میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ امن و امان کے ذمہ دار ادارے پولیس کو محض واہ، واہ کے لئے توہین اور تضحیک کانشانہ بنانے سے گریز کروں بلکہ جب لاہور میں کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم قائم کیا گیا تو اس کے کنٹرول روم پرخصوصی پروگرام کیا، ایک عالمی ادارے نے لاہور میں امن و امان کی بہتر صورتحال پر رپورٹ دی تو اسی پولیس کو شاباش دینے کے لئے واحد پروگرام میرا تھا، اس سے بہت پہلے میرے ہی ایک پروگرام میں ایڈیشنل آئی جی فنانس نے انکشاف کیاکہ لاہور کے ہر تھانے میں ہر مہینے ایک لاکھ روپے سے زائد ایسے اخراجات ہوتے ہیں جن کاانتظام ایس ایچ او کو خود کرنا پڑتا ہے، اس موضوع پر پروگرام معصومانہ کوشش تھی کہ پولیس کی مجبوریوں کو بھی سمجھا جائے۔ لاہور کے ایک ڈی آئی جی آپریشنز کا انٹرویو کیا اور ا ن سے پوچھا کہ وہ لاہور کے لئے کیا خاص کر سکتے ہیں تو انہوں نے وعدہ کیا کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کے خلاف خصوصی مہم شروع کررہے ہیں، انہوں نے ایک تاریخ دی کہ اس کے بعد آپ کو کوئی منشیات فروش نہیں ملے گا مگر ان کے جانے کے بعد علم ہوا کہ وہ سب ریٹ بڑھانے کے طریقے تھے، لاہور میں جہاں سرعام چالیس مقامات پر نشئیوں کے ڈیرے تھے وہ سوا سو سے بھی بڑھ گئے ہیں۔ لاہور کے حال ہی میں رخصت ہوجانے والے سی ٹی او کے ساتھ لاہور کے میڈیا کے تعلقات اچھے نہیں رہے مگر میں نے کوشش کی کہ ایک توازن پیدا کروں، جہاں وارڈنوں سے شکایات ہیں وہاں شہریوں کی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی بھی ضروری ہے اور یہ نشاندہی بارہا کی اور پھر پولیس میں ایس ایس پی ایڈمن کی طاقت ور سیٹ پر جانے والے ملک لیاقت صاحب نے اصرار کیا کہ شہداءکی عزت کی آڑ میں پولیس کی وردی میں موجود بدمعاشوں، قاتلوں اور ڈاکووں کی بھی عزت کی جائے، بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟
پولیس افسران اصرار کرتے ہیں کہ میڈیا ان کی تعریفیں کرے کیونکہ وہ اپنی نظروں میں بہت بڑا جہاد کر رہے ہیں۔ میں اس مطالبے پر حیران ہوتا ہوں کہ صحافیوں کا کام غلطیوں اور برائیوں کی نشاندہی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ برس ہا برس گاڑی قانون اور ضابطوں کے مطابق چلاتے رہیں تو ٹریفک پولیس آپ کو سلیوٹ نہیں کرے گی مگر جیسے ہی آپ لائن، لین یا سگنل کی خلاف ورزی کریں گے، روک لئے جائیں گے۔ میں نے یوم شہداءپر سی سی پی او لاہور ذوالفقار حمید سے کہا کہ میں آپ کی لاکھ تعریفیں کرتا رہوں لیکن اگر آپ ایماندار اور عوام دوست نہیں تو میری تعریفیں آپ کی ساکھ کو بہتر نہیں بنائیں گی بلکہ میرااعتبار بھی تباہ کر دیں گی اور اسی طرح اگر آپ اچھا کام کر رہے ہیں مگر آپ کی برائی سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ لوگ آپ کی کارکردگی بارے فرسٹ ہینڈ انفارمیشن رکھتے ہوں گے۔ باتیں تو بہت ہیں مگر اس وقت مایوسی ہی مایوسی ہے۔ ابھی اپنے غائب ہوجانے والے ایس ایس پی کی سامنے آنے والی حرکتیں ہی دیکھ لیں، جس جس کو چھیلا جاتا ہے وہی لال نکلتا ہے اور اس میں افسران سے لے کر ملازمین تک میں ایک، آدھ کے سوا کوئی فرق نہیں ہے اور وہ فرق اس دعوے میں چھپا ہوا ہے کہ پولیس نے اپنے ہزاروں اہلکاروں کے خلاف اختیارات سے تجاوز اور کرپشن جیسے معاملات میں اتنی زیادہ کارروائیاں کی ہیں کہ کوئی دوسرا ڈیپارٹمنٹ اس کی برابری نہیں کر سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ننانوے فیصد کارروائیاں بے چارے سپاہیوں یا نکے تھانیداروں کی حد تک ہی ہوئی ہیں۔ ڈی ایس پی یا اے ایس پی بھی اس حوالے سے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں اور اے آئی جیز، ڈی آئی جیزبارے توسوال ہی مت کیجئے۔ یہاں ماڈل ٹاﺅن اور ساہیوال جیسے سانحوں میں بھی بڑے، چھوٹوں کوپھنسا کر خود صاف نکل جاتے ہیں۔
مجھے تلخی کا احساس اس وقت بہت زیادہ ہوا جب ہمارے پروگرام لاہور پوچھتا ہے، کی ٹیم نے پولیس اہلکاروں کو شراب لے جاتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا، اس پروگرا م کے اینکر میاں عمران ارشد اور پروڈیوسر فیصل ہیں، پروگرام کے آن ائیر ہونے کے بعد ہونا تویہ چاہئے تھا کہ مذکورہ اہلکاروں کے خلاف کارروائی ہوتی اور شراب (اور اس کے ساتھ نہ جانے کیا کیا) سپلائی کرنے والوں کا گروہ پکڑ کر اسے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا مگر اس کے برعکس پولیس کی ایک پارٹی نے پروگرا م کے پروڈیوسر فیصل کے گھر چھاپہ مارا اورانہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ پوچھا گیا کہ جرم کیا ہے تو بتایا گیا کہ موبائل چوری کے مقدمے میں گرفتاری درکار ہے۔ ایف آئی آر مانگی گئی تو بہانہ بنایا کہ لانا ہی بھول گئے، حکم دیا گیا کہ تھانے حاضر ہوجائیں۔ میاں عمران ارشد نے ہی نشاندہی کی تھی کہ شہر بھر کے بغیر ہیلمٹ موٹرسائیکل سواروں کو پکڑنے والی ٹریفک پولیس خود بغیر ہیلمٹ کے پھرتی ہے یعنی قانون کے محافظ ہی اصل قانون شکن ہیں، یادکیجئے، جب ہمار ے پروگرام نیوز نائیٹ، میں انکشاف کیا گیا کہ تھانہ گلبرگ کی حدود میں پولیس، واسا، کرکٹ بورڈ سمیت بہت سارے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی گاڑیاں سرکاری پٹرول فروخت کرتی ہیں تو ڈولفن اہلکاروں نے مجرموں کی بجائے نشاندہی کرنے والوں کو ہی دھمکیاں لگانا شروع کر دیں۔ اس سے بھی دلچسپ واقعہ اس وقت ہوا جب دکھایا گیا کہ ٹھوکر نیاز بیگ پر خواجہ سرا دو سو سے پانچ سو روپے لے کر اندھیرے میں لے جا کر گندے کام کرتے اور کرواتے ہیں تو سی سی پی او آفس سے صاحب بہادر کے قریبی شخص نے فتویٰ دیاکہ آپ ان بے چاروں کے رزق کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ابھی نشاندہی کی کہ لاہور میں سوا سو سے زائد مقامات پر نشہ سرعام فروخت ہورہا ہے۔ نشئی کھل کر بتاتے ہیں کہ منشیات پولیس کی ملی بھگت سے فروخت ہوتی ہیں۔ پولیس کے کردار کو واضح کرتا ہوا ایک اور خطرناک واقعہ یوں ہے کہ لاہور کے ایک اہم اور حساس علاقے میں ہوائی فائرنگ دیکھ کر ون فائیو پر کال کی گئی جہاں ڈولفن اہلکار تو پانچ سے دس منٹ میں پہنچ گئے مگر پھر انہوں نے وہ فون نمبر علاقے کے بدمعاشوں کو دے دیا جس سے شکایت کی گئی تھی اور پھر کالر کو افغانستان اور بلوچستان کے نمبروں سے دھمکی آمیز کالز موصول ہونے لگیں۔ اس امرکی ایف آئی اے کوبذریعہ ای میل شکایت کی گئی تو شکایت وصولی کی رسیدتک نہ ملی، تحقیق و تفتیش تودورکی بات ہے۔
اگر ہم بطور شہری اس پولیس کو اپنا محافظ سمجھیں تو یہ ہماری بھول ہو گی کہ اس کی وردی تو ضرور تبدیل ہوئی ہے مگر اس کے اندرجسم، دل اوردماغ صدیوں پرانے ہیں۔ موٹرسائیکل سواروں کوگھیر کر روپے جھاڑ لینا عام سا واقعہ ہے۔ اس پولیس کی اس وقت عید ہوجاتی ہے جب اس کے علاقے میں کوئی جرم ہوتا ہے کیونکہ یہاں مجرم ہی نہیں بلکہ مدعی بھی مجبور ہوتاہے کہ وہ پولیس کی جائز و ناجائزفرمائشیں پوری کرے۔ اس شہر میں نہ منشیات بک سکتی ہیں اور نہ ہی جسم فروشی کے اڈے چل سکتے ہیں اگر ان میں پولیس کی ساجھے داری نہ ہو۔ اب کچھ افسران نے یہ نیا کام شروع کر لیا ہے کہ وہ دن رات شور مچاتے ہیں کہ وہ دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کرتے ہیں مگران کے جرائم کی نشاندہی کرنے والا میڈیا اور مظالم کے شکار عوام شیطان ہیں۔ وہ اس بے ہنگم شور کو اپنے سوشل میڈیا پیجز پر شیئر کرتے اور کرواتے ہیں جہاں عوام ہی کے ٹیکسوں سے تنخواہ لینے والے ہزاروں ملازمین کی اضافی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف صاحب لوگوں کی خوشامدیں کریں بلکہ پولیس میں منشیات، شراب اور جسم فروشوں وغیرہ کی جو بھی نشاندہی کرے اسے نہ صرف گالیاں دیں بلکہ حسب توفیق مقدمات میں بھی الجھانے کی کوشش کریں جیسے حالیہ واقعے میں ہوا۔ میری پولیس بارے ساری خوش فہمیاں ہوا ہو گئی ہیں، اس ادارے نے حد اور حساب سے زیادہ مایوس کیا ہے۔