بلوچ قبائل کے رسم و رواج اور عادات و خصائل کا مطالعہ، انگریز سول سروس کے افسران کا معمول تھا۔ آج بھی تمام قدیم اضلاع میں ڈپٹی کمشنروں کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ڈائریاں ہر قبیلے، سردار اور مختلف اہم افراد کے بارے میں مشاہدات و تجربات کا ایک وسیع ذخیرہ رکھتی ہیں۔ یہ مجلّد رجسٹر، جنہیں دفتری زبان میں (Personogies) کہا جاتا تھا، ان خفیہ دستاویزات میں سے ہوتا ہے جسے جانے والا آنے والے ڈپٹی کمشنر کے حوالے کرتا تھا۔ انگریزوں کے لکھے ہوئے گزیٹیر کسی بھی ضلع کے بارے میں معلومات کا ایک ایسا ذخیرہ ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں۔ کسی بھی مورخ نے مختلف اضلاع کے بارے میں آج تک اس قدر جامع کتاب تحریر نہیں کی۔ بلوچستان کے بلوچ و پشتون قبائل کی وہ خصوصیات اور خامیاں جو انتظامیہ کے کام آسکتی ہیں ان کے بارے میں ہاتھ سے لکھے ہوئے رجسٹر اور تاجِ برطانیہ سے کی گئی خط و کتابت آج بھی اتنی ہی مفید ہے جتنی کل تھی۔ ان دستاویزات کا مطالعہ کرتے ہوئے میرے ذہن میں ایک سوال ہمیشہ گونجا، کہ انگریز نے بلوچستان میں نہ تو کوئی پولیس کا مؤثر محکمہ قائم کیا اور نہ ہی یہاں سے اس طرح جوانوں کو فوج میں بھرتی کیا جیسے پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے علاقوں سے کیا تھا۔ ان دونوں کی عدم موجودگی میں بلوچستان انگریز دور میں اسقدر پرسکون اور پرامن کیسے رہا۔
انگریز کو بلوچ روایات کے وسیع مطالعہ سے یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ بلوچ اپنے قبیلے اور علاقے سے باہر کسی چیز کو جاننے یا اس سے وابستگی رکھنے کی جانب کبھی مائل نہیں ہوتا۔ وہ خود کو قبیلے سے کاٹ کر زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس کی کل کائنات ہی اس کا قبیلہ ہے جو اسے بھوک میں کھانا دیتا ہے، خوف میں امن فراہم کرتا ہے اور ناانصافی کی صورت میں اس کے حق میں فیصلہ کرتا ہے۔ انگریز کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ جب تک یہ تینوں فرائض ریاست یا کوئی اور ادارہ قبیلے سے کہیں بہتر انداز میں پورے نہیں کرتا، بلوچ اپنے قبیلے کے دائرے سے باہر نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ تھا وہ نکتہ، جو سات سمندر پار سے آنے والے انگریز کی سمجھ میں آگیا تھا، لیکن ستر سال سے پاکستان کے حکمرانوں کی سمجھ میں آج تک نہ آ سکا۔ قبائلی نظام سے علیحدہ ہوکر چند افراد نے جو بھی شناخت حاصل کی وہ بھی قبیلے کے سامنے سرنگوں رہی۔ کوئی سول سروس میں چیف سیکرٹری لگا، فوج میں جرنیل ہوا یا پولیس میں آئی جی کے عہدے تک گیا، اس نے اپنی محبتوں اور وفاداریوں کا اولین مرکز و محور اپنے قبیلے کو ہی رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ انگریز نے اس قبائلی نظام سے کسی بلوچ کو علیحدہ کرکے بحیثیت فرد اس کی وفاداریاں خریدنے یا اسے اپنے بڑے نظام کا حصہ بنانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ انگریز نے قبائلی نظام کے ڈھانچے کا مکمل احترام کرتے ہوئے سرداروں کو اپنے ساتھ ملایا، ایک ایسی لیویز فورس مرتب کی جو یوں تو سردار کی سفارش پر بنتی تھی، لیکن اس کا انتظامی اختیار ڈپٹی کمشنر کے پاس ہوتا۔ ہر ضلع میں صرف چند لیویز سپاہی امن و امان قائم کرنے کے لیئے کافی ہوتے، کیونکہ ایک لیویز کے سپاہی کے پیچھے اس کے قبیلے کی طاقت ہوتی اور اسے چھیڑنے کا مطلب پورے قبیلے کو چھیڑنا ہوتا۔ ایسی بے شمار مثالیں ہیں کہ ایک لیویز کا سپاہی درجن بھر بلوچ قیدیوں کو لے کر روانہ ہوتا۔ شام آتی تو وہ انہیں ایک جگہ جمع کر کے مٹی پر ایک دائرہ کھینچ دیتا اور کہتا کہ یہ تمہاری جیل ہے تو وہ اس سے باہر نہ نکلتے۔ اس کنٹرول کی وجہ یہ تھی کہ لیویز کے سپاہی کی اتھارٹی کو چیلنج کرنا، دراصل اس کے قبیلے سے دشمنی لینا تھا۔
قبیلہ آج بھی بلوچ کی پہچان ہے، کیونکہ اس کے تمام تر مفادات اس سے وابستہ ہیں۔ اس بات کا ادراک میرے ذہن میں اس وقت مزید مستحکم ہو گیا، جب نوے کی دہائی میں کوئٹہ شہر میں بگٹی رئیسانی جھگڑے کے نتیجے میں نواب اکبر بگٹی کے دو نواسے جاں بحق ہوئے تو نواب بگٹی نے اپنے قبیلے کے تمام افراد کو واپس ڈیرہ بگٹی آنے کا حکم دیا اور وہ تمام افراد جو ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر اور سول سروس میں تھے، جن کے بچے شہروں کے سکول و کالجوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، وہ سب کچھ سمیٹ کر ڈیرہ بگٹی واپس چلے گئے۔ اس کی دووجوہات تھیں، ایک تو تنہا رہ کر مخالف قبیلے کا نشانہ نہیں بننا چاہتے تھے اور دوسرا انہیں بخوبی علم تھا کہ ریاست کا کوئی ادارہ اس قابل نہیں ہے جو قبیلے سے زیادہ انہیں تحفظ فراہم کر سکے یا آفت و پریشانی میں قبیلے سے زیادہ ان کی مدد کر سکے۔ انہیں یقین تھا کہ پولیس ہو یا نظامِ عدل، انہیں جرگے سے بہتر انصاف دے سکتا۔ ریاست کے ناکارہ متبادل نظام کی وجہ سے ایک عام قبائلی سے لے کر اعلیٰ مقام پر فائز بلوچ بھی اپنی ان تین بنیادی ضروریات(۱) امن( ۲) انصاف اور( ۳) بھوک و بیروزگاری میں باعزت مدد کے لئیے اپنے قبیلے کی جانب ہی دیکھتا ہے۔ اسی لئے وہ کبھی کسی ایسی نوکری میں جانا نہیں چاہتا جس میں فرائض کی بجاآوری کے دوران اسے اپنے قبیلے کے مقابلے پر بندوق اٹھانا پڑ جائے۔
انگریز کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ جب تک قبائلی نظام کامتبادل اس نظام سے بہتر نہیں ہوگا، بلوچ اسے کبھی نہیں مانیں گے۔ اس نے اس قبائلی نظام کو دو دفعہ ہلکا سا چھیڑنے کی کوشش کی۔ ایک دفعہ نواب مری انگریز سے اختلاف کرکے بھاگ کر افغانستان چلا گیا تو اسی کے خاندان کے فرد سردار دودا خان کو قبیلے کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ لیکن قبیلے نے اسے اپنی روایات کے برعکس جانا اور برطانوی فوج کی طاقت کے باوجود اسے قتل کردیا۔ یہی تجربہ مینگل قبیلے میں بھی دہرایا گیا اور وہاں بھی وہی کچھ رونما ہوا۔ اس کے بعد انگریز نے قبیلے کی اکائی یا اتحاد کو کبھی چھیڑنے کی کوشش نہیں کی۔ آج بھی بلوچ یا بلوچستان کا قبائلی پشتون نوکری کی خاطر کسی ایسے ریاستی ادارے سے منسلک ہو بھی جائے، اور جب اس ادارے کا مفاد اس کے قبیلے سے ٹکرانے لگے تو وہ زیادہ سے زیادہ انتا ضرور کرے گا کہ وہ اس میدانِ جنگ سے خود کو خاموشی سے علیحدہ کرلے۔ یہ قبائلی وابستگی ہی ہے کہ گذشتہ پچاس سال سے بلوچ نوجوان افغانستان، روس اور بھارت میں جا کر ٹرینگ لیتے رہے، پورے قبیلے کو ان کے آنے جانے، اٹھنے بیٹھنے کا علم ہوتا ہے لیکن کوئی قبیلے کے مقابلے میں ریاست کو اطلاع نہیں دیتا۔ اگر یہی قبیلہ بحیثیت مجموعی امن و امان کا ذمہ دار ہوتا تو یہ لوگ ویسے ہی یہ نوجوانوں کو پکڑ کر ریاست کے حوالے کرتے جیسے انگریز کے زمانے میں کئے جاتے تھے۔
ہم نے اس قبائلی نظام کو دو طریقوں سے توڑنے کی بھی کوشش کی۔ ایک ان پر پولیس اور ایف سی کی بیرونی طاقت مسلط کرکے اور دوسرا قبائل کی آپس کی لڑائیوں کو ہوا دے کر ان میں سے اپنے پسندیدہ گروہوں کی پشت پناہی کرکے۔ ہم دونوں معاملات میں بری طرح ناکام رہے۔ بلوچ تاریخ شاہد ہے کہ جس کسی نے بھی ریاستی مداخلت یا لالچ کی وجہ سے یا پھر اپنی سوچ کے زیراثر اپنے قبیلے کو چھوڑ کر علیحدگی سے ریاست سے اپنے معاملات طے کرنے کی کوشش کی، مراعات لیں، اوّل تو وہ مارا گیا، دوم اسے ساری زندگی ریاست کی مسلح مدد کی ضرورت رہی اور سوم اس کا قبیلے میں اثرورسوخ اور عزت بالکل ختم ہوگئی۔ یہ وہ ناکارہ کارتوس ہیں جن میں ہر پانچ دس سال بعد بارود بھر کر چلانے کی کوشش کی جاتی ہے اور وہ ٹھس ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس سب کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بلوچوں کو یہ ریاست، بحیثیت مجموعی قبائلی نظام اور قبائلی رواج کی دشمن، وسائل کو ہڑپ کرنے والی اور قبضہ گروپ کی صورت نظر آتی ہے۔ ایسی ریاست سے بلوچ کبھی محبت نہیں کر پاتا، پھر ایسے میں اسے ریاست کا ہر دشمن بھی اپنا دوست لگنے لگتا ہے۔ یہ ہے آج کے بلوچ نوجوان کی نفسیات۔ (ختم شد)