جمہوری نظام اور مہذب روایات کے بارے میں فکرمند افراد کی بے پناہ اکثریت شاداں اور مطمئن ہے کہ فیس بک اور ٹویٹر نے امریکی صدر ٹرمپ کو اپنے پلیٹ فارموں پرBanکردیا ہے۔ گزشتہ بدھ کے روز واشنگٹن میں جو ہنگامے ہوئے وہ مذکورہ فیصلے کا سبب ہیں۔ ٹھوس شہادتوں کی بنیاد پرواضح انداز میں عیاں ہورہاہے کہ نومبر2020ء کے صدارتی انتخاب میں اپنی شکست کو ٹرمپ نے خوش دلی سے قبول نہیں کیا۔ دھاندلی کی دہائی مچانا شروع کردی۔ چند ریاستوں کو جہاں ری پبلکن جماعت برسراقتدار ہے، مسلسل اُکساتا رہاکہ وہ جوبائیڈن کی حمایت میں ڈالے ووٹوں کو مشکوک ٹھہرا کر مسترد کریں۔ اس کی خواہش کی پذیرائی نہ ہوئی تو ٹرمپ نے فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے اپنیBaseسے براہ راست رابطے شروع کردیئے۔ کامل ڈھٹائی سے انہیں "مشورے"دیتا رہا کہ وہ 6جنوری کے روز امریکی پارلیمان کا محاصرہ کریں۔
نومبرکا انتخاب ختم ہونے کے بعد امریکی پارلیمان نئے سال کی 6جنوری کے روز الیکٹورل ووٹوں کی توثیق کرتی ہے۔ گزشتہ 200برسوں سے یہ معمول کی رسمی کارروائی ہی تصور ہوتی رہی ہے۔ کوئی امریکی یہ امکان ذہن میں لاہی نہیں سکتاکہ امریکی پارلیمان نومبر میں منظر عام پر آتے نتائج کی توثیق کرنے سے انکار کردے۔ ٹرمپ نے مگر یہ توقع باندھ لی کہ اس کے جنونی حامی واشنگٹن میں جمع ہوکر "تاریخ"بنادیں گے۔ 6جنوری2021کے دن "تاریخ"ایک اعتبارسے ہرصورت بنی مگراس نے ٹرمپ اور اس کی جماعت کے سرکردہ حامیوں کو بھی شرمندہ کردیا۔ واشنگٹن کی پولیس مظاہرین کے روبروقطعاً بے بس نظرآئی۔ مظاہرین دیواریں پھلانگ کر پارلیمان کی عمارت میں گھس گئے۔ اس کی "توقیر" خاک میں ملادی۔ نیشنل گارڈز امریکی اراکینِ پارلیمان کو مظاہرین سے "چھپانے "کو مجبور ہوئے۔ پارلیمان کی عمارت کو محفوظ بنانے میں کئی گھٹنے صرف ہوئے۔
پارلیمان کے محاصرے کے دوران کئی سادہ لوح افراد نے یہ اُمید باندھی کہ ٹرمپ ہنگامی بنیادوں پر قوم سے خطاب کرے گا۔ اس خطاب کے ذریعے بہت شدت سے اپنے حامیوں کو قانون کے احترام کومائل کر ے گا۔ وہ مگر سازشی خاموشی کے ساتھ تماشائی بنارہا۔ نیشنل گارڈز نے صورت حال پر قابو پالیا تو فقط ایک وڈیو پیغام کے ذریعے اقرار کیا کہ اسے20جنوری 2021کے روز امریکی صدارت جوبائیڈن کے حوالے کرنا ہوگی۔ نئے صدر کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کیلئے وہ مگر اب بھی تیار نہیں۔ عندیہ دے رہا ہے کہ اس روز وہ سکاٹ لینڈ چلاجائے گا جہاں اس نے ایک وسیع وعریض گالف کلب قائم کر رکھی ہے۔ واشنگٹن میں ہوئے مظاہروں کا کلیدی سبب ٹرمپ کے پیغامات ٹھہرائے جارہے ہیں جو نومبر2020کے بعد سے وہ مسلسل فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے اپنے حامیوں تک پہنچاتا رہا۔ خدشہ تھا کہ وہ ان دونوں پلیٹ فارموں کو اشتعال انگیز پیغامات پھیلانے کیلئے استعمال کرتا رہا تو 20جنوری کے دن فقط واشنگٹن ہی نہیں امریکہ کے تمام بڑے شہروں میں بھی اس کے حامی"خانہ جنگی"جیسے مناظردکھانا شروع ہوجائیں گے۔ اس امکان کے تدارک کیلئے تجویز یہ پیش ہوئی کہ امریکی آئین کے آرٹیکل25کو بروئے کار لاتے ہوئے "غیر ذمہ دار صدر"کوبرطرف کردیا جائے۔
نائب صدر پنس 20جنوری تک قائمقام صدرکے طورپر کام کرے۔ مذکورہ تجویز کو مناسب پذیرائی میسرنہیں ہوئی۔ امریکہ کے ایوان زیریں کی سپیکر اب یہ چا ہ رہی ہے کہ ٹرمپ کا واشنگٹن میں مظاہرے بھڑکانے کے الزام میں مواخذہ ہو۔ مواخذے کی تحریک مگر اپنے منطقی انجام تک پہنچنے میں بہت دیر لگاتی ہے۔ ڈیمو کریٹ پارٹی کے پاس ویسے بھی امریکی ایوان ِبالا میں دوتہائی اکثریت موجود نہیں جو کسی صدر کے مواخذے کے لئے درکار ہوتی ہے۔ یوں گماں ہورہاہے کہ ٹرمپ کے خلاف کسی قانونی کارروائی کے بغیر ہی 20جنوری2021کا انتظار کیاجائے گا۔"عوامی نمائندوں اور "مختلف اداروں "کی ٹرمپ کے حوالے سے نمایاں ہوئی "بے بسی"کے برعکس Jack Dorseyاور Mark Zuckerberg امریکی صدر سے کہیں زیادہ با اختیار اور طاقت ور ثابت ہوئے۔ اول الذکر فیس بک چلانے والی کمپنی کا مالک ہے۔ Jack Dorseyٹویٹر کا مالک ہے۔ ان دونوں نے ٹرمپ کو جسے ان دِنوں بھی کسی ملک کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا اختیار میسر ہے اپنے پلیٹ فارموں پر Banکردیا ہے۔ ان کے فیصلے نے جمہوری اور مہذب روایات کے بارے میں فکر مند افراد کو یقینا خوش گوار اطمینان فراہم کیا ہے۔ ذہن سازی کے علاوہ اقتدار واختیار کے معاملات کو گہری تحقیق کے ذریعے جاننے کی کوششوں میں مصروف افراد مگر طویل المیعاد تناظر میں نہایت اہم اور سنجیدہ سوالات اٹھانا شروع ہوگئے ہیں۔
یہ حقیقت تو عرصہ ہوا ثابت ہوچکی ہے کہ فیس بک اور ٹویٹر روایتی میڈیا کے مقابلے میں ذہن سازی کے حوالے سے کہیں زیادہ مؤثر ترین ہیں۔"آزادیٔ اظہار" کی جبلی خواہش کو کاروباری مہارت سے استعمال کرتے ہوئے ان دونوں نے "عام آدمی" کو اپنے خیالات لوگوں تک پہنچانے کی حیران کن سہولت فراہم کی۔ ابتدائی ایام میں اس سہولت کا پُرجوش خیر مقدم ہوا۔ عوام کی بے پناہ اکثریت روایتی میڈیا سے تنگ آچکی تھی۔ ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ بڑے دھندوں کے اجارہ دار سیٹھوں نے عوام کو اخبارات اور ٹیلی وژن نیٹ ورک کے ذریعے "خبر" پہنچانے والے اداروں کو بھی خرید لیا ہے۔"اصل خبر" ان کے ذریعے لوگوں کے روبرو آہی نہیں سکتی۔"سچ" کی تلاش کے لئے سیٹھوں کے تنخواہ دار صحافیوں کے بجائے Citizen Journalismسے رجوع کرنا ہوگا۔ چند برس کی وقتی خوشی کے بعد مگر بتدریج دریافت ہونا شروع ہوا کہ فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے خلقِ خدا کے حقیقی مسائل اجاگر نہیں ہورہے۔ یہ دونوں پلیٹ فارم بلکہ بے تحاشہ کائیاں مگر جنونی افراد "سازشی کہانیاں " پھیلانے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ انسانوں کے دلوں میں جبلی طورپر موجود تعصبات کو بھڑکاتے ہوئے یہ دونوں پلیٹ فارم ایسے "جنونی گروہ" تیار کررہے ہیں جو اپنے مخالفین کو سانس لینے کی مہلت دینے کو بھی تیار نہیں۔ فیس بک اور ٹویٹر معاشرے میں "انتہا پسندی" کی جو نئی شکل متعارف کروارہے تھے اس نے بالآخر دُنیا کی کئی حکومتوں کو مجبور کیا کہ وہ مؤثر قانون سازی کے ذریعے ان دونوں پلیٹ فارموں کو Regulateکرے۔ ابھی تک کامل بندش کے علاوہ کوئی ایسا طریقہ دریافت نہیں ہوا جو مطلوبہ نتائج کے حصول یقینی بناسکے۔
ٹرمپ کے ان دو پلیٹ فارموں پر Banہوجانے کے بعد بلکہ گماں ہورہا ہے کہ فیس بک اور ٹویٹر کئی اعتبار سے طاقت ور "عالمی اداروں " کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ لوگوں کی "ذہن سازی" کے عمل پر ان کا مکمل اجارہ ہے۔ اس تناظر میں غور کریں تو فیس بک Mark Zuckerbergاور ٹویٹر کا Jack Dorseyدُنیا کے طاقت ورترین افراد کی حیثیت میں اجاگر ہوتے ہیں۔ یہ دونوں افراد امریکہ سمیت دُنیابھر کے کسی بھی منتخب یا غیر منتخب ادارے کے روبرو جوابدہ نہیں۔ یہ طے کرنا فقط ان کا "حق" ہے کہ ان کے چلائے پلیٹ فارموں کو کون شخص کیسے پیغامات پھیلانے کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ وہ چاہیں تو دنیا کی واحد سپرطاقت شمار ہوتے امریکہ کے صدر کو بھی جو محض ایک بٹن دبا کر ایٹمی ہتھیاروں کی بدولت لاکھوں انسانوں کی جان لے سکتا ہے اپنے پلیٹ فارم استعمال کرنے سے روک سکتے ہیں۔
ذہن سازی کے حوالے سے ایسی قوت واختیار آج تک دُنیا کے کسی بڑے سے بڑے اخباری ادارے یا ٹیلی وژن نیٹ ورک کو نصیب نہیں ہوئے تھے۔ معاملہ مگر اب "ذہن سازی" تک محدود ہوا ہی نظر نہیں آرہا۔ یوں گماں ہوتا ہے کہ دُنیا بھرکی فیصلہ سازی کا اختیار دو "عالمی" حکومتوں کے پاس چلا گیا ہے۔ Mark Zuckerbergاور Jack Dorseyاس تناظر میں دورِ حاضر کے "عالم گیر" شہنشاہ ثابت ہورہے ہیں۔