Wednesday, 27 November 2024
  1. Home/
  2. Orya Maqbool Jan/
  3. Afsana Saaz Secular Liberal Danishwar

Afsana Saaz Secular Liberal Danishwar

پاکستان کی نظریاتی اساس سے بغض و عناد رکھنے والے سیکولر لبرل طبقے کا بس نہیں چلتا کہ اس ملک کے ہر کونے کھدرے میں کھدائی کر کے ہندوؤں کا کوئی مندر برآمد کیا جائے، اسکی ایک جھوٹی سچی تاریخ گھڑی جائے، اسے کسی بڑے دیوتا کے نام سے منسوب کیا جائے اور پھر اس پر بھارت سے یاتریوں کو بلا کر پوجا کا اہتمام کروایا جائے۔

اسطرح پاکستان کو ایک سیکولر، لبرل اور روشن خیال ملک کے طور پر پیش کیا جائے۔ ان تمام احباب نے ایک اصطلاح پر تخلیق کر رکھی ہے "قائد اعظم کا پاکستان"۔ انکے نزدیک قائد اعظم کے پاکستان اور موہن داس کرم چند گاندھی کے بھارت میں صرف نام اور لکیر کا فرق ہے۔ باقی سب کچھ ایک جیسا ہی ہے، ایک مشترکہ ورثہ ہے۔

اسکی مثال ایسے ہی ہے کہ آج سعودی عرب میں کوئی سیکولر جمہوری اور لبرل حکومت قائم ہوجائے اور وہ یہ اعلان کرے کہ اصل میں حجاز کی تاریخ بہت قدیم ہے اور ہم اپنے ماضی سے جدا نہیں ہو سکتے اس لیے خانہ کعبہ میں ایک دفعہ پھر تین سو پینسٹھ بت رکھ دیئے جائیں اور دنیا بھر سے لات اور ہبل کو ماننے والوں کو یاترا اور پوجا کے نام پر بلایا جائے۔

ہمارے جدید متجددین مذہبی رہنما جنکا ٹیلی ویژن پر قبضہ ہے، وہ اس حرکت پریہ دلیل پیش کریں کہ رسول اکرم ﷺ جب چھ ہجری کو صلح حدیبیہ کے وقت حج کرنے آئے تھے تو اسوقت ہبل، اساف، عزیٰ اور نائلہ کے بت تو کعبے میں رکھے ہوئے تھے۔ اگر کفار مکہ اجازت دے دیتے تو مسلمان بتوں کی موجودگی میں ہی عمرہ ادا کرتے اور پھر جب اگلے سال مسلمان عمرۃ القضاء کے لیے رسول اکرم ﷺکی قیادت میں مکہ تشریف لائے تھے تو وہ جس کعبہ میں تکبیر کی صدائیں بلند کر رہے تھے اور طواف کر رہے تھے۔

میرے ملک کا روشن خیال لبرل دانشور جب کسی مذہبی مقام کی گفتگو کرتا ہے تو اس کی سوئی صرف ہندوؤں کے مقدس مقامات پر آکر اٹک جاتی ہے۔ کسی کو پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے بدھ مذہب کے آثار کبھی یاد نہیں آتے اور نہ ہی یہ انکو زندہ کرکے، انہیں عبادت کے لئے کھولنے پر زور دیا جاتا ہے، حالانکہ قدیم ترین اجنتا اور ایلورا کی غاریں بدھ مذہب کی عبادت گاہیں تھیں جن میں ہندوؤں نے مورتیاں رکھ کر اپنا بنا لیا تھا۔ وجہ صرف ایک ہے کہ اسلام اور مسلمان دشمنی جس گھر میں پلتی ہے اس گھر سے ان دانشوروں کو محبت ہے اور وہ بھارتی متعصب ہندوؤں کا گھر ہے۔

آزاد کشمیر میں صدیوں سے آثار قدیمہ کی طرح زمین میں دفن شاردا پیٹھ مندر کو کھولنے، یاترا اور پوجا شروع کرنے کے مطالبے کے پیچھے جو مقاصد ہیں وہ برادرم افتخار گیلانی نے کھل کر بیان کر دیے ہیں۔ مقصد صرف ایک ہے کہ تاریخ، تہذیب اور کلچر کے نام پر مسلمانوں کو ہندوؤں کی ایک اکائی ثابت کیا جائے۔ اس سلسلے میں ان جدید مورخین نے دیو مالائی قصے گھڑے ہوئے ہیں اور انکو اپنے کالموں میں بلا تکان اور بغیر کسی تاریخی حوالے کے درج کرتے رہتے ہیں۔

یہ سب کچھ دراصل انگریز کے زمانے میں شروع ہوا اور انگریز ڈپٹی کمشنروں نے جو گزیٹیر تحریر کیے ان میں یہ تمام جھوٹے واقعات تاریخی حقیقت بنا کر شامل کر دیے اورانکے اس جھوٹ کو یہ دانشور تاریخی حقیقت بنا کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک افسانہ اور جھوٹ لاہور شہر کے بارے میں بولا جاتا ہے کہ یہ دراصل رام چندر کے بیٹے" لوہو" نے آباد کیا تھا، اسی طرح دوسرے بھائی "کسو" نے قصور آباد کیا تھا۔

صرف سو سال سے پہلے لکھی جانیوالی کتابوں"تحقیقات چشتی" اور کنہیا لال کی "تاریخِ لاہور" میں گھڑے گئے اس جھوٹ کو لیکر یہ خود ساختہ مؤرخین اور عبدالمجید شیخ جیسے انگریزی کالم نگار لاہور کو ہندو تہذیب کا بہت بڑا مرکز ثابت کرتے ہیں۔ جب میں والڈ سٹی لاہور کا ڈائریکٹر جنرل تھا تو اس زمانے میں اس ادارے نے ایک ضخیم کتاب شائع کی، جسکا دیباچہ تحریر کرتے ہوئے میں نے ایک چیلنج کیا تھا کہ "لاہور ایک پیدائشی طور پر مسلمان شہر ہے، جو محمود غزنوی کے بعد عالمی منظر نامے پرایک شہر کے طور پر چمکا۔ اس سے پہلے یہ چند چھوٹی چھوٹی بستیوں پر مشتمل علاقہ تھا۔

سیدنا علی ہجویریؒ نے انکے مکینوں کو مشرف بہ اسلام کیا تھا۔ تاریخی حقائق یہ ہیں کہ جب یونانی سکندر کی افواج راجہ پورس کو شکست دیتے ہوئے پنجاب سے گزریں تو یونانی مورخین کی تاریخ میں سیالکوٹ اور بھیرہ تو ملتے ہیں لاہور نامی شہر کا ذکر کہیں نہیں ہے۔

چین کا مشہور سیاح فاہین (Fa-Hien) چندر گپت دوئم کے زمانے میں 400 عیسوی میں ہندوستان آیا اور 411 عیسوی تک رہا، اس نے ٹیکسیلا، ماتھورا، کنوج، سراونتی اور سارناتھ کا ذکر کیا ہے لیکن اسے لاہور نظر نہیں آیا۔ خودسیدنا علی ہجویریؒ نے لکھا "لاہور یکے از مضافات ملتان است "لاہور ملتان کی ایک مضافات ہے۔

لاہور میں جتنی بھی آثار قدیمہ کی کھدائیاں ہوئی ہیں ان میں اس بڑے شہر اور تہذیبی مرکز کا سراغ محمود غزنوی کے گورنر ملک ایاز سے پہلے نہیں ملتا۔ اس سے پہلے کی تمام کہانیاں، قصے بالکل جھوٹ ہیں۔ ویسا ہی جھوٹ جیسا انگریزوں نے محمود غزنوی سے نفرت پیدا کرنے کے لیے گھڑا تھا کہ اس نے سومنات کا مندر تباہ کیا تھا۔ جبکہ رامیلا تھاپر (RomilaThaper) نے تحقیق کرکے حیران کردیا کہ سومنات میں شیو کے مندر کو کئی سو سال پہلے ہی جین مت کے پرستاروں نے تباہ و برباد کر کے وہاں مہاویر کا جھنڈا بھی لہرا دیا تھا اور جب محمود غزنوی نے سومنات کا علاقہ فتح کیا تو وہاں کوئی مندرسرے سے موجود ہی نہ تھا۔

پرویز مشرف ان تمام سیکولر لبرل دانشوروں کا روحانی باپ تھا۔ اس دور میں اس فلسفے کو فروغ دینے کے لیے کٹاس راج کے مندر پر کام شروع ہوا۔ شومئی قسمت سے ان دنوں میں ڈائریکٹر جنرل محکمہ آثار قدیمہ تھا۔ جب کھدائی کی گئی تو پتہ چلا کہ یہ مندر دراصل بدھ سٹوپا کو گرا کر تعمیر کیا گیا تھا اور مٹیریل بھی بدھوں کے اس عبادت خانے سے چوری کر کے لگایا گیا تھا۔ بی جے پی رہنما ایل کے ایڈوانی کو افتتاح کے لیے بلایا گیا۔

لاہور کے خود ساختہ مورخین اور سیکولر لبرل دانشوروں نے مدتوں سے ایک قصہ گھڑا ہوا ہے کہ لاہور فورٹ کے عالمگیری دروازے کے اندر ایک "لوہو" کا مندر ہے۔ اس چھوٹے سے چبوترے کو رنگ کروایا گیا تاکہ ایڈوانی سے اسکا افتتاح کروایا جائے۔ ایڈوانی نے تحقیق کے لیے آثار قدیمہ کی ٹیم بھارت سے یہاں روانہ کی، میں نے ٹیم کے سامنے تاریخی حقائق رکھے اور ساتھ یہ کہا کہ اگر آپ لاہور اور قصور کو رام چندر کے بیٹوں کے حوالے سے تسلیم کرلیں کہ یہ انہوں نے آباد کیے تھے تو پھر ایودھیا میں رام چندر کی جنم بھومی کو ثابت کرنے کے لئے کچھ اور کرنا ہوگا۔

چونکہ دونوں طرف قصے کہانیاں اور جھوٹ تھا اس لیے جب لاہور قلعہ کی سیر کو ایل کے ایڈوانی آیا تو ان تمام سیکولر لبرل روشن خیال احباب نے عالمگیری گیٹ سے نکلتے ہوئے اس کی توجہ "لوہو " کے اس مندر کی جانب کروائی توایڈوانی وہاں سے اس تیزی سے بھاگا کہ حضوری باغ میں جا کر دم لیا کہ کہیں اسکی اس مندر کے ساتھ تصویر نہ آ جائے۔ میں حضوری باغ میں اسکے ساتھ کھڑا عالمگیری دروازے کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا اور وہ تمام شکست خوردہ چہرے میرے ایک جانب تھے جبکہ دوسری جانب مزار اقبال تھا جس میں خوابیدہ اقبال کا مسکراتا چہرہ میرے سامنے تھا۔

داتا کی نگری کے سیدنا علی ہجویریؒ کے بارے میں انکی نظم یاد آرہی تھیخاک پنجاب ازدم او زندہ گشتصبح ما از مہر او تابندہ گشت"آپ کے قدم اس پنجاب کی سرزمین پر پڑے تو وہ زندہ ہوگئی اور اسکی صبح کا سورج روشن ہوا"۔ تاریخ کا پہیہ الٹا گھمانے والوں کو اندازہ نہیں کہ پاکستان وہ کعبہ ہے جسکی تخلیق نے انکے خوابوں میں بسے تمام بت اٹھا کر باہر پھینک دیے تھے۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran