سینٹ کی مارچ 2021میں خالی ہونے والی 48نشستوں پر انتخاب کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ انتخاب کا "عمل"لکھتے ہوئے خیال آیا کہ وطنِ عزیز کی سیاست کو "صاف ستھرا" بنانے کی فکر میں گھلتے ہمارے "ذہن ساز" مذکورہ عمل کو حقارت سے "سیزن" پکارتے ہیں۔ ایمان داری کے دودھ سے دُھلے لکھاریوں اور اینکرپرسن کی دانست میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھا ہر رکن اس "سیزن" کے دوران اپنے ووٹ کی قیمت مانگتا ہے۔ مناسب رقم مل جائے تو اس کے آئندہ انتخاب کا "خرچہ" نکل آتا ہے۔
میری بدنصیبی مگر یہ ہے کہ 1985سے چند ہی برس قبل تک اقتدار اورسیاست کے کھیل کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ذاتی تجربے کی بنیاد پر میرے لئے ہر سیاست دان کو بلااستثناء "بکائو" قرار دینا ممکن نہیں۔ روایتی اور موروثی سیاست دانوں کے خلاف انٹرنیٹ کے ذریعے "جہاد" کرنے والوں نے ویسے بھی مجھ جیسے صحافیوں کو "لفافہ" ٹھہرارکھا ہے۔ میں کسی دوسرے کو کس منہ سے بدعنوان پکاروں۔ اب 2018کے دوران سینٹ کے لئے ہوئے انتخاب کی بابت ایک وڈیو بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ یہ وڈیو اگرچہ پانچ میں سے صرف ایک ایوان کے چند اراکین کو نوٹوں کی گڈیاں وصول کرتے دکھاتی ہے۔ دیگ کا لیکن ایک ہی دانہ چکھا جاتا ہے۔ وہ دانہ چھک لیا گیا۔ ثابت ہوگیا کہ سینٹ کے ا نتخاب کے دوران ووٹ بکتے ہیں۔ تین وفاقی وزراء پر مشتمل ایک کمیٹی کو اس ویڈیو میں ہوئی خریدوفروخت کی تحقیقات کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی ہے۔ میرا نکما ذہن اگرچہ اب تک سمجھ نہیں پایا کہ نیب جیسے "آزاد ومختار" ادارے کے ہوتے ہوئے مذکورہ کمیٹی کے قیام کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ ایسے سوال ہم میڈیا والے اٹھانے کے مگر عادی نہیں رہے۔ تماشہ لگاتے ہیں۔ چسکہ فروشی میرے دھندے کا بنیادی وصف بن چکا ہے۔
یہ کالم لکھنے کے لئے قلم اٹھایا تو چسکہ فروشی کی ضرورت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ایک بہت پرانا واقعہ یاد آگیا۔ آٹھ سال تک پاکستان کے کامل بااختیار حکمران رہنے کے بعد جنرل ضیاء الحق کو 1985میں خیال آیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے الزام میں پھانسی پر چڑھانے اور سینکڑوں سیاسی کارکنوں کو قید خانوں میں ڈال کر ملکی سیاست کو سیدھی راہ پر چلادیا گیا ہے۔ بلدیاتی نظام کی بدولت صاف ستھرے سیاستدانوں کی ایک نئی کھیپ بھی تیار ہوچکی ہے۔ اب ملک کو "جمہوری" بھی بنادیا جائے۔"اسلامی" تو ان کی قیادت میں بن ہی چکا تھا۔"جمہوری" نظام کا ڈھونگ رچانے کے لئے غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخاب ہوئے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیاں بحال ہوگئیں تو ردی کی ٹوکری میں پھینکے 1973کے آئین کو نکال کر دیکھا تو خیال یہ بھی آیا کہ مذکورہ دستاویز سینٹ نامی ایک ادارے کا بھی تقاضہ کرتی ہے۔ اس کے لئے بھی انتخاب کا بندوبست کرلیا گیا۔
اسلام آباد کو ان دنوں سینٹ میں دونشستیں دی جاتی تھیں۔ ان کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی وصول کرتے ہوئے "پہلے آئو-پہلے پائو"یعنی First Come First Serveکا اصول اپنایا گیا۔ یہ طے ہوچکا تھا کہ اسلام آباد سے ایک نشست صاحبزادہ یعقوب علی خان کو ہر صورت دی جائے گی۔ ایک نوابی خاندان سے تعلق رکھنے والے یہ جنرل صاحب اساطیری شخصیت تصور ہوتے تھے۔ کئی زبانیں اہل زبان کی طرح بولتے تھے۔ افغان جہاد کے دوران واشنگٹن سے رابطوں کے لئے جمہوریت کی "بحالی" کی وجہ سے وزیر اعظم نامزد ہوئے محمد خان جونیجو مرحوم کو بھی انہیں بطور وزیر خارجہ برقرار رکھنے کو مجبور کیا گیا۔ سینٹ کا رکن بن جانے کے بعد وہ ایک "منتخب حکومت" کے "نمائندہ" شمار ہوسکتے تھے۔"پہلے آئو-پہلے پائو" والا بندوبست ان کی سہولت کے لئے ایجاد ہوا۔ فجر کی نماز کے عادی مولانا کوثر نیازی بھی تاہم اس کی وجہ سے ایوان بالا تک پہنچ گئے۔
صاحبزادہ یعقوب علی خان صاحب کی طرح ہمارے ایک اور طرح دار نواب پرنس اورنگزیب بھی تھے۔ کسی زمانے کی ریاست سوات کے والی خاندان سے تعلق تھا۔ قیام پاکستان سے قبل فوجی تربیت کے حوالے سے مشہور "ڈیرہ دون اکادمی"کے طالب علم رہے تھے۔ جنرل ایوب نے اقتدار سنبھالا تو ان کے ADCہوگئے۔ بعدازاں وہ ان کے داماد بھی ہوئے۔
پرنس اورنگزیب اپنے حال میں مست آدمی تھے۔ سیاست کو محض ایک شغل کی صورت لیتے۔"عوام کے دُکھوں " پر ماتم کنائی کے ڈرامے لگانے کی انہیں عادت نہیں تھی۔ جبلی طورپر جانتے تھے کہ حکمران اشرافیہ کو ذلتوں کے مارے افراد کی مشکلات سے لاتعلق ہی رہنا ہوتا ہے۔ سفاکانہ لاتعلقی کو تاہم منہ پھٹ انداز میں بیان کردینے کے عادی تھے۔ کمال ان کا یہ بھی تھا کہ ان کا سخت ترین فقرہ بھی لطیفہ کی صورت بیان ہوا محسوس ہوتا۔ ان کی لگائی "جگت" یا Punch Lineاس کا نشانہ بنے شخص کو بھی قہقہہ لگاکر مسکرانے کو مجبور کردیتی۔
بہرحال جب صاحبزادہ یعقوب علی خان پاکستان کی "منتخب پارلیمان" کے ایوان بالا کے معزز رکن بن گئے تو اس کے دوسرے دن قومی اسمبلی کا اجلاس ہورہا تھا۔ پرنس اورنگزیب اپنے تئیں گویا پائیں باغ میں ٹہلتے ہوئے ایوان میں داخل ہوئے۔ اپنی نشست پر بیٹھنے کے بعد پوائنٹ آف آرڈر پر بولنے کی اجازت مانگ لی۔ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر- وزیر احمد جوگزئی-اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔ پرنس اورنگزیب کو مائیک فراہم کردیا۔
اپنی نشست پر کھڑے ہوتے ہی پرنس اورنگزیب نے نظر بظاہرنہایت سنجیدگی اور خلوص سے انتہائی موؤدبانہ انداز میں یہ تجویز پیش کی کہ قومی اسمبلی فوری طورپر ایک متفقہ قرار داد منظور کرے۔ اس کے ذریعے صاحبزادہ یعقوب علی خان کا شکریہ ادا کیا جائے کہ ا نہوں نے سینٹ کا رکن منتخب ہونے کے لئے قومی اسمبلی کے اراکین کے ووٹ "قبول" کرلئے ہیں۔ پرنس اورنگزیب کی تجویز نے پورے ایوان کو شسدر کردیا۔ تھوڑی دیر کی ڈرامائی خاموشی کے بعد مگر بے ساختہ قہقہے گونج اُٹھے۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ نوابی رکھ رکھائو کے عادی صاحبزادہ یعقوب علی خان صاحب بھی اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر تالی کی صورت مارتے ہوئے پرنس اورنگزیب کے اس فقرے کی داد دیتے نظر آئے۔
پرنس اورنگزیب کی یاد یہ سوچتے ہوئے آئی ہے کہ تحریک انصاف نے اسلام آباد سے اب کی بار ڈاکٹرحفیظ شیخ صاحب کو سینٹ میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شیخ صاحب اس سے قبل جنرل مشرف کے زمانے میں بھی سینٹ کے رکن رہے ہیں۔ صاحب زادہ یعقوب علی خان کی طرح وہ کسی نوابی خاندان سے تعلق نہیں رکھتے۔ جیکب آباد کے ایک وکیل کے فرزند ہیں۔ سیاسی اعتبارسے بالائی سندھ کے اس شہر پر سومرو اور کھوسہ خاندان کا اجارہ رہا ہے۔ متوسط طبقے کے نمائندہ ہوتے ہوئے حفیظ شیخ کے والد مرحوم نے ذوالفقار علی بھٹو کو ایوب حکومت سے الگ ہونے کے بعد اپنے شہر میں مدعو کیا اور پیپلز پارٹی کے رکن بن گئے۔ حفیظ شیخ صاحب کو مگر سیاست ایک مشکل کام محسوس ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ چلے گئے۔ علم معاشیات کی ڈگری نے انہیں "ٹینکوکریٹ"بنادیا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ان کی ذہانت کے معترف رہے۔ جنرل مشرف نے ملک سنوار نے کے لئے اکتوبر1999میں اقتدار سنبھالا تو سندھ کی معیشت کو درست سمت کی طرف چلانے کے لئے وہ پاکستان کو تحفے میں ملے۔ انہیں امید تھی کہ 2002کے انتخاب کے بعد جنرل مشرف ان کی ذہانت کو وفاقی سطح پر بروئے کار لائیں گے۔ جنرل مشرف کو مگر ایک اور "نابغے" یعنی شوکت عزیز صاحب کی صلاحیتوں پر زیا دہ اعتماد تھا۔ شیخ صاحب دلبرداشتہ ہوکر کونے میں بیٹھ کر دہی کھانا شروع ہوگئے۔
2008کے انتخاب کے بعد آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کو شیخ صاحب کی ضرورت محسوس ہوئی۔ بات مگر بنی نہیں۔ نوید قمر دوبارہ وزیر خزانہ بنادئیے گئے۔ اسد عمر کے ہاتھوں معیشت کی بحالی میں ناکام ہوجانے کے بعد عمران حکومت کو بالآخر 2019میں حفیظ شیح صاحب کی ضرورت محسوس ہوئی۔ وہ بطور مشیر خزانہ ورلڈ بینک اور IMFکی بھرپور معاونت سے ان دنوں پاکستان کو خوش حالی کی راہ پر دھکیلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے یقینا کوئی معجزے برپا کئے ہوں گے جن کی وجہ سے عمران حکومت انہیں اسلام آباد سے سینٹ کا رکن منتخب کروانے کو مجبور ہوئی ہے۔ PDMنے ان کے مقابلے کے لئے یوسف رضا گیلانی کو میدان میں اتارا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں ہماری معیشت "سنوارنے"کے بعد حفیظ شیخ صاحب ان دنوں عمران خان صاحب کے لئے بھی ویسے ہی "معجزے" برپا کررہے ہوں گے۔ اگر وہ سینٹ کے رکن منتخب ہوگئے تو موجودہ قومی اسمبلی کو بھی ایک قرارداد کے ذریعے شیخ صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے قومی اسمبلی کے ووٹ "قبول"کرلئے۔