اس بات کا ادراک مجھے آج سے پینتیس سال قبل سول سروسز اکیڈمی کی دو سالہ ٹریننگ کے دوران ہی ہوگیا تھا کہ پاکستان کے زوال، پستی، خرابی، غربت، کرپشن اور دیگر مسائل کی وجہ جہاں لاکھوں بیوروکریٹوں کا ٹولہ ہے، وہیں اس مرض کو بھی صرف اور صرف چند اہل اور جذبے سے سرشار بیوروکریٹ ہی ٹھیک کر سکتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انتظامی مشینری کی پیچیدگی سے یہی لوگ واقف ہوتے ہیں اور اس مشینری کو مزید پیچیدہ تر بنانے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ انہیں ہی علم ہوتا ہے کہ عوام کے وسائل اور حکومتی سرمائے کو کہاں بے دردی سے خرچ کیا جا رہا ہے اور اسے کس طرح عوام کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کیا جاسکتا ہے۔
یہ کرپشن کرنے اور اسے کاغذات کی بھول بھلیوں میں چھپانے کے ہزاروں گر جانتے ہیں اور انہیں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ کیسے کرپشن کو پکڑا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ان کو اگر کرپشن سے حاصل ہونے والی رقم کا اندازہ نہ ہو تو ان کا ماتحت عملہ لاکھوں کما کر انہیں صرف ہزاروں کا حصہ ہی پہنچائے۔ اسی لئے یہی لوگ ہیں جو اگر چاہیں تو ان "وائٹ کالر" جرائم کو طشت ازبام بھی کر سکتے ہیں اور تھوڑی سی کوشش سے انہیں روک بھی سکتے ہیں۔
اس ساری تبدیلی کے لیے پوری کی پوری بیوروکریسی کو پاک صاف کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ چند ایسے بیوروکریٹس کا گروہ ہی کافی ہوتا ہے جس نے انکے درمیان عمر گزاری ہو، ان کی اونچ نیچ، اندر باہر سے واقف ہوں۔ ایسے چند دیوانے بیوروکریٹ پورا نظام بدل کر رکھ سکتے ہیں اور ایسا دلّی کے تیسری بار منتخب ہونے والے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال نے کرکے دکھا دیا ہے۔
ہریانہ کے بھوانی ضلع کے اگروال خاندان میں 16 اگست 1968ء کو پیدا ہونے والے اروند نے کرگ پور کے انسٹی ٹیوٹ آف مکینیکل انجینئرنگ سے ڈگری حاصل کی اور ٹاٹا اسٹیل میں نوکر ہوگیا۔ 1992ء میں اس نے سول سروس کے امتحان کی تیاری کے لیے چھٹی لی اور تیاری کے ساتھ ساتھ کلکتہ میں مدر ٹریسا سے ملاقات کے بعد اس کے مشن میں کام بھی کرنے لگا۔ 1995ء میں سول سروس کے امتحان میں کامیابی کے بعد اس نے اسسٹنٹ کمشنر انکم ٹیکس کی حیثیت سے سول سروس کی نوکری اختیار کی۔ وہ شروع دن ہی سے اپنی نوکری کے خلاف ایک احتجاج کی علامت تھا۔
نوکری شروع کرنے کے چار سال بعد اس نے دسمبر 1999ء کو ایک اینکر اور پروڈیوسر منیش سوڈیا کے ساتھ ملکر "پری ورتن" نام کی ایک تحریک کا آغاز کیا۔ "پری ورتن" کا اردو ترجمہ "کایا پلٹ" یا "تبدیلی صورت" ہے۔ اس نے نوکری سے رخصت لی اور "پری ورتن" کے کام میں تندہی سے لگ گیا۔ اس نے عدالت میں مقدمہ درج کروایا کہ بیوروکریسی کے شعبوں میں ہونیوالی ہر کارروائی عوام کو دیکھنے کا مکمل حق ہونا چاہیے۔ اس مقدمے کے ساتھ اس نے چیف کمشنر کے دفتر کے سامنے دھرنا بھی دیا۔ عدالتی فیصلے اور عوامی دباؤ کے بعد 2001ء میں دلی حکومت نے اپنے صوبے کی حد تک معلومات تک رسائی "Right to information" کا ایکٹ پاس کیا، جس کے تحت ایک عام آدمی سرکاری ریکارڈ دیکھ سکتا تھا۔
14 دسمبر 2002ء کو اس نے ایک بہت بڑی عوامی عدالت لگائی، جس میں ان تمام سرکاری ملازمین اور سیاستدانوں کے خلاف عام شہریوں نے ثبوتوں کے ساتھ فرد جرم عائد کی اور انہیں خرابی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ 2003ء میں"پری ورتن" نے سستے راشن ڈپوؤں اور سرکاری آفیسرز کی ملی بھگت کا پردہ چاک کیا کہ کیسے یہ دونوں مل کر سبسڈی ہڑپ کرتے ہیں۔ کیجریوال جانتا تھا کہ ورلڈ بینک کی ٹیم کیسے پانی کو کارپوریٹ سیکٹر میں رہنے کیلئے دباؤ ڈال رہی ہے۔ اس نے اس پراجیکٹ کے خلاف ثبوتوں کے ساتھ تحریک چلائی اور بتایا کہ ایسا کرنے سے پینے کا پانی مہنگا ہو جائے گا اور عام آدمی کو میسر نہ ہوگا۔
حکومت نے پراجیکٹ واپس لے لیا۔ ایسے لاتعداد مقدمے وہ عدالت میں لے کر گیا اور انکے لئے عوامی ریلیاں بھی نکالیں۔ اس نے تقریبا ہر مقدمے میں کامیابی حاصل کی۔ اسے شروع سے اندازہ تھا کہ جب تک کرپشن کے ناسور کا خاتمہ نہیں ہوتا ترقی کا خواب ادھورا رہے گا۔ اسی لیے اس نے 2005ء میں انا ہزارے کے ساتھ مل کر دلی کا سب سے بڑا دھرنا دیا، جو کرپشن کے خلاف تھا۔ فروری 2006ء میں اس نے خود کو بیوروکریسی کی غلامی سے آزاد کرلیا۔ اسی سال اسے فلپائن کے صدر"رامون مگاساسے (Ramon Magsaysay) کے نام پر قائم ایوارڈ دیا گیا۔ اس ایوارڈ کو ایشیا کا نوبل انعام کہا جاتا ہے۔ نوکری سے استعفے کے بعد اس نے منیش سوڈیا اور کرن بیدی کے ساتھ مل کر عوامی مفاد کا ایک تحقیقی ادارہ "Public cause research foundation" قائم کیا اور اپنے ایوارڈ کی ساری رقم اس فاونڈیشن کو دے دی۔
کرن بیدی بھارت کی پہلی خاتون تھی جو سول سروس کے امتحان کے بعد 1975 میں پولیس سروس میں آئی۔ وہ جب 1993 میں انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات لگی تو اس نے تہاڑ جیل میں ایسی ریفارمز کیں کہ وہ عالمی شہرت حاصل کر گئی اور اسے بھی رامون مگاساسے ایوارڈ ملا۔ کیجریوال کی فاؤنڈیشن نے دلی کی بڑی بڑی سکیموں کے عوامی آڈٹ شروع کیے اور تمام سکیموں کی ثبوتوں کے ساتھ کرپشن منظر عام پر لائے۔ اس کے ساتھ ساتھ 2011 میں اناہزارے، اروند کیجریوال اور کرن بیدی نے مل کر ایک گروپ تشکیل دیا جس کا نام "کرپشن کے خلاف بھارت " (India Against Corruption)۔ اس نے لوک پال یعنی عوامی رائے شماری کا تصور شروع کیا اور لوگوں کی رائے سے یہ بتانا شروع کیا کہ عام لوگ عوامی نمائندوں سے کیا چاہتے ہیں۔ جمہوریت کے غرور سے بھرے ہوئے ممبران اسمبلی نے یہ کہنا شروع کیا کہ یہ عام لوگ کون ہیں جو ہمیں سکھانے آئے ہیں۔ کیجریوال نے اس کا جواب دینے کے لیے "عام آدمی پارٹی" کے نام پر سیاسی پارٹی بنائی اور الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کردیا۔
2013ء کے انتخابات میں اسے دلی اسمبلی کی 70 نشستوں میں سے 28 نشستیں حاصل ہوئیں جبکہ بی جے پی کے پاس 31 نشستیں تھیں۔ اس نے دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی لیکن اسے احساس ہوگیا کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں کرپشن کے حق میں اس کے خلاف متحد ہو چکی ہیں اور وہ اسے قانون سازی نہیں کرنے دیں گی۔ اسی لئے صرف 49 دن بعد اس نے وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔ لیکن اگلے الیکشن 2015 میں ہوئے اور اس کی پارٹی 70 کے ایوان میں 67 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس جیت کے بعد پانچ سال صرف تبدیلی کے سال ہیں۔
ہر قدم ایک بدلتے ہوئے دن کی طرف رواں دواں ہے۔ ایک بیوروکریٹ کی حیثیت سے اسے علم تھا کہ سرکاری سرمایہ کہاں گلچھرے اڑانے کے لئے چھپایا جاتا ہے اور کہاں کرپشن اور بد دیانتی ہوتی ہے۔ اسے کوئی بیوروکریٹ دھوکہ نہیں دے سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے بغیر کوئی نیا ٹیکس لگائے تعلیم کا بجٹ 6 ہزار کروڑ سے 15 ہزار کروڑ کردیا۔ سرکاری سکولوں کی حالت ایسی بدلی کہ پرائیویٹ سکول ان کے سامنے شرمندہ ہونے لگے۔ موبائل ہسپتال قائم کیے جو ہر علاقے میں ابتدائی صحت کی سہولت فراہم کرتے تھے۔
عوام کو 200 یونٹ تک بجلی مفت کردی اور بیس ہزار لیٹر پانی فری کر دیا۔ محلہ کلینک قائم کیے جو ہر طرح کی تشخیص اور دوا مفت فراہم کرتے تھے۔ تمام عورتوں کو بسوں اور ٹرینوں میں مفت سفر کی سہولت فراہم کی۔ اس کے علاوہ ایک لمبی فہرست ہے ایسے کاموں کی جو اس نے اسی آمدن سے سر انجام دیئے گئے جس میں گذشتہ حکومتیں کارکردگی دکھانے میں ناکام رہیں۔ وہ بی جے پی کے تعصب اور کانگریس کی منافقت کے سامنے صرف کام کی بنیاد پرآج ایک بار پھر کامیاب ہوا۔ وہ بھارت جس میں اسوقت تعصب کا جھنڈا ہر سو لہرا رہا ہے کیجریوال ایک بار پھر 70 کے ایوان میں 63 سیٹیں لے کر جیت چکا ہے۔
اس اعتماد کی صرف ایک وجہ ہے کہ وہ اگر کرپشن کے خلاف نعرہ بلند کرتا ہے تو اسے سب علم ہوتا ہے کہ کرپشن کیسے، کب، کیوں اور کس طرح ہوتی ہے اور کون کرتا ہے۔ وہ رازداں ہے، اسے کوئی بیوروکریٹ دھوکہ نہیں دے سکتا۔ آج سے 36 سال پہلے سول سروسز اکیڈمی میں مجھے جو یقین ہوا تھا کہ اس برصغیر کی خرابی کی اصل وجہ جہاں بیورو کریٹس کی ایک نسل ہے تو وہیں اس خرابی کو درست کرنے والے بھی بیوروکریٹس ہی ہو سکتے ہیں۔ اروند کیجریوال نے میرے اس یقین کو سچ ثابت کر دیا۔