کل ایک خبر پر نظر پڑی جس میں لکھا تھا کہ حکومت پنجاب نے اساتذہ کو پچیس سال کی ملازمت میں چار بار ترقی دینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ترقی کے لیے کسی اضافی تعلیم یا ’ اے سی آر، وغیرہ کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔
راقم نے خبر پڑھنے کے بعد جامعہ کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک استادکو مبارک باد دی تو انھوں نے نہایت افسردہ لہجے میں کہا کہ جناب دو وجوہات کی بنیاد پر میرے لیے یہ مبارک باد کی خبر نہیں بنتی، ایک یہ کہ اس کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے اور دوسرے یہ کہ اس خبرکا تعلق اسکول اور کالج کے اساتذہ سے ہے، جامعات کے اساتذہ سے نہیں ہے۔
ہم نے کہا پھر تو جامعات کے اساتذہ کو ان اسکولز اورکالجزکے اساتذہ کے مقابلے میں ترقی کے اچھے اور بہتر مواقع حاصل ہونگے۔ یہ بات سن کر انھوں نے جامعات کے اساتذہ کی ترقی سے متعلق جو دکھ بھری کہانی سنائی، اس پر بمشکل ہی یقین کیا جا سکتا ہے۔
جامعات کے اساتذہ کی ترقی کے طریقہ کا بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ فرض کریں، ایک استاد کسی جامعہ میں بحیثیت لیکچرار اپنی ملازمت کا آغازکرتا ہے تو ساری زندگی ایمانداری سے درس و تدریس کے فرائض انجام دینے کے باوجود اس کا ایک ’پروموشن، بھی نہیں ہوگا اور وہ بغیرکسی ترقی کے لیکچرارہی ریٹائر ہوگا۔
اگر ایسا لیکچرارچاہتا ہے کہ وہ اگلے گریڈ میں ترقی کرکے اسسٹنٹ پروفیسر بن جائے تو اس کو انتظارکرنا ہوگا کہ یونیورسٹی کب اس کے شعبے کے لیے اسسٹنٹ پروفیسرکا اشتہار دیتی ہے، جب اشتہارآئے گا تو یہ لیکچرر اگلی پوسٹ یعنی اسسٹنٹ پروفیسرکے لیے درخواست دینے کا اہل ہوگا، پھر جب انٹرویو ہوگا تو اس کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ انٹرویو میں موجود دیگر تمام امیدواروں کے مقابلے میں وہ قابلیت اور تجربے وغیرہ میں آگے ہے، پھر انٹرویو لینے والے پینل کی مرضی ہے کہ وہ اسے منتخب کریں یا نہ کریں۔ یعنی فرض کریں شعبہ میں اسسٹنٹ پروفیسرکی آسامیاں چارہیں اور امیدوار 24 ہیں تو اس لیکچرار کو انٹرویو میں بیس امیدواروں کو شکست دے کر ’ ٹاپ 4، میں آنا ہوگا۔
ورنہ یہ انٹرویو میں ناکام تصورکیا جائے گا جس سے اس کا ’پروموشن، ہاتھ سے تو نکلے گا ہی مگر بے عزتی الگ ہوگی کہ ایک استاد انٹرویو میں ’فیل، ہوگیا۔ انٹرویو میں پاس ہونا اتنا آسان بھی نہیں ہوتا کیونکہ ہر امید وار بڑی بڑی سفارشی پرچیاں لے کر آتا ہے۔ یوں انٹرویو میں ناکام ہونے والے جامعہ کے ایک استاد کی اپنے شعبہ کے ساتھی اساتذہ اور طلبہ میں کس قدر جگ ہنسائی ہوتی ہوگی اور وہ درس وتدریس کے عمل میں اپنے اعتماد کوکس قدرکھوتا ہوگا اور اس کا معیار تعلیم پرکیا اثر پڑتا ہوگا، اس کا شاید کوئی اور اندازہ نہیں کرسکتا۔
ترقی یا پرموشن کے لیے یہی عمل اور طریقہ پروفیسرکے عہدے تک پہنچنے کے لیے درکار ہوتا ہے بلکہ آگے کا طریقہ کار اور عمل میں مزید مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔ مثلاً اگرکوئی اسسٹنٹ پروفیسر اگلے عہدے یعنی ایسوسی ایٹ پروفیسرکے لیے درخواست جمع کرائے تو پھر اس کے تجربے وغیرہ سے متعلق تفصیلات بیرون ملک کسی دو پروفیسر کو جانچنے کے لیے بھیجی جاتی ہیں۔
جس کی رپورٹ مہینوں اورکبھی سال دو سال بعد آتی ہے جس میں صرف یہ فیصلہ دیا جاتا ہے کہ مذکورہ استاد انٹرویو میں شرکت کرنے کا اہل ہے یا نہیں۔ اس کے بعد پھر انٹرویو میں دوسری یا تیسری پوزیشن حاصل کرنا لازمی ہوتی ہے کیونکہ عموماً ایسی خالی پوسٹیں دو تین ہی ہوتی ہیں مگر انٹرویو کے لیے درجنوں امیدوار ہوتے ہیں کیونکہ جب اشتہار دیا جاتا ہے تو ملک و بیرون ملک سے بھی لوگ درخواستیں دیتے ہیں۔ لہذا شعبے کے سینیئر ترین استاد کے لیے بھی پروموشن کے مواقعے کم ہوجاتے ہیں۔
ان تمام مراحل میں ایک بڑا مسئلہ وقت کا بھی ہوتا ہے، مثلاً جامعہ کراچی میں چار سے چھ سال اشتہار آنے میں لگ جاتے ہیں، پھر ان کی " اسکروٹنی " میں ایک سے دوسال لگ جاتے ہیں مزید یہ کہ بیرون ملک سے بعض اوقات امیدواروں کی رپورٹ آنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں، یوں عموماً کسی انٹرویوکے لیے پانچ چھ سال سے بھی زائد وقت لگ جاتا ہے۔ اس قسم کے طویل اور بے تکے مراحل کے سبب اساتذہ کی بڑی تعداد انٹرویوکا انتظار کرتے کرتے ریٹائر ہی ہوجاتی ہے۔
یہ تمام مسائل سننے کے بعد راقم کو اندازہ ہوا کہ اس ملک میں اعلیٰ تعلیم کے لیے طلبہ ہی نہیں اساتذہ کو بھی گھمبیر مسائل کا سامنا ہے اور اس ملک میں ترقی یا پروموشن کا سب سے سست اور الٹا اصول جامعات کے اساتذہ کے لیے رکھا گیا ہے مثلاً ایک ہی جامعہ میں کام کرنے والے غیر تدریسی عملے کو پانچ سال بعد ’ ٹائم پے اسکیل، کے تحت ترقی مل جاتی ہے، افسران کو’ انسینٹیو اسکیم، کے تحت اٹھارہ سے انیس گریڈ بھی بغیر کسی سلیکشن بورڈ یا انٹرویو کے مل جاتا ہے خواہ اس کے لیے پوسٹ خالی ہو یا نہ ہو۔
اسی طرح گریڈ سترہ کے افسران کوگاڑی اور ڈرائیور بھی مل جاتا ہے مگر ایک بیس گریڈ کے استاد کو جو اپنے شعبے کا چیئرمین بن جائے یا فیکلٹی کا ’ڈین، یعنی کلیہ کا سربراہ بن جائے، اس کو جامعہ کی جانب سے نہ گاڑی ملتی ہے نہ ہی ڈرائیور ملتا ہے۔
یوں دیکھا جائے تو ایک ’سول سرونٹ، کو اور خود جامعہ میں کام کرنے والے غیر تدریسی ملازمین کو اساتذہ کے مقابلے میں زیادہ سہولیات بھی میسر ہیں اور پروموشن کے مواقعے بھی(جو یقینا ان کا حق بھی ہے اور انھیں ملنا بھی چاہیے) مگر ایک استاد کو جو اس ملک کے نوجوانوں کو صرف درس وتدریس فراہم نہیں کر رہا ہے بلکہ تحقیق کے لیے رہنمائی بھی فراہم کر رہا ہے، ترقی کے مواقعے قطعی حاصل نہیں ہیں۔
راقم کی یہاں تعلیم کے محکموں کے ذمے داران، وزراء اور خاص کر وزیر اعلیٰ سے گزارش ہے کہ وہ جامعات میں اساتذہ کے پروموشن کے اس طریقہ کارکو تبدیل کریں اور دیگر سرکاری ملازمین کی طرح انھیں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے مواقعے فراہم کریں۔ مثلاً راقم کے خیال میں ایک تجویز یہ ہے کہ اول دیگر سرکاری ملازمین کی طرح جامعات کے اساتذہ کے لیے بھی ٹائم پے اسکیل نافذ کیا جائے جس کے تحت ہر چار سال بعد محض سینیارٹی اور تجربے کی بنیاد پر اگلے گریڈ یعنی پے اسکیل میں ترقی دی جائے اور اس کے لیے ایچ ای سی کی ریسرچ آرٹیکل شایع کرانے کی جیسی شرائط سے مستثنیٰ قرار دیا جائے اور اس عمل کے لیے کسی قسم کا انٹرویو نہ لیا جائے۔
2۔ ایچ ای سی کی شرائط اور چار سال ملازمت کی مدت پوری کرنے والے اساتذہ کو اگلے گریڈ میں پے اسکیل اور عہدے کے ساتھ ترقی دی جائے۔
3۔ ایچ ای سی کی شرائط پر اترنے والے اساتذہ کی ترقی کے لیے بھی تجربے وغیرہ کی تفصیل بیرون ملک جانچ کے لیے ریفریزکو نہ بھیجی جائے بلکہ صرف سلیکشن بورڈ ہو۔
امید ہے کہ اس ملک کے تعلیم دوست ذمے داران ان مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے کوشش کریں گے اور ہمیں ایسا کرنا بھی چاہیے، اگر ہم سمجھتے ہیں کہ اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے جامعات کا کردار اہم ترین ہے۔