بدھ کی صبح 10بج کر 26منٹ پر یہ کالم لکھنا شروع کیا ہے۔ رات بھر سو نہیں سکا۔ ٹیلی فون کی بیٹری دو مرتبہ چارج کرنے کے بعد دیوانوں کی طرح یہ جاننے کی کوشش کرتا رہا کہ دہشت گردوں کے قبضے میں آئے 100سے زائد مغوی رہا ہوئے ہیں یا نہیں۔ امید باندھ رکھی تھی کہ خیر کی خبر آتے ہی قلم اٹھالوں گا۔ جس خبر کا منتظر تھا وہ مگر آئی نہیں۔
بلوچستان کے ایک دور دراز علاقے میں بلند قامت پہاڑ پر کھودی ایک سرنگ میں کھڑی ٹرین کے مسافروں کے بارے میں اسلام آباد بیٹھ کر "تازہ ترین" معلوم کرنا ممکن ہی نہیں۔ پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ کے لئے ہمیں کئی برسوں سے تیار کرنے والے بادشاہوں نے مگر سرکاری طورپر کوئی ایک فرد بھی نامزد نہیں کیا جسے انگریزی زبان میں Person Point کہتے ہیں۔ ہنگامی حالات میں صحافی اس شخص سے تازہ ترین جاننے کے لئے معلومات جمع کرتے ہیں۔ میڈیا کے علاوہ محکمہ ریلوے کو بھی جس کی ٹرین -جعفرایکسپریس- کوئٹہ سے پشاور جاتے ہوئے منگل کے دن اغواء ہوئی کوئی "ہیلپ لائن" مختص کرنا چاہیے تھی۔ اس کی بدولت اغواء کاروں کے قبضے میں آئے مسافروں کے بارے میں تفصیلات کی فراہمی کا بندوبست ہوسکتا تھا۔ ہماری سرکار نے مگر ان معلومات پر توجہ ہی نہیں دی۔
سرکارکے مقابلے میں جعفر ایکسپریس کے اغواء کار ابلاغ کے جدید ترین ذرائع کی بدولت بین الاقوامی میڈیا خصوصاََ ہمارے "ازلی" کہلاتے دشمن بھارت کے تقریباََ تمام نمایاں ٹیلی وژن چینلوں سے براہ راست رابطے میں رہے۔ ان کو پل پل کی اطلاع ای میلز کے ذریعے بھی فراہم کرتے رہے۔ چند بھارتی چینلوں پر بلوچستان کے ایسے "نمائندے" بھی نقاب پہنے ہوئے تھے جو 400سے زیادہ مسافروں سے بھری ایک ٹرین کے اغواء کو ریاستِ پاکستان کے مبینہ "ظلم" کا فطری نتیجہ بناکر جائز ٹھہرارہے تھے۔ اس کے علاوہ ان سکرینوں پر ایسے "ماہرین بلوچ سیاست" بھی موجود تھے جنہوں نے شاید زندگی میں ایک بار بھی وادی بولان کا سفر نہیں کیا ہوگا۔ وہ شاید یہ بتانے کے بھی قابل نہیں تھے کہ وہ سرنگ پاکستان کے کونسے صوبے کی سرحد سے کتنے قاصلے پر ہے جہاں جعفر ایکسپریس کو روکا گیا ہے۔
"جائے وقوعہ" سے یقیناََ سیٹلائٹ فونوں کی مدد سے بھیجی تصاویر اور پیغامات نے مگر کئی گھنٹوں تک ٹی وی ناظرین کے لئے ڈرامے کا ماحول بنائے رکھا۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کا بنیادی مقصد ہی منیر نیازی کے ایک مصرعہ کے مطابق لوگوں کو "ان کے گھر میں ڈرا" کر رکھنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک نام نہاد "بیانیہ" بھی ہوتا ہے جس کی وسیع پیمانے پر تشہیر درکار ہوتی ہے۔ جعفر ایکسپریس پر قابض ہوئے دہشت گرد یہ دونوں مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پاکستان کے روایتی میڈیا کی خاموشی اور انٹرنیٹ کو "مصفا "بنانے کے لئے اربوں روپے کے خرچ سے لگائے فلٹر انہیں روکنے میں قطعاََ ناکام ہوئے۔
میرے باقاعدہ قاری بخوبی جانتے ہیں کہ مشکل ترین حالات میں بھی بلوچ نوجوانوں کے غصے اور محرومیوں کو کسی نہ کسی طرح آپ کے روبرو لانے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ اس کے باوجود کوئی ذی ہوش اس رحجان کو نظر انداز نہیں کرسکتا کہ مسافر بسوں یا ٹرینوں کو اسلحہ کے زور سے روک کر مسافروں کی شناخت ہو۔ ان میں سے "پنجابیوں" کو الگ کرکے گولیوں سے بھون دیا جائے۔ عام بسوں اور ٹرینوں پر سفر کرنے والے "اشرافیہ" کے ہرگز نمائندہ نہیں ہوتے۔ انہیں نشانہ بنانا "حقوق کی جنگ" ہرگز نہیں بلکہ "نسلی منافرت" ہے اور اس نفرت کو کسی بھی طرح جائز ثابت کرنا میرے لئے ناممکن ہے۔
وادی بولان کے بلند قامت پہاڑوں کے درمیان بچھی ریلوے لائن پر ایک سرنگ کے قریب قبضہ بہت سے افراد پر مشتمل گروہ کی کئی دنوں تک پھیلی تربیت کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔ اس منصوبے پر عمل درآمد کے لئے بے تحاشہ سرمایہ درکار ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ دورِ حاضر کے جدید ترین آلات ہوتے ہوئے بھی ہماری ریاست کو اس منصوبے کی بھنک تک میسر کیوں نہ ہوئی۔ لاعلمی کا ذمہ دار کسی کو تو ٹھہرانا ہوگا۔
جعفر ایکسپریس پر قبضہ ہوگیا تو دہشت گردوں نے اپنے "کمانڈروں" سے بھی روابط استوار کئے۔ دہشت زدہ دل کے لئے اطمینان بخش خبر فقط یہ ہے کہ "جن" سے جو گفتگو ہورہی تھی وہ "سن" لی گئی ہے۔ ان کی لوکیشن کا پتہ بھی شاید چل گیا ہوگا۔ یہ سب جان لینے کے بعد ریاست پاکستان کی اولین ذمہ داری ان کا تعاقب ہے۔ حال ہی میں بلوچستان سے شرف اللہ نامی ایک دہشت گرد گرفتار ہوا ہے۔ سی آئی اے اس کا کئی مہینوں سے تعاقب کررہی تھی۔ مبینہ طورپر داعش کا یہ سرگرم رکن ایران کے شہر کرمان اور روس کے دارالحکومت میں تخریب کاری کی مہا وارداتوں میں ملوث گروپ کے سرغنوں میں شامل تھا۔ اس پر یہ الزام بھی تھا کہ اس نے اگست 2021ء میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے دوران کابل ایئرپورٹ کے ایک دروازے پر ہوئے خودکش حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
شرف اللہ کی گرفتاری اور امریکہ حوالگی کے بعد میں پاکستان میں دہشت گردی کے کسی سنگین واقعہ کے لئے ذہنی طورپر تیار تھا۔ توقع باندھی کہ محض ایک صحافی کے ذہن میں آئے خدشات ریاستی اداروں نے بھی منطقی انداز میں محسوس کرتے ہوئے تیاری کررکھی ہوگی۔ منگل کے دن ہوئے واقعہ کے لئے ہم مگر تیار نظر نہیں آئے۔ شرف اللہ اور اس کے ساتھیوں کی گرفتاری اور انہیں ان ملکوں کے حوالے کرنے کے بعد جہاں وہ دہشت گردی کی سنگین وارداتوں کے ذمہ دارتھے پاکستان کا حق بنتا ہے کہ ان ممالک کے جاسوس اداروں سے روابط استوار کرنے کے بعد درخواست کر ے کہ جعفر ایکسپریس کے اغواء کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے بارے میں ان کے پاس کوئی معلومات ہیں تو انہیں ہمارے ادارے سے شیئر کریں۔
رات گئے خبر آئی تھی کہ جعفر ایکسپریس پر حملہ آور ہوئے افراد افغانستان میں موجود کچھ لوگوں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ اس خبر پر اعتبار کیا جائے تو یہ طے کرنا پڑتا ہے کہ جنوبی افغانستان میں اب بھی کئی مقامات دہشت گردوں کی تربیت اور محفوظ ٹھکانوں کے طورپر استعمال ہورہے ہیں۔ قندھار میں براجمان اسلامی امارت افغانستان کے "امیر المومنین" کو اس کا نوٹس لینا ہوگا۔