بنگلہ دیش کے ایک عام شہری کے ذہن میں تو اس سوال کا آنا ایک فطری امر ہے کہ ان کا ملک معاشی لحاظ سے تاریخی ترقی کر رہا ہے، لیکن انکے گھروں کے آنگنوں میں خوشحالی کیوں نہیں آتی، مگر یہی سوال بڑے بڑے معیشت دانوں کیلئے بھی ان کے بنائے ہوئے معاشی ترقی کے پیمانوں کے حوالے سے طرح طرح کے سوالات اٹھا رہا ہے۔ اس بات سے تو ہر کوئی متفق ہے کہ کسی بھی ملک میں صرف صنعتوں کی پیداواری صلاحیت کے بڑھنے سے ایک عام آدمی کی حالت کبھی بھی نہیں بدلتی، بلکہ اس ترقی سے صرف سرمایہ کاروں کی جیبیں دن بدن پھولنے لگتی ہیں۔ جدید دور میں تو ایک ایسا عالمی استحصالی طریقہ کار شروع ہوا ہے کہ ایک سرمایہ کار جو کسی امیر ملک سے تعلق رکھتا ہو، اپنی فیکٹری کی مشینوں کے نٹ بولٹ کھولتا ہے، بڑے بڑے بحری جہازوں پر لادتا ہے اور کسی بنگلہ دیش جیسے غریب ملک میں جا کر لگا دیتا ہے۔
غریب ملک کو لالچ دیا جا تا ہے کہ دیکھو! تمہارے ملک میں سرمایہ کاری آئیگی تو زرمبادلہ آئیگا اور جب تیار مال یہاں سے برآمدہو گا تو پھر بھی فارن ایکسچینج تمہاری جھولی میں ٹپ ٹپ آکر گرے گا اور یوں تمہارے زرمبادلہ کے ذخائر (Forex Reserve) میں اضافہ ہوگا اور جی ڈی پی کی شرح بھی تیزی سے بڑھتی چلی جائیگی۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش میں ایسے تمام سرمایہ کاروں کو دس سال کیلئے "سو فیصد"ٹیکس کی چھوٹ دی گئی۔ دنیا بھر کے لٹیرے سرمایہ کاروں کیلئے یہ ایک ایسی "جنت" ہے کہ جہاں سستا ترین مزدور مل جاتا ہے، بلکہ بنگلہ دیش میں تو کم مزدوری پر کام پر لگانے کے اعتبار سے بیچاری عورتوں کا دنیا بھر میں سب سے زیادہ استحصال ہوتا ہے۔ سستا مزدور، ٹیکس کی معافی اور اسکے ساتھ سرکاری تحفظ کہ یہ بیرونی سرمایہ کار ہمیں زرمبادلہ کما کر دیتے ہیں۔ یوں ان سرمایہ کاروں کی جیبیں بھرتی گئیں اور غریب آدمی کی غربت میں دن بدن اضافہ ہوتا رہا۔
امیر اور غریب کے درمیان دولت کے فرق کو معاشیات کے ایک پیمانے سے ناپا جاتا ہے جسے "Gini Coefficient" کہتے ہیں۔ یہ پیمانہ اٹلی کے ایک ماہر شماریات "کوریوڈوگنی" (Corredo Gini) نے 1912ء میں بنایا تھا۔ اسے کسی ملک کی اصل معاشی ترقی کو ناپنے کیلئے اور معاشی تفاوت (Economic Inequality) کا مطالعہ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ پیمانہ بتاتا ہے کہ کوئی ملک اصل میں کسقدر خوشحال ہے۔ کیونکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور جی ڈی پی کی شرح نمو کو ایک دھوکے اور سراب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس پیمانے کے مطابق، غریب اور امیر میں تفاوت کی بدترین مثال بنگلہ دیش ہے، جس کی" مرکب سالانہ ترقیاتی نمو" (Compound annual growth rate)تو سب سے زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش کی شرح نمو17.30 فیصد ہے، جسکا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں امیروں کے مزید امیر ہونے کیلئے بنگلہ دیش بہترین سرزمین ہے۔
مگر نیویارک کے ایک تحقیقی ادارے Wealth-X کے مطابق بنگلہ دیش میں صرف امیروں کی آمدن میں ہی 17.3 فیصد کے حساب سے اضافہ ہوا ہے، اور گنی انڈیکس کے مطابق بنگلہ دیش میں امیر اور غریب کے درمیان فرق بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہے، جو "0.482"ہے اور ماہرین کے مطابق یہ فرق دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ یعنی بنگلہ دیش دنیا کی واحد معیشت ہے جو سرمائے کے حساب سے بھی سب سے زیادہ ترقی کر ر ہی ہے اور غربت میں اضافے کے حساب سے بھی۔ بڑی بڑی فیکٹریوں نے، جنہیں باہر سے آنیوالے سرمایہ کاروں نے وہاں لگایا ہے، انہوں نے عام آدمی کے چھوٹے کاروباراور دستکاری وغیرہ کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ جس طرح ایک شاپنگ مال اپنے اردگرد کی ہزاروں چھوٹی چھوٹی دکانوں کو کھا جاتا ہے، ویسے ہی ایک فیکٹری لا تعداد کاریگروں کے چھوٹے چھوٹے کاروبار کو ہضم کر جاتی ہے۔ یہ بیروزگار دکاندار اور کاریگر جن کا روزگار ٹھپ ہو جاتا ہے، انہی شاپنگ مالوں اور کارخانوں میں چند ہزار روپے ماہانہ پر مزدوری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یوں مل مالکان کے سرمائے میں دن بدن اضافہ ہوتا ہے، حکومت کے خزانے میں ڈالر آتے ہیں، اور غریب آدمی غربت کی چکی میں پستا چلا جاتا ہے۔
بنگلہ دیش کی ترقی کی مثالیں دینے والے" نومولود معاشی تجزیہ کاروں "کو شاید اندازہ نہیں کہ بنگلہ دیش کا اس وقت سب سے بڑا مسٔلہ وہ سرمایہ ہے، جو یہ سرمایہ کار یہاں سے کما کر اپنے ملک واپس لے جا رہے ہیں۔ ان میں سب سے اہم ملک بھارت ہے، جہاں کے سرمایہ کاروں نے اپنے ملک کے ٹیکسوں سے بچنے کے لئے اور غریب مزدوری کی دستیابی کی وجہ سے بنگلہ دیش میں فیکٹریاں لگائی ہیں۔ وہ جو کچھ کماتے ہیں، وہ سب بنگلہ دیشی جی ڈی پی میں نظرآتا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائرمیں بھی دکھائی دیتا ہے، لیکن اس کے بعد یہ سرمایہ کار خاموشی سے اپنی کمائی بھارت منتقل کر دیتے ہیں اور بنگلہ دیش کے غریب عوام کی قسمت میں تھکن، بیماری اور غربت رہ جاتی ہے۔ صنعتوں کے جائزے کے میگزین "The Industry News" نے بتایا ہے کہ صرف 2017ء میں بنگلہ دیش سے دس ارب ڈالر قانونی طور "Remittances" کی شکل میں بھارت منتقل ہوئے۔
اس کے علاوہ غیر قانونی طور پر سرمایہ بیرون ملک منتقل ہونیوالے ممالک میں بنگلہ دیش خطرناک ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے، جہاں سے غیر قانونی سرمایہ امیر ملکوں میں مسلسل منتقل ہو رہا ہے۔ یہ فہرست 149 ممالک پر مشتمل ہے جن میں بنگلہ دیش کا نمبر 26واں ہے۔ واشنگٹن کے تحقیقی ادارے "گلوبل فنانشل انٹیگرٹی" (Global Financial Integrity) کے مطابق ہر سال 9.7 ارب ڈالر بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پر منتقل ہوتے ہیں۔ یہ امیر ملکوں کے وہ سرمایہ کار ہیں جو بنگلہ دیش کی غربت سے فائدہ اٹھا نے کیلئے وہاں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور پھر بنگلہ دیش کے " معاشی اشاریوں "کو تھوڑی دیرکیلئے مضبوط کر نے کے بعد سرمایہ اپنے ملک واپس لے جاتے ہیں۔ یہ ہے اس سوال کا جواب کہ" اتنی بڑی" معاشی ترقی کے باوجود دو کروڑ غریب بنگالی بھارت میں مزدوری کیلئے کیوں گئے اور بیس لاکھ بنگلہ دیشی عورتیں دنیا کے بازاروں میں کیوں بکیں۔
سیکولر لبرل دانشوروں کو اس بات کی بھی بہت خوشی ہے کہ بنگلہ دیش نے پاکستان کا پرچم بلند کرنیوالے اور 1971ء میں متحدہ پاکستان کا ساتھ دینے والے جماعت اسلامی کے مطیع الرحمان نظامی، عبدالقادر ملا، علی احسن مجاہد، میر قاسم اور قمر الزمان کو پھانسی دی۔ یہ وہ عظیم شہیدتھے جنہوں نے کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والے ایک ملک پاکستان کا ساتھ دیا اور بھارتی مدد سے چلنے والی سیکولر قوم پرستی کی تحریک "مکتی باہنی "کے سامنے سینہ سپر ہو ئے۔ جو لوگ انکی موت پر خوش ہوئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی شہادت بنگلہ دیش کی مذہب سے آزادی کی علامت ہے، انہیں ایک لمحے کو سوچنا چاہیے کہ اگر خدانخواستہ بنگلہ دیش والی حالت سوات اور وزیرستان میں پیدا ہو گئی تو پھر کیا وہ ان تمام صحافیوں، سیاستدانوں اور دانشوروں کوبھی پھانسی دینے کی سفارش کرینگے، جنہوں نے سوات اور وزیرستان آپریشن کا ساتھ دیا۔
ویسے بھی "لا الہ الا للہ" پر قائم ہونیوالے ملک کیلئے جان دینے والے یہ عظیم شہید، ان تمام وطن فروشوں سے بہت افضل ہیں، جنہوں نے پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم میں انگریز سرکار کے دفاع کیلئے جانیں دیں اور سینوں پر "وکٹوریہ کراس" سجایا۔ یہ چکوال کے صوبیدار خدائیداد خان، تیرا کے صوبیدار میر دوست، راولپنڈی کے صوبیدار شمشاد خان جیسے لاتعداد، وکٹوریہ کراس حاصل کرنیوالے لوگوں سے عظیم ہیں۔ سرفروشوں کا یہ قافلہ شہداء تو فیض احمد فیض جیسے انقلابی سے بھی عظیم ہے کہ جس نے روس اور کیمونزم کے برطانیہ کیساتھ اتحاد کے بعد ہٹلر کے خلاف لڑنے کیلئے برطانوی فوج کے محکمہ تعلقات عامہ میں کرنل کی نوکری اختیار کر لی تھی۔ (ختم شد)