وہ ابھی فوج میں بریگیڈیئر کے عہدے پر ہی تھا کہ اس کے ملک میں عوام کے ووٹوں کی اکثریت سے ایک مقبول حکومت برسرِاقتدار آ گئی۔ امریکہ یہاں جمہوریت نہیں چاہتا تھا۔ اسی لیے سی آئی اے نے اپنے بدنامِ زمانہ پلان "ٹریک ٹو" پر عملدرآمد کا آغاز کر دیا۔ اس منصوبے کا مقصد اس کے ملک میں بننے والی مقبول جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنا تھا۔
اس دَور کے امریکہ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر نے اپنی نگرانی میں یہ پلان مرتب کیا تھا، رچرڈ نکسن امریکی صدر تھا اور ہنری کسنجر نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر، اس مقصد کے لیے دس ملین ڈالر کی منظوری دی گئی۔ اس خطیر سرمائے سے فوج میں سے چند ایک جنرل، بریگیڈیئر اور دیگر افسران کو خریدنے کا آغاز کیا گیا۔ لیکن فوج میں سے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے اور ان کے مقاصد کو پورا کرنے والا صرف یہی بریگیڈیئر امریکیوں کے ہاتھ آیا۔
اس وقت کے آرمی چیف شنیڈر کو امریکہ نے خریدنا چاہا، لیکن کامیابی نہ ہوئی تو پھر اسے ایک مشتبہ قسم کے حملے میں مروا دیا گیا۔ امریکیوں نے ایک پلان کے تحت اس بریگیڈیئر کو جمہوری آقاؤں کی آنکھ کا تارا بننے کے لیے کہا۔ اس نے صدر کے پاس جا کر دست بستہ عرض کی، کہ اگر آپ حکم کریں تو میں آپ کے لیے بہت کچھ کر سکتا ہوں۔ پلان کے تحت سی آئی اے نے اس بریگیڈیئر کے لیے پورا میدان سجا دیا۔ اپوزیشن کے راہنماؤں کو سات ملین ڈالر دیئے گئے تاکہ وہ حکومت کے خلاف تحریکیں شروع کریں۔ بس پھر کیا تھا، لوہا گرم تھا۔ اس بریگیڈیئر نے دارالحکومت میں چلنے والی اس تحریک کو فوجی طاقت سے کچل کر جمہوری صدر کا مکمل اعتماد حاصل کر لیا۔ اس کے نتیجے میں اسے 23 اگست 1973ء کو آرمی چیف بنا دیا گیا۔
یہ تھا چلّی کا جنرل بنوشے، اور جمہوری طور منتخب ہونے والا صدر تھا آلندے۔ لیکن آرمی چیف بننے کے ٹھیک 18 دن بعد یعنی 11 ستمبر کو اس نے اپنے محسن صدر کے محل پر فوج کے ساتھ چڑھائی کرکے قبضہ کر لیا۔ آلندے اس حملے میں مارا گیا اور جو لوگ گرفتار ہوئے انہیں ایک ملٹری چھاؤنی میں لے جا کر گولیوں سے بُھون دیا گیا۔ ملک میں ہنگامے شروع ہوئے تو پہلے مہینے میں ہی دو لاکھ پچاس ہزار افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔
پورے ملک میں خوف طاری ہوا تو ایسے تمام علاقوں میں سخت آپریشن کا آغاز کر دیا گیا جہاں سے تھوڑی سی بھی آواز بلند ہوتی تھی۔ ہر صوبے میں اس کے فوجی، قومی مفاد کے نام پر دندناتے پھرتے اور لوگوں کے سروں کی فصل کاٹتے۔ شہر در شہر ہونے والے فوجی آپریشنوں میں ساڑھے تین ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے اور 80 ہزار سے زیادہ لوگوں کو بغیر کوئی مقدمہ چلائے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان پر اس قدر تشدد ہوا کہ انہیں جسمانی اور ذہنی طور پر معذور بنا دیا گیا۔ بے شمار لوگوں کو طویل مدت کے لیے قید خانوں کی نذر کر دیا گیا۔
جس دوران یہ ظلم و تشدد ہو رہا تھا، پنوشے نے اپنے اقتدار کو آئینی حیثیت دینے کے لیےملک بھر میں ایک جعلی ریفرنڈم کرایا اور اس کے ذریعے ایک نیا آئین بنانے یا پرانے آئین میں وسیع تر ترامیم کرنے کا اختیار حاصل کر لیا۔ وہ تکبر کے لہجے میں کہا کرتا تھا کہ اس ملک میں ایک پتاّ بھی میرے حکم کے بغیر حرکت نہیں کر سکتا۔ اس نے مقبول ترین جمہوری راہنماؤں کے مقابلے میں امریکی سرمائے سے اپنی ایک الگ سیاسی جماعت بنائی۔ اس جماعت کو سی آئی اے اور ملک کی افواج کی بھر پور حمایت حاصل تھی۔
اس پارٹی کے سیاستدان بھی عجیب تھے۔ ایک جعلی قسم کے الیکشن سے اسمبلی کے ممبران بنے اور خود کو بے شرمی اور ڈھٹائی سے جمہوری راہنما اور منتخب نمائندے کہلاتے تھے۔ حالانکہ ان سب کی حالت یہ تھی کہ جنرل پنوشے کے سامنے بات کرتے ہوئے بھی ان کی جان جاتی تھی، سانس پھول جاتا تھا۔ اس نے ملک کے قیمتی ترین اثاثے اونے پونے داموں، عالمی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھ فروخت کر دیئے۔ اس فروخت سے اچانک بہت سا مال مل گیا اور ملک میں وقتی طور پر خوشحالی آ گئی۔ لیکن صرف ایک سال کے تھوڑے سے عرصے کے بعد ہی چلّی میں غربت اپنی انتہا کو چھونے لگی۔ ملکی اثاثے بیچنے سے چند لوگ امیر ہو گئے، لیکن باقی عوام تو دو وقت کی روٹی کی بھی محتاج ہوگئی۔ مگر ان بدترین حالات کے باوجود پنوشے جب بھی گفتگو کرتا، اپنی معاشی ترقی کی ڈینگیں ضرور مارتا۔ اسے حکومت کا حجم کم کرنے کا بھی جنون تھا۔ اس نے اپنے دور میں ڈاؤن سائزنگ کی پالیسی اپنائی، جس سے ہزاروں سرکاری ملازمین نوکریوں سے نکال دیئے گئے۔ اس پر کئی بار قاتلانہ حملے ہوئے۔
7 ستمبر 1986ء کا حملہ سب سے بڑا تھا جس میں اس کے پانچ باڈی گارڈ مارے گئے لیکن وہ بچ نکلا۔ اس کے بعد اس کا غصہ، جبر اور تشدد عروج پر آ گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ تخریب کاری کے جرم میں پکڑے گئے۔ پنوشے وہ حکمران تھا جس کے دَور میں دنیا نے پہلی دفعہ لوگوں کو لاپتہ کرنے کا تصور حقیقت بنتے دیکھا۔ لوگ دن کی روشنی میں اُٹھا لیے جاتے اور پھر ان کا کوئی اَتہ پتہ معلوم نہ ہوتا۔ ان لاپتہ افراد کے پیارے ان کی تصویریں لیے چوکوں، چوراہوں اور سڑکوں پر دربدر آنسو بہاتے رہ جاتے۔ لیکن وقت بدلتا ہے۔ اس نے قوت اور طاقت کے نشے میں الیکشن کا اعلان کر دیا۔
5 اکتوبر 1988ء کے الیکشنوں میں عوام کی اکثریت نے پنوشے کے خلاف فیصلہ سنا دیا۔ انتخاب کے نتیجے میں جو سیاستدان برسرِ اقتدار آئے وہ امریکہ، سی آئی اے اور فوج سے ڈرے ڈرے پنوشے کے خلاف کارروائی نہیں کر رہے تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے اسی کی بنائی ہوئی آئینی ترامیم ختم کیں، لیکن امریکہ کا خوف اتنا دلوں میں بیٹھا ہوا تھا کہ اسے آرمی چیف کے عہدے سے ہٹانے کی کوئی ہمت نہ کر سکا۔ ملک میں ایک ٹرتھ کمیشن بنایا گیا۔ پورے ملک سے درماندہ لوگوں نے اس کمیشن میں گواہیاں دیں۔ اسے 2115 لوگوں کی موت اور 957 لوگوں کو لاپتہ کرنے کا مجرم ٹھہرایا گیا۔ اس نے کہا کہ اگر ایک فوجی سپاہی کو بھی ہاتھ لگایا گیا تو ملک میں قیامت برپا ہو جائے گی۔ لیکن کمیشن نے 600 فوجی افسران کو انسانوں کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
چلّی کی خفیہ ایجنسی کے سربراہان مینوئل کونئٹریا اور اس کے ڈپٹی کو سزا سنا دی گئی لیکن ملک میں پتاّ بھی نہ ہلا۔ پنوشے نے آئین میں ترمیم کرکے فوج کے سربراہ کو قانون سے مستثنیٰ قرار دلوا دیا تھا اس لیے اس پر مقدمہ نہ چل سکا۔ ایک امریکی بلا کو سر سے اُتارنے کے لیے، اسے 10 مارچ 1998ء کو ریٹائرڈ کرکے تاحیات سینیٹر بنوا دیا گیا۔ لیکن عوام جن کے زخم ابھی تازہ تھے، جنہوں نے اپنے پیاروں پر ظلم ہوتے دیکھا تھا، ان کی لاشیں اُٹھائی تھیں، جن کے پیاروں کے نام و نشان تک مٹا دیئے گئے تھے۔ وہ بدنصیب لوگ کہاں صبر کر کرنے والے تھے۔
عوام نے پہلے سیاستدانوں کا گھیراؤ شروع کیا، وہ کچھ نہ کر سکے تو پھر یہ بپھرے ہوئے لوگ عدالتوں کے دروازوں پر جا نکلے۔ پنوشے کے خلاف تین ہزار مختلف کیس رجسٹرڈ ہوئے۔ لوگوں کا دباؤ سیاستدانوں کو مجبور کر گیا اور وہ اسے عدالت کے کٹہرے پر لے آئے۔ ایسے میں وہ امریکہ بھی اس کی مدد کو نہ آیا، جس کی خوشنودی کے لیے اس نے عوام پر ظلم ڈھائے تھے۔ وہ بھاگ کر امریکہ پہنچا تو اسے پناہ دینے سے انکار کر دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ اسے امریکہ سے برطانیہ جاتے ہوئے امریکہ نے ہی گرفتار کروا کے چلّی کی جمہوری حکومت کے سپرد کر دیا گیا۔ اس کا مقدمہ ایک طویل روداد ہے۔
یہ کہانی نہ صرف اس کے جرائم تک محدود ہے بلکہ اس کے ساتھ ان فوجی افسران اور سیاسی گماشتوں کی بھی عبرت کی داستان ہے جنہوں نے ظلم، تشدد اور جبر میں اس کا ساتھ دیا تھا۔ وہ اسی مقدمے کی سماعت کے دوران حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گیا۔ اس کی موت پر لوگ دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آئے۔ خوشی کے نعرے بلند ہوئے۔ اُس کے چند وفادار سیاسی یتیم اس کا جنازہ اُٹھا کر باہر لائے۔ جس فوجی جرنیل کو قتل کرکے وہ آرمی چیف بنا تھا، اس کے پوتے نے اس کے تابوت پر تھوکا۔ پولیس نے جلدی سے اُسے پیچھے ہٹایا اور پھر تیزی سے اُسے دفن کر دیا گیا۔ اسے کسی قسم کا سرکاری اعزاز تک نہ دیا گیا۔
یہ کہانی نہیں آج کے دور کا ایک جیتا جاگتا واقعہ ہے۔ وہ عبرت کی داستان کے طور پر 11 دسمبر 2006ء کو دفن کیا گیا۔ اس کی موت زندہ قوموں کی تاریخ کا ایک روشن اُصول ہے جو چلّی کی زندہ، غیور اور باغیرت قوم متعین کر گئی کہ کسی ایسے شخص کو جو پوری قوم کا مجرم ہو، جس کے ظلم سے بستیوں میں خوف پھیلا ہو، جس کے تشدد سے گھرانے برباد ہوئے ہوں اس کے جرم کو معاف کرنے کا اختیار کسی منتخب حکمران، سیاسی لیڈر یا فوجی سربراہ کو بھی حاصل نہیں ہے۔ ایسا شخص پوری قوم کا مجرم ہوتا ہے، اسے قوم کبھی معاف نہیں کیا کرتی۔ اس لیے کہ مرنے والوں کی چیخیں اور لاپتہ ہونے والوں کی روحیں اور پیچھے رہ جانے والے خاندانوں کی بددُعائیں لوگوں کو ایسا نہیں کرنے دیتیں۔