وہ پاکستانی جو صبح سویرے تلاش رزق میں نکلتے ہیں، شام گئے گھر لوٹتے ہیں تو ان کے سامنے دو درجن سے زیادہ ٹیلی ویژن چینلوں پر بیٹھے ہوئے اینکرز دن بھر کی خبروں، واقعات، سانحات اور گرمجوش بیانات پر دھواں دھار پروگرام کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی چینل یا پروگرام پر یوں لگتا ہے پاکستان معاشی، عسکری اور مالیاتی طور پر ڈوب چکا ہے، گہری قبر میں دفنایا جا چکا ہے بس اعلان ہونا باقی ہے۔
کوئی پکارتا ہے ابھی نبض چل رہی ہے، سانس باقی ہے، مصنوعی تنفس دیا جارہا ہے، امید رکھنی چاہیے کہ اس کے تن مردہ میں جان آ جائے گی۔ بہت کم اور شاید بہت ہی کم ایسے پروگرام ہیں جو کوئی خوشی کی نوید سنائیں، حالات بدلنے کی خوشخبری دیں یا پھر کم از کم ملک کے تھکے ہارے عوام کو رات کے اس پہر میں امید کے سپنے دکھا کر ہی سکون کی نیند عطا کردیں۔ امن، سکون، اطمینان، ترقی، خوشحالی اور بہتری کا چورن میڈیا کی دکان پر نہیں بکتا۔
عموماً اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ لوگوں کوصرف منفی خبروں سے دلچسپی ہوتی ہے، وہ صرف سکینڈل سننا چاہتے ہیں اور انہیں صرف تباہی و بربادی اچھی لگتی ہے۔ پوری دنیا کے دوسو کے قریب ممالک میں لیکن ایسا رونا صرف پاکستان اور بھارت کا میڈیا ہی روتا ہے۔ اس لئے کہ ان دونوں کا خمیر جس مٹی سے اٹھا ہے اس میں غیبت، چغل خوری، جھوٹ، افتراء، بلا ثبوت الزام اور کردار کشی کا مرض مدتوں سے چلا آرہا ہے۔
سیاسی اور مذہبی لیڈروں کی تقریریں اٹھا کر دیکھ لیں، آج سے سو سال پہلے بھی ہمارے مذہبی رہنما اور سیاسی لیڈر اپنی تقریر کے مرکزی جذباتی نکتے کو اپنے مخالف کی کردار کشی سے عبارت لکھتے تھے۔ فلاں جاہل ہے تو فلاں کا خاندان نچلے درجے کا ہے۔ اس مخالف کی ذات اور خاندان والوں کے اخلاقی کردار میں یہ برائیاں ہیں، تو فلاں مخالف کا باپ کیسی عبرت ناک موت کا شکار ہوا تھا۔ یہی نہیں بلکہ کتابوں کا ایک سلسلہ ہے جو ایک دوسرے کی کردار کشی پر مبنی ہے۔ ان تقریروں، کتابوں، اخباری مضامین اور علمی کہلائے جانے والے رسالہ جات میں اسقدر جھوٹ، افتراء اور کذب بیانی ہے کہ طبیعت متلانے رکھتی ہے۔ ان کتابوں کو بار بار چھاپا جاتا ہے۔
مذہبی جلسوں میں لہرا لہرا کر دکھایا جاتا ہے گلے پھاڑ پھاڑ کر مخالف کی توہین کی جاتی ہے اور اگرانکو کبھی اخبار میں مضمون لکھنے کا موقع میسر آجائے یا ٹیلی ویژن کے کسی پروگرام میں گفتگو کے لیے بلا لیے جائیں تو نفرت کے بیوپاری، یہ مذہبی و سیاسی رہنما اور عالم و دانشور اپنا سارا زورِ بیان اپنے مخالفین کے آباواجداد، ابدی نیند سوئے ہوئے رہنما و لیڈران اور صدیوں پہلے کتابیں تحریر کرنے والوں کی کردارکشی پر خرچ کرتے ہیں۔
اسی خمیر سے پاکستان کی سیاست اور پاکستان کے میڈیا نے جنم لیا ہے۔ غیبت ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا "ٹائم پاس" یعنی فارغ وقت کاٹنے اور محفل بازی کا ذریعہ ہے۔ ہم گلیوں، چوراہوں، گاؤں کے داروں، اور چائے خانوں کے کونوں میں جمع ہو کر صرف اور صرف مزیدار، چسکے دار غیبت کر رہے ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کے دفاتر میں ترقی کا معیار کسی حد تک کارکردگی اور باس کی خوشامد کا آمیزہ ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں کارکردگی کی بجائے خوشامد اور غیبت کارکردگی کا پیمانہ بن چکی ہے اور یہی ترقی کا زینہ بھی ہے۔
گذشتہ چالیس برسوں سے اس غیبت نے اسقدر سرکاری پذیرائی حاصل کی ہے کہ اب یہ کسی سیاسی لیڈر، مذہبی رہنما، سرکاری ملازم یہاں تک کہ عسکری اداروں کے افراد کی کردار کشی سے لے کر انکی ترقی کا پیمانہ بھی تصور ہوتی ہے۔ جس ملک میں پچاس سال پہلے ایک محدود سی خفیہ ایجنسی ہوا کرتی تھی، جس کا کام جرائم پیشہ افراد، چوروں، قاتلوں اور ڈاکوؤں کے بارے میں معلومات حاصل کرکے مقامی پولیس اور انتظامیہ کو فراہم کرنا تھا یا پھر دوسرا کام یہ تھا کہ انگریز حکومت کے خلاف جو بغاوت کی تحریکیں منظم ہورہی ہیں، شاعری لکھی جارہی ہے یا تقریریں اور کارنر میٹنگ وغیرہ ہوتی ہیں ان کی خبر رکھنا ہے۔
کم از کم دو درجن کے قریب ہے ایسے ادارے وجود میں آچکے ہیں جو ہر اس شخص کی ذاتی زندگی کے بار ے میں معلومات اکٹھا کرتے ہیں، جو تھوڑی بہت اہمیت اس پاکستانی معاشرے میں رکھتا ہے۔ ان میں سیاستدان، بیوروکریٹس، مساجد کے علمائ، بزنس مین، عسکری اداروں کے ملازم، این جی اوز اور رفاہی اداروں کے سرکردہ افراد یہاں تک کہ مقبول شاعر اور ادیب بھی شامل ہیں۔ ان اداروں کی رپورٹس بے شمار جگہ استعمال ہوتی ہیں۔ لیکن ان کا سب سے خطرناک استعمال سرکاری ملازمین کی ترقی و کیریئر پلاننگ میں کیا جاتا ہے۔ ایک شخص کی پچیس سال کی نوکری ایک معمولی سے اہلکار کی رپورٹ کی بنیاد پر داؤ پر لگ جاتی ہے۔ ان رپورٹوں کے ساتھ نہ تو کوئی ثبوت منسلک ہوتے ہیں اور نہ ہی ایسے شواہد جن کی بنیاد پر آفیسر یا اہلکار کو عدالت میں پیش کیا جاسکے۔
ضیاء الحق کے زمانے میں جب ان رپورٹس پر انحصار بڑھا تو افسران کی شخصیت تباہ کرنے کے لیے دو لفظ عام ہوئے(1) عورتوں کا رسیا (womenizer) اور (2) شراب میں دھت (Drunkened)۔ کسی کی شخصیت اور کیرئیر کو تباہ کرنے کے لیے لئے یہ دو لفظ کافی تھے۔ پھر جب حالات یہ ہوں کہ حکومتی سطح پر اسلام کا بول بالا ضروری ہے تو ایسے "مکروہ "لوگوں کی ترقی تو قومی مفادات کے خلاف تھی۔ اسی طرح ایسی تمام رپورٹوں، یہاں تک کہ لوگوں کی سالانہ کارکردگی رپورٹ (ACRS) میں دو ایسے خانے رکھ دیئے گئے جو کسی کی نوکری تباہ کرنے کے لیے کافی تھے۔
پہلا خانہ تھا بددیانت "Corrupt" جبکہ دوسرا خانہ تھا بددیانتی کی شہرت رکھنے والا "Reported to be corrupt"۔ چالاک اور ہوشیار افسران اور خفیہ ایجنسیوں والے پہلے خانے میں"ٹک" نہیں لگاتے تھے کہ کل کو کوئی ثبوت نہ مانگ لے، لیکن دوسرے خانے میں دیدہ دلیری کے ساتھ "ٹک" لگا کر جس کا کیریئر چاہے تباہ کردیتے۔ یہی وہ ہتھیار تھا جسے گذشتہ چالیس سال سے ہر سیاستدان حکمران اور فوجی فرمانروا نے بے خوفی سے استعمال کیااور ان کے خلاف استعمال بھی ہوا۔
انہیں دو درجن کے قریب خفیہ ایجنسیوں سے ایک اور لفظ ایجاد ہوا جسے میڈیا کی دنیا میں عرف عام میں"ذرائع" کہا جاتا ہے۔ آپ ایک لفظ "ذرائع" یا پھر "باخبر ذرائع" استعمال کریں اور پھر جو چاہے تحریر کردیں، جو چاہے بول دیں۔ دنیا کی ہر خفیہ رپورٹ اس طرح شروع ہوتی ہے " بذریعہ سورس معلوم ہوا ہے"، اورلکھنے والے سے کوئی سورس کے بارے دریافت نہیں کرتا۔ اسی طرح میڈیا نے ایک اخلاقی ضابطہ بنا دیا ہے کہ صحافی اپنا سورس نہیں بتاتا۔ یہ ضابطہء اخلاق عالمی ہے جو میڈیا کے لیے بھی ہے اور خفیہ ایجنسیوں کے لیے بھی۔
میڈیا کی معتبر ذرائع کی اطلاع اور ایجنسیوں کی سورس رپورٹ، انہی دونوں کی بنیاد پر آج کے جدید معاشرے کی عمارت استوار ہے۔ وہ عظیم گناہ جس کے بارے میں اللہ فرماتا ہے " اور کسی کی ٹوہ میں نہ لگے رہو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں سے کوئی پسند کرے گا کہ وہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے، اس سے تو تم خود نفرت کرتے ہو (الحجرات 12)۔
ٹوہ میں لگے رہنا، عیب ڈھونڈنا اور بذریعہ سورس یا ذرائع سے سرکاری سطح پر یا میڈیا میں سرعام اس کا اعلان کرنا آج کاروبار زندگی ہے۔ اکثریت کے لیے لذت کا باعث بھی ہے اور بیان کرنے والے کے لیے ریٹنگ کا ذریعہ بھی۔ ایسی عمارت اگر اللہ کے غضب سے کسی دن دھڑام سے گرجائے تو حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔