کابینہ کی سطح پر فیصلہ بھی ہوا مگر پھر وہ حکومت ہی نہ رہی۔ اب وزیرا علیٰ مریم نواز اور وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق نے یہ فیصلہ کیا ہے تومیں ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس سے پہلے خواجہ عمران نذیر بھی اس موقف کی مکمل حمایت کرتے رہے ہیں جس پر میں ان کا بھی مشکور ہوں۔
میں اب انہیں کینسر کے مریضوں کا ایک پیغام پہنچانا چاہتا ہوں کہ بہت سارے مریض کہتے ہیں کہ انہیں وہی ادویات دی جائیں جو شہباز شریف کے دور میں دی جاتی رہی ہیں۔ مقامی ادویات ریلیف دینے کی بجائے ری ایکشن پیدا کرتی ہیں جس سے تکلیف میں اضافہ ہوجاتا ہے اور بہت سارے مریض جو افورڈ کر سکتے تھے وہ سرکاری ادویات سے ہٹ چکے ہیں۔ ا مید ہے وہ اس درخواست پر بھی غور کریں گے۔