سب سے پہلے یہ خبر بارہ مئی کو آئی تھی کہ لاہور میں فردوس مارکیٹ انڈر پاس کا ٹھیکہ اسی کمپنی کو مل گیا ہے جس کے پاس پشاور بی آر ٹی کا ٹھیکہ ہے تو بطور لاہوری دل بیٹھ گیا اور پہلا خیال آیا، لو جی مارے گئے۔ فردوس مارکیٹ، گلبرگ میں واقع ہے اور جس سڑک پر انڈر پاس بنایا جا رہا ہے وہ مین بلیوارڈ گلبرگ یا اس کے ساتھ فیروز پورروڈ کو کیولری گراونڈ، کینٹ اور ڈیفنس سے جوڑتی ہے۔ یہ سڑک میری عمومی گزرگاہ ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ رش کے اوقات میں ٹریفک سگنل بند ہونے پریہاں ڈیڑھ، ڈیڑھ کلومیٹرلمبی قطاریں بھی لگ جاتی ہیں۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں لاہور کے میگاپراجیکٹس میں اولین یعنی جناح فلائی اوور بنا تھا جس نے گورومانگٹ روڈ کے ساتھ جڑی ہوئی ریلوے لائن کے بند پھاٹک پر انتظار کی مصیبت کو ختم کیا تھا۔
بارہ مئی کو ٹھیکہ ہوا اور بتایا گیا کہ اس انڈر پاس کو چار ماہ میں مکمل کیا جائے گا مگر جب اٹھارہ مئی کو وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بُزدار نے سنگ بنیاد رکھا تو انہوں نے ماضی کے دونوں وزرائے اعلیٰ کی طرح خواہش ظاہر کی کہ اسے جلد از جلد مکمل کیا جائے یعنی نوے روز میں۔ اب میرے حساب کتاب کے مطابق 18 مئی کے تین ماہ 17 اگست کو پورے ہو جاتے ہیں اور میں نے جب وہاں رہنے والے دوستوں سے پوچھا توانہوں نے بتایا کہ کام کی رفتار بہت سست ہے اور انہیں نہیں لگتاکہ یہ تین ماہ توکیا چھ ماہ میں بھی مکمل ہوپائے گا۔ شکایات یہ بھی آئیں کہ یہاں محکموں میں کوارڈی نیشن کا شدید فقدان ہے جیسے کچھ روز قبل دکانوں کے سامنے سے ٹف ٹائل توڑ دی گئیں حالانکہ ابھی اس کی ضرورت ہی نہیں تھی اورمشکل یہ ہوئی کہ وہاں راستہ اور پارکنگ کی سہولت دونوں ہی غائب ہو گئے۔ ہمارے تاجر پہلے ہی کرونا اور لاک ڈاون کے مارے ہوئے ہیں اور فردوس مارکیٹ کے تاجروں کے لئے تو دوہری مصیبت ہو گئی۔ گلبرگ بورڈ کے صدر کابل خان، فردوس مارکیٹ کے جنرل سیکرٹری اسلم برکاتی، علاقے کے سیاسی و سماجی رہنما کیپٹن ریٹائرڈ آصف جرال سمیت بہت سارے دوست شکایات کر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ یہاں ٹھیکہ کاکام نہیں ہو رہا تھا اور وزیراعلیٰ کے دورے کے بعد یہاں مشینیں نظر آنی شروع ہوئی ہیں۔
میں چند روز قبل فردوس مارکیٹ انڈر پاس کی کنسٹرکشن سائٹ پر لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے چیف انجینئر حبیب الحق رندھاوا اورنیسپاک کے محمد یوسف خان کے ساتھ تھااور اس ملاقات کو سہیل نے ممکن بنایا جو بھائیوں کی طرح محترم دوست ہے۔ میرا پہلا سوال ہی یہ تھا کہ یہ کیا غضب کیا کہ پشاور بی آر ٹی بنانے والی کمپنی کوٹھیکہ دے دیا جس کے بارے مشہور ہے کہ وہ اورنج لائن پراجیکٹ میں بھی بلیک لسٹ ہے تو اس سوال کا جواب تھا کہ ہمیں پروپیگنڈے کا شکار نہیں ہونا چاہئے، حقائق یہ ہیں کہ اورنج لائن میں جو کمپنی بلیک لسٹ ہوئی تھی وہ مقبول اینڈ کالسن تھی اور یہ مقبول ایسوسی ایٹس ہے۔ یہ کمپنی اورنج لائن میں صرف شیئرہولڈر تھی اور بلیک لسٹ کئے جانے کے حکومتی فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ واضح انداز میں ختم کر چکی ہے لہٰذا ایل ڈی اے کے پاس کوئی جواز نہیں کہ اسے بلیک لسٹ رکھے۔ ایل ڈی اے نے اعتراض کیا اور جواب میں وہ فیصلہ دکھا دیا گیا۔ جہاں تک پشاور بی آر ٹی کا تعلق ہے تو وہاں یہ کمپنی کام کر رہی ہے اور حکومتی سطح پراس پر کوئی اعتراض نہیں لگایا گیا۔ اس کمپنی نے ایک ارب نو کروڑ کے پراجیکٹ کو ستانوے کروڑ میں بنانے کی پیش کش کی اور اسکے مقابلے میں این ایل سی اور حبیب کنسٹرکیشن جیسی بڑی کمپنیاں بھی تھیں لہٰذا یہ قانونی طور پربھی ممکن نہیں تھا کہ بارہ، تیرہ کروڑ کی بچت کو نظرانداز کر دیا جاتا۔
چلیں ! یہ معاملہ کلیئر ہوا مگر اس کے باوجود شک کا سانپ ابھی پھنکار رہا تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ حکومتی اعتراضات نہ ہونے کے باوجو وبی آر ٹی پشاورریکارڈ تاخیر کا شکار ہے۔ میں نے لگی لپٹی رکھے بغیر پوچھا، کیا یہ انڈر پاس بن جائے گا جو پی ٹی آئی حکومت کا لاہور کے لئے پہلا میگا پراجیکٹ ہے۔ جواب تھا کہ یہ درست کہ18مئی کو گراونڈ بریکنگ ہوئی تھی جو ایک سماجی اور سیاسی قسم کی تقریب ہوتی ہے مگر کمپنی نے بینک گارنٹی سمیت دیگر شرائط پوری کر کے 5جون کو ورک پرمٹ لیا اور کام شروع کیا۔ حبیب الحق رندھاوا اور محمد یوسف خان دونوں پر یقین تھے کہ 6 ستمبریعنی یوم دفاع تک یہ پراجیکٹ مکمل ہوجائے گا۔ مجھے اس سے قبل ٹریفک انچارج چوہدری عمیر بتا چکے تھے کہ ان کی نظر میں کام دو، تین آگے ہی جا رہا ہے، پیچھے نہیں ہے۔
انڈر پاس کی سب سے بڑی اور اہم تعمیر پائلز، کی ہوتی ہے یعنی وہ پلرز جو دیواریں بنتے ہیں اور ان کے اندر سڑک تعمیر ہوتی ہے اوریہاں آٹھ سو اسی پائلز میں سے ساڑھے سات سو سے زائدبن چکی ہیں یعنی یہ کام تادم تحریر پچاسی سے نوے فیصد مکمل ہو چکا ہے۔ اگلے ہفتے اس کی تکمیل کے بعد چوک میں چھت پڑے گی جس پر سڑک بنے گی اور اس کے ساتھ ہی اندر سے مٹی نکال لی جائے گی جس سے انڈر پاس زمین سے باہر نکل آئے گا جو ابھی تک زمین کے اندر چھپا ہوا ہے۔ انہوں نے میرے سوال پر بتایا کہ اب تک مجموعی طور پرکام کا پچاس فیصدحصہ مکمل ہوچکا ہے جبکہ کام کرتے ہوئے پورے چالیس دن بھی نہیں ہوئے اور ہمارے پاس پچاس سے زائد دن باقی ہیں۔ انہوں نے حساب کتاب لگا کر بتایا کہ وہ اسی سپیڈ سے کام جاری رہا تو 30اگست کو انڈر پاس کو ٹریفک کے لئے کھول دیں گے اور یہ لاہور کا وہ تیز ترین بننے والا میگا پراجیکٹ ہو گا جو محض 85دنوں میں مکمل ہوجائے گا۔ میرا خیال ہے کہ بارش اس کام میں تاخیر پید ا کرسکتی ہے مگر ایل ڈی اے کے چیف انجینئر کہتے ہیں کہ وہ بارش میں بھی کام جاری رکھیں گے۔ جہاں پانی بھر جائے گا وہاں ڈی واٹرنگ کے سیٹ لگا دئیے جائیں گے۔ میرے دوست بھا ئی عثمان کو اس کے باوجود یقین نہیں ہے کہ یہ پراجیکٹ اتنی جلدی مکمل ہو سکتا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ پچاس فیصد کام مکمل ہونے کے باوجود بھی ایسی کوئی نحوست پڑ جائے جو اس وقت ہمارے ہر کام میں پڑ رہی ہے۔
میں سوچ رہا ہوں کہ کیا پچاسی روز میں انڈر پاس مکمل ہونے پر عثمان بِزدار کی حکومت شہباز شریف کی حکومت کی سپیڈ پر بازی لے جائے گی اور اگر ایسا ہوا تو اس کا کریڈٹ مکمل طور پر ایل ڈی اے کو جائے گا جس نے اتنی کپیسٹی بنا لی ہے کہ بڑے سے بڑے پراجیکٹ کو بھرپور اعتماد اور معیار کے ساتھ مکمل کرسکتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ایل ڈی اے دنیا کا بہترین ادارہ بن گیا ہے مگر میں لاہور کی تعمیر وترقی میں اس کے کردار کی نفی بھی نہیں کرسکتا۔ ادارے ہی حکومتوں کی عزت اور بے عزتی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت میگا پراجیکٹس کی مخالفت کرتی رہی ہے اور یہ بھی درست ہے کہ بی آر ٹی کی تعمیر میں غیر معمولی تاخیر کے حوالے سے یہاں کام کرنے والی کمپنی منفی شہرت رکھتی ہے مگر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وہاں تاخیر کی وجوہات کیا ہیں اور ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ میں جمع تفریق کر رہا ہوں کہ کیا ایل ڈی اے وزیراعلیٰ عثمان بُزدار کو ریکارڈ مدت سے بھی پہلے انڈر پاس مکمل کرنے کا کریڈٹ لینے کا موقع فراہم کر دے گا جس کے نہ صرف دعوے ہیں بلکہ امکانات بھی نظر آ رہے ہیں اور کیافردوس مارکیٹ انڈر پاس بنانے والی کمپنی پشاور بی آر ٹی کی تعمیر میں تاخیر کا ڈس کریڈٹ یہاں مقررہ مدت میں معیاری تعمیر کے کریڈٹ سے بدل سکے گی، اگر ایسا ہوا پھر تو کمال ہوجائے گا۔ اگرچہ یہ قبل از وقت ہے مگرایک آنکھوں دیکھی گواہی کے بعد میرا دل کر رہا ہے کہ کہوں ویلڈن ایل ڈی اے۔ حبیب الحق رندھاوا پرامید ہیں اور کہتے ہیں دُعا کریں۔ میں تو اپنے شہر کی بہتری اور فلاح کے لئے ہر وقت دُعا کرتا ہوں، آپ سب بھی کیجئے کہ ہر قسم کے سیاسی اور نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہو کر لاہور ہم سب کا ہے۔