حکومت سگی ماں ہے یا سوتیلی، یہ ہم عوام کو ہر وقت یوں ڈراتی کیوں ہے، میرے ذہن میں یہ سوا ل سب سے پہلے وزیراعظم عمران خان کے بیانات سے آیا، مجال ہے انہوں نے جب بھی خطاب کیا تو کوئی اچھی خبر دی ہو، ا س سے بہت پہلے جب وہ کنٹینر پرسوار ہوا کرتے تھے تو روزانہ ہزاروں ارب کی کرپشن کی کہانیاں سنایا کر تے تھے، پچھلے حکمرانوں کی موجودگی میں اگلے آنے والے دور سے ڈرایا کرتے تھے، پھر پچھلے حکمران تو نہ رہے مگر خود عمران خان صاحب کے ساتھ ہی اقتصادی و معاشی طور پر ایک ڈراونا دور ضرور آگیا۔ جناب عمران خان کے بیانات سے ڈراس وقت بھی لگا جب انہوں نے پچیس اپریل تک کورونا کے پچاس ہزار مریضوں کی خوش خبری، دی مگر مئی کا پہلا ہفتہ گزرتے ہوئے بھی تمام تر نااہلیوں اور ناکامیوں کے باوجو شکر الحمد للہ د مریض آدھے سے بھی کم ہیں تو ہمارے وزیراعظم نے تباہی کی اگلی تاریخ مئی کے دوسرے ہفتے کی دی ہے، اللہ خیر کرے۔ وزیراعظم الفاظ کا استعمال بھی خوب کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا، انہیں توقع تھی کہ ایک سو چھیانوے افراد مر جائیں مگر توقع سے بہت کم مرے حالانکہ یہاں توقع کی بجائے لفظ خدشہ یا اندیشہ بھی استعمال کیا جاسکتا تھا اور اسی طرح ایک اصطلاح خدانخواستہ بھی ہے یعنی اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو، ان سب سے فقروں کی خوفناکی کو کم کیا جاسکتا تھا۔
حکومت کے ڈرانے کا خیال مجھے وزیر منصوبہ بندی جناب اسد عمر کی پریس کانفرنس سن کے آیا، جی، یہ وہی اسد عمر ہیں جو پچاس ڈالر فی بیرل میں پاکستان میں پٹرول چالیس روپے لٹر بیچنے کے فارمولے دیا کرتے تھے اور اس وقت جب پٹرول تقریبا مفت ہے تو ان کی حکومت میں بیاسی روپے لٹر بیچا جا رہا ہے۔ کیا یہ بات ایک لطیفہ ہے کہ اس پر ہنسا جائے۔ آپ اسے لطیفہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ ہر لطیفے کے پیچھے کوئی نہ کوئی انسانی یا سماجی المیہ چھپا ہوتا ہے۔ اسد عمر کی پریس کانفرنس پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے بارے اپنے پرانے موقف بارے وضاحت دینے کے لئے ہرگز نہیں تھی اور یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اسد عمر کون سے وزیر پٹرولیم ہیں اور جو صاحب وزیر پٹرولیم ہیں ان کی نظر میں اس وقت بھی خطے میں سب سے سستا پٹرول پاکستان میں ہی بیچا جا رہا ہے، حیرت ہے کہ حکمران ایسی باتیں کیسے کرلیتے ہیں۔
جناب اسد عُمر نے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کے بعد جو خوش خبریاں، سنائی ہیں وہ کچھ یوں ہیں کہ پاکستان کا معاشی نظام شدید طور پر متاثر ہونے سے دس لاکھ چھوٹے ادارے ہمیشہ کے لئے بند ہو سکتے ہیں یعنی وزیر منصوبہ بندی، ادارے کیسے کھولے رکھنے ہیں کی بجائے یہ بتا رہے ہیں کہ ادارے ہمیشہ کے لئے بند ہوسکتے ہیں، سوچئے، یہ اعلان اگر انہوں نے ہی کرنا ہے تو پھر تباہی کی کوئی وزارت ہو تو وہ کیا اعلان کرے گی۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ بے روزگار ہونے والے افراد کی تعداد ایک کروڑ اسی لاکھ تک پہنچ سکتی ہے یعنی پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے پانچ برسوں میں ایک کروڑ نوکریاں پیدا کر نی تھیں مگر ان کی حکومت کے ووسرے سال کے اختتام تک بے روزگاروں کی ایک فوج تیار ہوجائے گی بلکہ کئی فوجیں تیار ہوجائیں گی۔ عملی صورتحال یہی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں ہر برس بیس لاکھ نوکریاں پیدا ہونے کی بجائے دو برسوں میں د و کروڑ کو بے روزگار ضرور ہونا پڑ رہا ہے۔ وزیر منصوبہ بندی نے مزید فرمایا کہ دو سے سات کروڑ افراد خط غربت سے نیچے جا سکتے ہیں۔ اس وقت گلوبل پاورٹی لائن کے مطابق وہ تمام لوگ جو ایک روز میں ایک اعشاریہ نو یعنی تقریبا دو ڈالر روزانہ کے لگ بھگ نہیں کماتے وہ خط غربت سے نیچے تصور کئے جاتے ہیں یعنی پاکستان میں وہ لوگ جو روزانہ تین سو سے کچھ زیادہ روپے یا مہینے کا کم از کم نو، دس ہزار نہیں کماتے۔ ویسے میرے خیال میں جو لوگ مہینے کا بارہ، پندرہ بلکہ بیس، پچیس ہزاربھی کماتے ہیں وہ بھی خط غربت میں ہی کہیں ابھرتے ڈوبتے نظر آتے ہیں۔ واپس جناب اسد عمر کے فرمودات پر آتے ہیں کہ سات کروڑ افراد خط غربت سے نیچے جائیں گے تو یہ اس وقت پاکستان کی ایک تہائی آبادی بنتی ہے یعنی آپ کے ارد گرد ہر تین میں سے مزید ایک شخص نو ہزار روپے مہینے سے کم کما رہا ہو گا۔ میں نے وزیر صاحب کی خبر ایک، دو اخبارات میں دیکھی ہے اور وہ مجھے منصوبہ بندی کی بجائے بربادی کے وزیر کی ریسرچ لگ رہی ہے۔ انہو ں نے کسی یل یونیورسٹی، کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ کورونا وائرس کی غریب، متوسط اور سفید پوش طبقے کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ انہوں نے اپنے وزیراعظم کے بیان کو بھی دہرایا ہے کہ مئی میں کورونا کے مریضوں میں اضافہ ہو گا۔
میں اس خبر کو پڑھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اگر پاکستان کے کسی دشمن کوخاکم بدہن پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کوئی پریس کانفرنس کرنا پڑتی تو وہ ایسی ہی ہوتی مگر جناب اسد عمر اس وقت سکہ بند محب وطن جماعت کے وزیر اور عدالتی سرٹیفائیڈ صادق اور امین سیاستدان کے ساتھی ہیں لہٰذا ان کے بارے غلط گمان نہیں کیا جاسکتا مگر کیا یہ نکتہ بھی نہیں اُٹھایا جا سکتا تھا کہ مہذب معاشروں میں حکومتیں اپنے عوام کے لئے ماں اور باپ کا درجہ رکھتی ہیں اور والدین اپنے بچوں کے لئے کوئی ڈریکولا نہیں بلکہ محبت اور تحفظ کی علامت ہوتے ہیں۔ وہ ان کے بہتر مستقبل کی خواہش ہی نہیں رکھتے بلکہ اس کے لئے کوشش بھی کرتے ہیں مگر ہمیں عجیب حکمران ملے ہیں جو ہمارے لئے ہر بری خبر لئے ہوئے ہیں۔ مجھے نہیں علم کہ ہمارے وزیر منصوبہ بندی کی آنے والے وقت کے لئے منصوبہ بندی کیا ہے کہ انہوں نے ہمیں اس بارے بتایا ہی نہیں۔ اگر ہماری منصوبہ بندی صرف یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے ہمارا قرض اگلے برس تک کے لئے منجمد ہوجائے گا تو ہوسکتا ہے کہ اس سے وزارت خزانہ اور وزارت عظمیٰ کو کوئی ریلیف ملے مگر عوام کو کیا ریلیف ملے گا اس بارے کوئی خیر خبر نہیں ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ حکومت کا دماغ سمجھے جانے والے ہمیں یہ بتانے کی بجائے کہ دس لاکھ ادارے بند ہوجائیں گے اور ایک کروڑ اسی لاکھ بے روزگار، یہ بتائیں کہ ہم نے یہ اقدامات کر لئے ہیں جن کی بنیاد پر دس لاکھ تو کیا ہم دس ادارے بھی بند نہیں ہونے دیں گے اور ایک کروڑ اسی لاکھ تو کیا ہم ایک سو اسی افراد کو بھی بے روزگار نہیں ہونے دیں گے۔ میری خوش فہمیاں اپنی جگہ پر مگر حقیقت یہی ہے کہ موجودہ حکمران اس ہمت، جرات، اہلیت اور صلاحیت سے عاری ہیں۔ یہ بُری بُری خبریں سنا کے ڈرا ہی سکتے ہیں۔ یہ پہلے زمانے کا دیہاتیوں کوملنے والا وہ تار ہیں جس کو پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں بس جب تار ملے تو ہاتھ اٹھائیں اور ماتم شروع کر دیں کہ لازمی طور پر کوئی نہ کوئی مر گیا ہو گا۔
کیا میں یہ توقع کروں کہ وزیر منصوبہ بندی جب اگلی پریس کانفرنس کریں گے تو ان کے پاس سماجی اور معاشی تباہ کاریوں سے مقابلے کے لئے کوئی منصوبہ بندی ہو گی۔ وہ ہمیں یہ نہیں بتا رہے ہوں گے کہ باپ کو ہارٹ اٹیک ہوا اور اس لئے ہوا کہ بیٹا چھت سے گر گیا تھا اور بیٹا اس لئے چھت سے گر گیا تھا کہ زلزلہ آیا تھا جس نے مکان ہی گرا دیا تھا اور مکان تلے باقی اہل خانہ بھی دب کر مر گئے تھے۔