امریکی صدر جارج بش نے جنوری 2009ء میں میڈل آف فریڈم دیتے ہوئے، اسے "امریکہ کا لارنس آف عریبیا "کہہ کر پکارا۔ اس شخص سے میری ملاقات مسجد وزیر خان لاہور میں ہوئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں امریکی سفارتخانہ "صوفی اسلام" کی ترویج کے لئے مزارات اور تاریخی مساجد کی ازسرنو تزئین کے لیے سرمایہ فراہم کر رہا تھا۔
بحیثیت ڈائریکٹر جنرل، محکمہ آثارقدیمہ میرے لئے اس ذمہ داری کو نبھانا جہاں ذہنی تکلیف کا باعث تھا، وہیں یہ تعلق مجھے خطے میں امریکہ کی چالوں اور مسلم اُمہ میں نقب زنی کے راستوں سے بھی آشنا کرتا تھا۔ بہت سا سرمایہ براہ راست مشائخ عظام اور گدی نشین حضرات کو ملتا جبکہ ایسے قدیم مزارات و مساجد جن کا ذمہ محکمہ آثار قدیمہ کے پاس تھا، اس کے لئے امریکی سفارت خانہ ہم سے رابطہ کرتا۔
مسجدوزیرخان ان میں سے ایک تھی جس کے قدیمی بازار کی مرمت کے لئے فنڈ فراہم کیے گئے۔ سب سے پہلا جھگڑا اس بات پر ہوا کہ جب امریکی سفیر اس کام کی تکمیل دیکھنے آئے گا تو افتتاح پر امریکی مدد کی تختی لگی ہونی چاہیے۔ میں نے انکار کیا کہ ہم اللہ کے گھر پر کسی کی تختی نہیں لگاتے۔ ناراضگی کے عالم میں یہ شخص مسجد وزیر خان آیا۔ ایک حیران کن معلومات کا حامل، عربی اور فارسی پر عبور رکھنے والا اور اسلامی مسالک و تاریخ کے زیر و بم سے آشنا۔۔ امریکی سفیر، ریان سی کروکر۔ ایک عرصے سے میں نے یہ عادت بنا رکھی ہے کہ میں کسی بھی غیر ملکی سے ملاقات سے پہلے اس کی گذشتہ زندگی، تعلیم اور دیگر معاملات کے بارے میں معلومات ضرور حاصل کرتا ہوں۔ اس طرح مجھے اس کے سوال میں چھپے مقصد کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے اور جواب دینے میں بھی آسانی رہتی ہے۔ اس شخص کے بارے میں پڑھنا شروع کیا تو حیرت میں گم ہوگیا۔
امریکی ایئر فورس میں ملازم باپ کی وجہ سے وہ بچپن میں مراکش اور ترکی میں رہا اور اسلامی تہذیب سے آشنا ہوا۔ فارن سروس میں آنے کے بعد اس نے فارسی زبان سیکھی اور شاہ ایران کے دور میں 1972ء میں خرم شہر میں امریکی قونصلیٹ مقرر ہوگیا۔ اسکے بعد دوہا، قطر میں کمرشل کونصلر مقرر کیا گیا اور اس نے عربی میں دلچسپی پیدا کرلی۔ یہیں سے وہ تیونس کے فارن سروس عربی انسٹیٹیوٹ میں دو سال کے لیے عربی سیکھنے چلا گیا۔ اب اس کی تربیت مکمل ہوچکی تھی، وہ مسلم دنیا کیلئے ماہر سفارتکار تھا۔
اسے مسلم دنیا کے سب سے زیادہ جنگ زدہ علاقے لبنان میں 1981ء میں امریکی سفارتخانے کے سیاسی سیکشن کے انچارج کے طور پر بھیجا گیا۔ اسکے بیروت پہنچنے کے کچھ ہی عرصے بعد 16ستمبر 1982ء کو شام چھ بجے سے لیکر 18ستمبر 1982ء تک رات آٹھ بجے تک لبنان کی سیکولر سیاسی تنظیم "حزب الکتائب لبنانیہ " کے ملیشیا نے صابرہ شطیلہ کے فلسطینی مہاجر کیمپوں پر اسرائیل کے وزیر دفاع ایریل شیرون کی مدد اور نگرانی میں قتل و غارت کیا۔
یہ قتل عام انسانی تاریخ کا بدترین قتل عام سمجھا جاتا ہے جس میں ساڑھے تین ہزار فلسطینیوں کو انتہائی بے دردی سے شہید کیا گیا تھا، جن میں معصوم بچے اور عورتیں بھی شامل تھیں۔ اس قتل عام کی نگرانی ایریل شیرون نے اسرائیل سے بیروت آکر امریکیوں سے ملاقات کے بعد شطیلہ کیمپ سے دو سو میٹر دور ایک پانچ منزلہ عمارت میں بیٹھ کر کی تھی۔ اسرائیلی ڈیفنس فورس (IDF)نے کیمپوں کو گھیرے میں لیا اور پھر سیکولر ملیشیا نے قتل عام کیا۔ ریان سی کروکر اپنے امریکی دفتر میں اس آپریشن کی نگرانی کرتا رہا۔ حالات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اسے کچھ دیر کے لئے امریکہ واپس بلالیا گیا، لیکن جلد ہی دوبارہ بیروت بھیج دیا گیا۔
بیروت کا امریکی سفارتخانہ اس وقت امریکی سی آئی اے کا مرکز بھی تھا۔ اس قتل عام کے بعد اس ہیڈکوارٹر سے 18 اپریل 1983ء کو ایک شخص نے بارود سے بھرا ٹرک ٹکرا دیا، جس کے نتیجے میں دیگر ستر کے قریب لوگوں کے علاوہ سی آئی اے کا علاقائی سربراہ رابرٹ ایمز (Robert Ams) اپنے سولہ اہم ساتھیوں سمیت مارا گیا۔ ریان سی کروکر اس حملے میں بچ نکلا اور اسے امریکہ میں محکمہ خارجہ کے عرب اسرائیلی معاملات کے ڈیسک کا سربراہ بنا دیا گیا۔ عرب دنیا اب اس کے نام سے واقف ہو چکی تھی اسی لئے 1998ء میں جب وہ شام میں سفیر تھا تو دمشق کے عوام کا غصے سے بھرا ہوا ہجوم اس کے گھر میں داخل ہوا اور اسے اجاڑ کر رکھ دیا۔
گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد اس "امریکی لارنس آف عریبیا" کے کمالات کا اصل زمانہ شروع ہوا۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا تو وہ وزارت خارجہ کے اہم لوگوں کے ساتھ جینوا جا پہنچا جہاں اس کی 70ء کے زمانے کی ایرانی سفارت کاری اور فارسی زبان کی مہارت کام آئی اور اس نے وہاں خفیہ طور پر ایران کے حکام کو قائل کر لیا کہ طالبان اور القاعدہ دراصل امریکہ اور ایران کے مشترکہ دشمن ہیں۔ یوں تقریباً ایک سال تک ایران نے افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی بھرپور مدد کی۔
ریان سی کروکر نے نومبر 2013ء کے نیویارک ٹائمز میں اپنے مضمون "Talk to Iran، it works" میں تمام تفصیلات بتائی ہیں۔ اس نے بتایا کہ وہ کیسے مختلف مقامات پر ایرانی حکام سے ملاقاتیں کرتا رہا، کیسے انہوں نے القاعدہ کے لوگوں کو پکڑنے میں امریکہ کی مدد کی اور کس طرح شمالی اتحاد کے ذریعے ہمیں افغان طالبان سے لڑنے میں ہر طرح کی کمک فراہم کی۔ ریان سی کروکرکے مطابق ایران افغانستان پر حملے کا سب سے مضبوط محرک (Proponent) تھا (میں نے اسی کا انگریزی لفظ وضاحت کے لیے استعمال کیا ہے)۔
اس نے بتایا کہ بون میں افغان عبوری حکومت کا قیام اور حامد کرزئی کی صدارت دراصل امریکہ ایران معاہدے کا ہی نتیجہ تھی۔ انہی کامیابیوں کے نتیجے میں کروکر کو جنوری 2002ء میں افغانستان کے امور کا نگران اور کابل میں نئے کھلنے والے سفارتخانے کا "charge de affairs" لگا دیا گیا۔ یہاں اس نے ایک بار پھر ایرانیوں کے ساتھ لاتعداد سیکورٹی اور افغان ترقیاتی منصوبوں کے معاہدے کیے۔ لیکن اس کے بقول اس کی تمام کوششوں کو جارج بش کی اس تقریر نے خراب کر دیا جس میں اس نے ایران کو برائی کا مرکز "Axis of Evil" قرار دے دیا۔
اس کے بقول ہم ایرانیوں کے ساتھ معاہدے کے نزدیک تھے جس کے تحت انہوں نے گلبدین حکمتیار کو افغان حکومت کے حوالے کرنا تھا اور پھر امریکہ کے۔ لیکن کروکر افغانستان میں امریکی سفارتخانہ مضبوط کرتا رہا اور بالآخر 2004ء میں پاکستان میں سفیر بنا کر بھیجا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب رینڈ کارپوریشن کی مشہورِ زمانہ رپورٹ سول ڈیموکریٹک اسلام (civil democratic Islam) آچکی تھی اور امریکی انتظامیہ نے اسے اپنے لیے مشعل راہ کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔ اس رپورٹ کے نزدیک پوری امت مسلمہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
دو ایسے گروہ جو اسلام کی نشاۃثانیہ پر یقین رکھتے ہیں، جن سے امریکہ کو جنگ کرنا ہے، جبکہ تیسرا گروہ وہ ہے جو سیکولر، لبرل ہیں وہ پہلے ہی سے ساتھ ہیں مگر جس چوتھے گروہ کو ساتھ ملانا ہے وہ ماڈریٹ اسلام کے قائل ہیں۔ اسی پالیسی کے تحت امریکہ کا یہ لارنس آف عریبیا، "ریان سی کروکر" پاکستان میں تین سال سفیر رہا۔ مسجد وزیر خان میں اس کے ساتھ میری ملاقات تقریبا ایک گھنٹے پر محیط تھی۔
وہ مراکش سے لے کر برونائی تک ہر ملک کے مسلمانوں کی کمزوریوں اور صلاحیتوں سے بخوبی واقف تھا، اسے اسلامی تاریخ پر عبور حاصل تھا اور وہ عربی مصادر اور فارسی محاورے سے آشنا تھا۔ پاکستان میں پرویز مشرف کے ذریعے سیکولر اخلاقیات کے نفاذ اور چوہدری شجاعت کی سربراہی میں صوفی کونسل بنوانے کے بعد وہ 2007ء میں عراق میں تعینات ہوگیا، جہاں امریکی آشیرباد سے نئی نئی حکومت بنی تھی اور سنی اور شیعہ مل کر اس حکومت کے خلاف متحد تھے۔ مقتدی الصدر کی کارروائیوں نے دہلا کر رکھا ہوا تھا۔
ریان سی کروکر کی آمد نے نقشہ ہی بدل دیا۔ اس دفعہ اس نے ایران سے کھل کر میڈیا کی چکاچوند میں ملاقات کی اورمعاہدے کے تحت ایرانیوں نے مقتدی الصدر کے ملیشیا سے ہاتھ کھینچ کر امریکی کاسہ لیس عراق حکومت کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ ایرانی مدد سے وزیراعظم نور المالکی کی افواج نے اپریل 2008ء میں پورے عراق میں دہشت گردی کے نام پر قتل عام کا آغاز کردیا۔ کروکر کو میڈل آف فریڈم عطا ہوا اور لارنس آف عریبیاکہہ کر پکارا گیا اور پھر 25 جولائی 2001ء کو اسے افغانستان میں دوبارہ سفیر مقرر کیا گیا، جہاں وہ ایک سال تک رہا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے طالبان سے مذاکرات ختم کرنے کے اعلان کے بعد سب سے پہلی آواز اسی "لارنس آف عریبیا "کی بلند ہوئی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ افغان امریکہ معاہدے کا ڈرافٹ انتہائی خطرناک (Very Dangerous)ہے۔ یہ انتہائی خطرناک کس لئے ہے اور اس معاہدے سے خوفزدہ کون ہے؟ کل بات ہوگی۔