اتنی معاشیات تو ایک مزدور بھی جانتا ہے کہ اگر اس کی ماہانہ آمدنی پندرہ ہزار روپے ہے تو وہ اپنے گھر کی ضروریات اس آمدن تک محدود کر دے گا، اپنا بجٹ انتہائی کفایت شعاری اور محنت سے بنائے گا۔ اس کی اس کفایت شعاری اور آمدن تک خود کو باندھ کر رکھنے کی تگ و دو میں اس کی بیوی اور بچے برابر کے شریک ہوں گے۔
اگر کبھی فوری ضرورت آن پڑے، کسی شادی، بیماری یا تعلیم کے لئے بجٹ سے زیادہ سرمایہ کی ضرورت ہو تو خاندان کا سربراہ انتہائی سوچ بچار کے بعد اتنا ہی قرض لیتا ہے جتنا وہ زیادہ محنت کر کے یا پھر اس کی بیوی اور بچے مل جل کر کوئی اور کام کر کے اتار سکیں۔ اسی طرح کوئی شخص جو فیکٹری لگانے جاتا ہے۔
دکان کھولنے یا کاروبار کرنے نکلتا ہے، تو وہ پہلے اپنے پاس موجود وسائل کو دیکھتا ہے، سرمایہ، بینک بیلنس، قابل فروخت گھر یا پلاٹ، ان سب کا جائزہ لینے کے بعد اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس جو سرمایہ ہے اس سے ایک مناسب سے کاروبار کا آغاز ہو سکتا ہے تو وہ قرض کی جانب قدم نہیں اٹھاتا کہ مبادا نقصان کی صورت اس کے لئے ادائیگی نہ مشکل ہو جائے۔ جو ذرا بڑا کاروبار کرنے نکلتے ہیں وہ بھی قرض لیتے ہوئے پہلے مارکیٹ کا جائزہ لیتے ہیں، مال کی کھپت کا اندازہ لگاتے ہیں، پھر اس کے بعد قیمتوں کا تعین کرتے ہیں۔
تنخواہوں کا حساب لگاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قرضہ لینے کے بعد اگر وہ فیکٹری لگاتے ہیں، کاروبار شروع کرتے ہیں تو پھر قرضے کی قسط اور سود کی ادائیگی کے بعد بھی انہیں ضرور منافع ہو گا۔ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد ہی وہ کسی بنک کے سامنے قرضے کی درخواست رکھتے ہیں اور اپنی جائیداد وغیرہ گروی رکھ کر قرض لیتے ہیں۔ لیکن ظلم کی بات یہ ہے کہ جدید سود خور عالمی معیشت نے قوموں کو گزشتہ پچاس برسوں سے ایک ایسے قرضے میں الجھایا ہے، جسے لینے کی ان قوموں کو قطعاً ضرورت نہیں تھی۔
پاکستان کے وزرائے خزانہ جو ہمیشہ عام کابینہ میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا اور معاشیات کے کسی نہ کسی شعبے کا ماہر ضرور ہوتا ہے۔ کیا ان وزرائے خزانہ کو علم نہیں تھا کہ وسائل سے زیادہ کا بجٹ تو مزدور بھی نہیں بناتا، اگر قرض واپس کرنے کا یقین نہ ہو تو فیکٹری والا قرض لے کر فیکٹری نہیں لگاتا۔ انہیں یقینا علم تھا۔ لیکن ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے تنخواہ دار شعیب سے لے کر مبشر حسن، غلام اسحاق خان، وی اے جعفری، سرتاج عزیز، شوکت عزیز، اسحق ڈار اور موجودہ معاشی بزرجمہر جناب اسد عمر تک سب کے سب وہ ہیں جو 1960ء کی دہائی میں ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی سرپرستی میں دنیا بھر کے غریب اور ترقی پذیر ممالک کو قرضوں کی دلدل میں جکڑنے والے نظام کے اسیر ہیں۔
آدم سمتھ اورکینز کی معاشیات کی چھتری میں یہ تمام لوگ اس سودی عالمی مالیاتی نظام سے باہر نکل کر سوچ ہی نہیں سکتے۔ ان قرضوں کا آغاز 1960ء کی دہائی میں اس لئے کیا گیا تھا تاکہ غریب ممالک کو وسائل سے زیادہ خرچ کرنے کی عادت ڈالی جائے اور ان کے عوام میں ایسی خواہش پیدا کی جائے کہ وہ ہر آنے والے حکمران سے نئے نئے مطالبات کریں اور وہ ان مطالبات کو پورا کرنے اور عوام کو نئے نئے کھلونے لا کر دینے کے لئے قرض لے۔ ایسا قرض جسے بعد میں عوام کو ادا کرنا پڑے۔
سب سے پہلے یہ قرضے ان ملکوں کو دیے گئے جہاں ان بڑی طاقتوں کے بٹھائے گئے حکمران ملک پر قابض تھے۔ جسے کانگو کامبوتو، انڈونیشیا کا سوہارتو یا پھر برازیل کے سارے ڈکٹیٹرز۔ یہ قرضے یوگوسلاویہ اور میکسیکو جیسے ملکوں کو بھی دیے گئے، جہاں کٹر قسم کی قوم پرست حکومتیں قائم تھیں۔ ان قرضوں کا مقصد یہ تھا کہ یہاں کے حکمران عالمی مالیاتی نظام کے مفاد میں اپنی پالیسیاں بنائیں اور شدید قسم کے قومی جذبے کو پس پشت ڈال دیں۔ اس طرح وہ قرضوں کے اس عالمی گھن چکر میں آ کر اپنی مخصوص قوم پرستانہ پالیسیوں کو ترک کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس سارے مالیاتی نظام کا ایک مرکز ہے، ویسے ہی جیسے ہر شہر کا ایک مرکز یا دل ہوتا ہے۔ اس مرکز کے اردگرد کی آبادیوں کو مضافات کہتے ہیں۔
جدید سودی مالیاتی نظام کا مرکز اور دل شمال میں آباد جدید ترقی یافتہ ممالک ہیں جن میں امریکہ اور یورپ کے امیر ملک شامل ہیں۔ جبکہ اس مرکز کے اردگرد مضافات میں افریقہ، ایشیا، جنوبی امریکہ اور مشرق بعید کے ممالک شامل ہیں۔ جس طرح کسی بڑے شہر کے مضافات میں رہنے والوں کا کام مرکز شہر کے لئے سبزیاں، پھل اور اناج اگانا، وہاں کے لئے مزدور مہیا کرنا۔
ان کی فیکٹریوں کے لئے خام مال فراہم کرنا ہوتا ہے، اسی طرح عالمی مالیاتی نظام بھی ایک بڑے شہر کی طرح ہے جس کا مرکز طاقتور، مضبوط اور امیر ہے اور وہ اپنی بقا کے لئے مضافات میں بسنے والوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے خام مال مہیا کرتے رہیں، وہاں سے مزدوروں کی کھیپ میسر آتی رہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تمام ممالک اپنی بنائی ہوئی اشیاء کی بجائے درآمدات پر بھروسہ کریں اور بحیثیت مضافات بڑے شہر کا مال خریدیں۔
جس طرح کسان کپاس اگا کر شہر بھیجتا ہے۔ اپنا تن ڈھانپنے کے لئے اسی شہر میں سے کپڑا خریدتا ہے۔ اس سارے استحصال کو قائم رکھنے کے لئے سب سے پہلے غریب ممالک کو قرض لے کر ایسے منصوبے بنانے کی عادت ڈالی گئی جو ان کی فوری ضرورت نہیں تھے، مگر اپنی چکا چوند کی وجہ سے مقبول ہو سکتے تھے۔ یوں اپنی آمدن سے زیادہ بلکہ بہت ہی زیادہ خرچ کرنے کی عادت ڈالی گئی۔ جیسے موٹر وے، بڑے بڑے خوبصورت ایئر پورٹ، عظیم الشان عمارتیں، کنونشن سینٹر، نئے ماڈل کی اعلیٰ قسم کی گاڑیاں، جدید سہولیات سے آراستہ دفاتر۔
غرض ایک طویل فہرست ہے ان اخراجات کی جو یہ وزرائے خزانہ قرض لے کر مسلسل کرتے ہیں اور قومیں مقروض ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہ گھن چکر اس لئے شروع کیا گیا کہ دوسری جنگ عظیم تک یہ تمام عالمی مضافاتی غریب ممالک یورپ کی بڑی طاقتوں کے غلام تھے۔ لیکن 1940ء سے 1960ء تک یکے بعد دیگرے یہ ملک آزاد ہونا شروع ہو گئے۔ چین اور کیوبا میں سوشلسٹ انقلاب آ گیا اور آزاد ہونے والے ممالک میں امریکہ اور یورپی ممالک کے خلاف جذبات رکھنے والے حکمران بننے لگے۔
ارجنٹائن کا پیرون ازم(peronism)نہرو کی بدیشی مال کے بائیکاٹ کی پالیسی اور مصر کے جمال عبدالناصر کے عرب نیشنلزم نے خطے کے اردگرد کے ممالک کو ان عالمی طاقتوں سے علیحدہ کر دیا، نہ صرف علیحدہ کیا بلکہ شدید مخالف بھی بنا دیا۔ ایسے میں ان غریب ممالک میں پہلے اپنے کاسہ لیس حکمرانوں کو مسلط کروایا گیا، پھر اپنے تیار کردہ وزرائے خزانہ وہاں بھیجے گئے، جنہوں نے ان مضافاتی غریب ممالک کو ان قرضوں کی دلدل میں جکڑ دیا۔ جو قرضے اگر وہ نہ بھی لیتے تو زندگی کی گاڑی بخوبی چلتی رہتی اور ملک بھی عزت، غیرت، حمیت اور وقار کے ساتھ قائم رہتا۔ لیکن سب کا سودا ہی تو کرنا تھا۔ (جاری)