بدنصیب ہوتی ہے وہ قوم جس کے سامنے اللہ کی واضح نشانیاں آ جائیں، مگر اس کے دانشور، اہل علم اور خصوصاً جدیدیت کے پیکر میں ڈھلے مذہبی سکالر اپنے استدلال سے ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ انسان نے زمین پر جو فساد برپا کر رکھا ہے، جو ظلم و تعدمی کا بازار گرم ہے، انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں، اللہ کی بتائی گئی اخلاقیات اور مذہبی تعلیمات کا عملی طور پر تمسخر اڑانے کے لئے فحاشی و عریانی کو آرٹ اور ہم جنس پرستی کو انسانی حقوق کا درجہ دیا جاتا ہے، ان سب کا اللہ کی ناراضگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ دنیا اسباب و علل (Cause and effect) کی دنیا ہے، اس لئے جب تک کسی مرض، وبا، زلزلے یا طوفان کا براہ راست تعلق ان انسانی مظالم اور حرکات سے ثابت نہیں ہوتا ہم حتمی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ یہ مرض یا وبا، زلزلہ یا طوفان انسان کی بداعمالیوں کا نتیجہ ہیں۔
یہ دانشور، اہل علم اور جدید مذہبی سکالر اس قدر ظالم ہیں کہ گزشتہ تین ماہ سے پوری دنیا کورونا کی لپیٹ میں آئی ہے جس کے نتیجے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی اخلاقیات سے بغاوت کے تمام مراکز، اڈے اور ٹھکانے بند پڑے ہیں۔ مساج پارلروں سے لے کر بیوٹی پارلروں تک، جسم فروشی سے ایسکورٹ (Escort) سروسز تک اور بار روموں سے لے کر لیسبئن پریڈ تک سب سنسان پڑے ہیں۔ بازاروں میں ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے، فیکٹریاں دھواں نہیں اگل رہیں، جہاز فضا کو آلودہ نہیں کر رہے۔ اس سب کے نتیجے میں پوری دنیا میں حیرت انگیز طور پر خوشگوار تبدیلی آئی ہے۔
آسمان نیلا نظر آنے لگ گیا ہے۔ پرندے سرخوشی سے چہچہانے لگے ہیں، جانور بے خوف ہو کر شہروں کی سڑکوں پر مٹر گشت کر رہے، یوں لگتا ہے جیسے دنیا میں خوبصورتی اور بہار لوٹ آئی ہے۔ اس کیفیت کی ملحد سے لے کر جدید سیکولر تک اور پھر ان کی پیروی میں ہمارے دانشور تک سب ایک تصور عام کر رہے ہیں کہ انسان نے مادر فطرت (Mother Nature) سے گزشتہ ایک صدی میں اس قدر زیادتی کی ہے کہ اب اس مادر فطرت نے انتقاماً کورونا وائرس کے ذریعے انسانوں کو ہر اس کام سے روک دیا ہے جو اس کے خوبصورت چہرے کو بدنما بنا رہا تھا۔
کوئی ان "عظیم" صاحبان بصیرت اور ماہرین دانش سے پوچھے کہ مادر فطرت کس بلا کا نام ہے، کہاں رہتی ہے، اس کے بس میں کون سا اختیار ہے کہ انتقام کی آگ میں انسانوں کو قتل کر رہی ہے۔ یہ فیصلے کیسے کرتی ہے اور اپنے فیصلے نافذ کرنے کے لئے اس کے پاس کون سی قوت نافذہ ہے۔ کیا وہ موجودہ ماحولیاتی خرابیوں کا کوئی سائنسی تعلق کورونا وائرس سے ثابت کر سکتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ لیکن اس تصور کو عام کیا جا رہا ہے تاکہ لوگوں کی زبان پر اس کائنات کے مالک و خالق حقیقی کا نام نہ آ جائے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ "مادر فطرت" مادی نافرمانیوں پر تو عذاب نازل کرتی ہے، اگر آپ درخت کاٹ دیں، دریائوں کا رخ موڑ دیں، دھوئیں سے آسمان سیاہ کر دیں، بدترین ماحولیاتی آلودگی پھیلا دیں تو "مادر فطرت" فوراً غصے میں آ جاتی ہے اور کورونا کو بھیج کر پوری انسانیت کو سبق سکھاتی ہے، لیکن آپ فحاشی پھیلائیں، قتل و غارت کریں، ہم جنس پرست جوڑے بنائیں، لوگوں کا استحصال کریں۔ "مادر فطرت" گونگی بہری بنی رہتی ہے اور کسی "کورونا" کو ظالم انسانوں کی بیخ کنی کے لئے روانہ نہیں کرتی۔ یہ ہے وہ عظیم سائنسی استدلال ہے جو آج کل بڑے خوبصورت پیرائے میں کالموں، ٹیلی ویژن پروگراموں اور نیوز رپورٹوں میں زور و شور سے پیش کیا جا رہا ہے۔
"کورونا" دراصل انسان کی بے بسی کی علامت بن چکا ہے اپنی تمام تر سائنسی ترقی اور خلائوں کی تسخیر کے باوجود انسان ایک نہ نظر آنے والے جرثومے کے ہاتھوں موت کی آغوش میں جارہا ہے۔ لیکن سرکشی کا یہ عالم ہے کہ ماننے کو تیار ہی نہیں اس کی یہ بے بسی اس کے اعمال کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے۔ میں نے "سرکشی" کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کیونکہ فسق کا ایک ترجمہ سرکشی ہے اور فاسق کا صحیح مفہوم سرکش ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن پاک کے آغاز میں جہاں سارے انسانوں کو مخاطب کرکے اپنی طرف بلاتا ہے تو وہاں وہ ایک کلیہ بتاتا ہے۔ "اللہ اس مثال سے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے۔ مگر وہ گمراہ انہی کو کرتا ہے جو سرکش ہیں (البقرہ: 26) یہ سرکشی ہی تو ہے کہ دنیا بھر کا ملحد، سیکولر، لبرل دانشور آج بھی سائنسی توجیحات ڈھونڈ رہا ہے۔
یہ انسانی تاریخ میں بار بارہوا ہے، لیکن جدید تاریخ میں کورونا ایسی وبا ہے جس نے ملحدین کے تمام اعتراضات کا تشفی آمیز جواب دیا ہے۔ مثلاً عذاب طاقتوروں اور امیروں پر کیوں نہیں آتا، جہاں فحاشی عریانی اور نافرمانی ہے وہاں کیوں نہیں آتا۔ اللہ نے صرف وہی علاقے کورونا کی دسترس میں دے دیے، پھر یہ اعتراض بھی منہ پر دے مارا کہ عذاب صرف غریب ملکوں اور بستیوں پر کیوں نازل ہوتا ہے، اللہ نے غربت و افلاس و بیماری کے مارے ہوئے اکثر ممالک کو کورونا فری قرار دے دیا۔ ہوتا یہ ہے کہ اللہ کی اتنی بڑی نشانی دیکھ کر بھی جو لوگ سرکشی دکھاتے ہیں تو اللہ انہیں ان کے حال میں مست کر دیتا ہے اور یوں ان کو اسی نشانی سے گمراہی مقدر میں ملتی ہے۔
اس سال 2020ء کے آغاز سے ہی کیا کیا فقرے تمسخر کے ساتھ دنیا بھر کے میڈیا پر پھیلائے گئے جیسے "اللہ سے دعا کرو کہ وہ کسی کافر سائنس دان کو توفیق دے کہ وہ ویکسین دریافت کرے، یہ وہ کافر سائنس دان ہیں جو ایک سو سال پہلے کے سپینش فلو کی ویکسین دریافت نہیں کر سکے۔ چین نے ذرا اس مرض پر قابو پایا تو نتیجہ یہ نکالا جانے لگا کہ چین میں تو عورتیں گلے میں بھی دوپٹہ نہیں پہنتیں ان سے اللہ کیسے خوش ہوگیا۔ لاتعداد اوٹ پٹانگ منطق زدہ فقرے ہوا میں اچھالے گئے جن کا دلیل سے کوئی جوڑ نہیں تھا۔
آخری یہ کہ حرم پاک اور مسجد نبویﷺ سمیت مساجد بھی تو بے آباد ہوگئیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ صرف مساجد پر حکمران نہیں پوری کائنات پر حکمران ہے اور اس نے پوری زمین کو مسجد یعنی سجدہ گاہ کہا ہے۔ وہ دکھاوے کے عمرے اور حج تو قبول نہیں کرتا لیکن تنہائی میں اس کے خوف سے نکلنے والے آنسوئوں سے تر چہرے پر دوزخ حرام کر دیتا ہے۔ مساجد اللہ کے دفاتر یا دکانیں نہیں کہ بند ہو جائیں تو اس کی سلطنت اور بادشاہت کا اختیار رک جائے گا۔ اس کا اختیار قائم ہے لیکن اس نے تمہیں جھنجوڑنے کے لئے تمہارے دفاتر اور کاروبار بند کروا کے تمہارا رزق تم سے چھین لیا ہے۔
اس وقت دنیا اس بات سے اتنی خوفزدہ نہیں کہ وہ کورونا سے مر رہی ہے، اس بات سے خوفزدہ ہے کہ اگر یہ ایسے کچھ دیر چلتا رہا تو جو بچ نکلا وہ بھوک سے مر جائے گا۔ معاشی پالیسیاں بنانے والے کبھی مصنوعی کاغذی کرنسی کی فکر میں ہیں اور کبھی کارپوریٹ انڈسٹری کے دکھ میں رو رہے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود گردنیں اللہ کے سامنے خم ہی نہیں ہوئیں۔ یقیناََ اللہ سرکشوں کو ہدایت نہیں دیتا۔