کسی زبان میں مروّج کسی لفظ یا محاورے کا کسی دوسری زبان میں مناسب نعم البدل تلاش کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ عموما ًاس سے ملتے جلتے لفظ اور محاورے ہی میسر آتے ہیں۔ پاکستان کے انتظامی ڈھانچے کے ساتھ ایک انگریزی لفظ چپک کر رہ گیا ہے جسے "Status quo" کہتے ہیں۔ اب تو یار لوگ اسے اردو میں بھی "سٹیٹس کو" ہی تحریر کرتے ہیں۔
یوں تو یہ لفظ لاطینی زبان کا ہے جسے انگریزوں نے بھی ترجمہ کرنے کی بجائے صحیح سالم اپنی زبان کا حصہ بنا لیا ہے لیکن اردو میں جو ترجمے کیے گئے ہیں ان میں ایک ترجمہ اس قدر خوب ہے کہ اصل لفظ "سٹیٹس کو" سے زیادہ بہتر تفہیم ہوتی ہے اور پاکستانی معاشرے کے حساب سے زیادہ وضاحت کے ساتھ صورتحال نظر آتی ہے۔
اس کا ترجمہ "حالت جوں کی توں" کیا گیا ہے۔ یہ فقرہ پاکستان کے انتظامی ڈھانچے اور بیوروکریسی پر اس قدر خوبصورتی سے چسپاں ہوتا ہے کہ پورے نظام کی تشریح کے لیے کسی دوسرے لفظ کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ یہ ڈھائی سو سال پر محیط کہانی ہے۔
1773 میں جب برطانوی پارلیمنٹ کو یہ خبر ملی کہ برطانوی بنگال میں سیاسی اشرافیہ کی ملی بھگت اور آشیرباد سے ایسٹ انڈیا کمپنی میں بہت زیادہ کرپشن ہوگئی ہے تو انہوں نے "انڈین ریگولیشن ایکٹ" پاس کیا اور ہندوستان میں ایک گورنر جنرل مقرر کردیا۔ وارن ہیٹنگ پہلا گورنر جنرل آیا اور اس نے حالات بہتر کرنے کی کوشش کی۔
حکمرانی کے اصولوں پر مرتب قوانین کا کتابچہ تیار کیا، جسے 1784 میں "دی انڈیا ایکٹ" کے طور پر منظور کر لیا گیا۔ لیکن 1786 میں آنے والا لارڈ کارنیوالس وہ شخص تھا جس نے دراصل اس سول سروس کیبنیاد رکھی۔ اور اسے دو واضح برانچوں میں تقسیم کردیا۔ ایک سیاسی جو سول انتظامیہ پر مشتمل تھی اور دوسری معاشی سرگرمیوں کے متعلق تھی۔ اس وقت تک تمام افسران گورے تھے، لیکن 1857 میں جنگ آزادی کے بعد انگریز کو احساس ہوا کہ مقامی افسران کو اگر اپنے ساتھ شریک نہ کیا گیا تو دوسرا غدر بھی پرپا ہو سکتا ہے۔
1858 میں ہندوستانی "محکوموں" کو بھی حاکموں کی فہرست میں شامل کیا جانے لگا۔ 1914 تک ان مقامی افسران کی تعداد صرف 5 فیصد تھی، لیکن جب انگریز ہندوستان چھوڑ کر گیا تو ہندوستانی افسران کی تعداد 597 اور انگریز افسروں کی تعداد 588 تھی۔ یہ 597 وہ تھے جنہیں انگریز "ناریل" کہتا تھا یعنی یہ اندر سے گورے ہیں اور باہر سے "گندم گوں"۔
ان افسران کو ایچی سن، سول سروس اکیڈمی اور آکسفورڈ سے جہاں انگریزی تہذیب واقدار کی تربیت ملی تھی وہاں برطانوی اقتدار کے استحکام کے لئے ایک لفظ رٹایا گیا تھا، "سٹیٹس کو" یعنی "حالت جوں کی توں" رہنی چاہیے۔ کوئی تبدیلی، انقلاب، تحریک، حرکت، انگریز حکومت، معاشرے اور انتظامیہ دونوں کیلئے طوفان کھڑا کر سکتی ہے اور انگریز اقتدار کو متزلزل بھی۔ یہ حالت "جوں کی توں" آج تک قائم ہے۔
ہزاروں طوفان آئے، حکومتیں بدلیں، مارشل لا آئے، ذوالفقارعلی بھٹو کی شدید خواہش اور اس کے خصوصی معاون وقار احمد کی پوری کوشش، پرویز مشرف کی آرزو اور جنرل تنویر نقوی کی پوری جدوجہد نے، اس سول سروس کی عمارت کے در و دیوار ہلا کر رکھ دیے، شکل بگاڑ دی، نام، پتہ، عہدہ، مرتبہ سب غارت کر دیئے گئے لیکن آج پوری کی پوری سول سروس ویسی کی ویسی زندہ وجودرکھتی ہے، جیسی اس کو تخلیق کرنے والے اذہان نے 1786ء میں تخلیق کیا تھا۔
ایوب خان کے دور میں قائم ہونے والے بیورو آف نیشنل ری کنسٹرکشن اور اس کے بریگیڈیئر ایف آر خان کے حملوں سے لے کر یحییٰ خان کے303 افسران کو برطرف کرنے، ذوالفقارعلی بھٹو کے چودہ سو افسران کو ذلت کے ساتھ نوکری سے نکالنے، نام، مقام ومرتبہ چھیننے، پرویز مشرف کے جنرل تنویر نقوی کی سربراہی میں بننے والے نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو کے ذریعے مقامی ناظموں کے ہاتھوں ان کو ذلت کا تاج پہنا نے کے باوجود اگر یہ سول سروس آج بھی واپس اپنے اصل کی طرف لوٹ چکی ہے تو عمران خان سے کیا امید لگائی جاسکتی ہے جس نے آتے ہی اس سروس کو تبدیل کرنے اور اسے انقلابی بنانے کا مشیر ڈاکٹر عشرت حسین کو مقرر کیا ہے جو گذشتہ پندرہ سالوں سے اسی سول سروسز کو بہتر بنانے کے لئے سفارشات مرتب کرنے کا کام کرتے چلے آرہے ہیں۔
سول سروس تو بہتر نہ ہوسکی لیکن ان کی کتابوں اور تحقیقی مقالوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ اور تو کوئی فیض نہیں ہے تجھ سے بے حاصل بے مہرانشا جی سے نظمیں، غزلیں، گیت، کبت لکھوائی جاسول سروس سے اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے عشرت حسین جو کبھی اپنے بائیو ڈیٹا میں انتظامی تجربے کے طور پر "ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جہلم"بڑے جلی حروف میں لکھا کرتے تھے لیکن کارپوریٹ کلچر کی وجہ سے اب ان کا تعارف ہی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے شروع ہوتا ہے۔ ورلڈ بینک میں ان کے تجربے پر نظر دوڑائیے۔
وہ نائجیریا جیسے ملک میں بینک کے نمائندے تھے، ایسا ملک جو تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کی وجہ سے انہی معاشی جادوگروں کی وجہ سے قرضوں میں ڈوبا، افریقہ کے لیے چیف اکانومسٹ مقرر ہوئے اور پھر مشرق بعید کے لیے اور اس کے بعد ورلڈ بینک کے غربت کے خاتمے اور سماجی ترقی کے پروگرام کے ڈائریکٹر ہو گئے۔
جان پرکنز کی کتاب "confessions of an Economic Hitman"یاد آتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کیسے ورلڈ بینک کے یہ معاشی جادوگر ملک کی معیشتوں کو قرضوں میں جکڑ کر گروی رکھ لیتے ہیں۔ عشرت حسین خوبصورت لکھتے ہیں۔ سول سروس کے لٹنے اور ملک کے تباہ ہونے کا نوحہ پڑھتے ہیں، معاشی حالت اور انتظامی بد حالی کا مرثیہ سناتے ہیں، پھر اس کے بعد سول سروس کی عظمت رفتہ میں کھو جاتے ہیں۔
ان کی پٹاری میں بہت کچھ ہے لیکن سب کا سب لارڈ کارنیوالس کی بنیاد، لارڈ ونرلی کے فورٹ ولیم کالج کی تربیت، میکالے کمیٹی کے سول سروس کے قوانین اور ایچیسن کمیشن کے مہیا کردہ جدید ڈھانچے سے مستعار بھی ہے اور اس کی طرف لوٹ جانے کی شدید خواہش بھی لیے ہوئے۔ عمران خان صاحب کی میز پر اگر عشرت حسین کی کتاب Governing the ungovernableموجود ہے تو پھر ان کی میز پر 1959 میں بننے والے جسٹس کارنیلس کی رپورٹ کو بھی موجود ہونا چاہیے جس کی سفارشات نے پہلی دفعہ سول سروس کے "سٹیٹس کو" کو بدلنے کی بات کی تھی۔
رپورٹ 1962 میں آئی تھی اور اس وقت تک سول سروس ایوب خان کو اپنے شیشے میں اتار چکی تھی، اسی لیے یہ رپورٹ ردّی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی اور سول سروس کی محبوبہ ایوب خان کے دل پر راج کرنے لگی۔ اب تو سول سروس نے اپنے ہر آنے والے عشاق کو رجھانے اور لبھانے کے فن میں مہارت حاصل کر لی ہے۔
سیاستدان ہوں یا جرنیل، نمازی ہو یا شرابی، بددیانت ہو یا ایماندار، بیوروکریسی اپنے تمام عشوے اور نازو ادا اس کی مرضی کے مطابق اختیار کر لیتی ہے اور ان کے دل کی ملکہ بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی جتنا بھی ان کو بدلنا چاہے، الاسٹک کی طرح ان کو کھینچ کر میلوں دور لے جائے، ذرا سی گرفت ڈھیلی کرو یہ واپس اپنی اصل پر لوٹ آتی ہے اور اب تو انہوں نے یہ ہنر بھی سیکھ لیا ہے کہ گرفت ڈھیلی کیسے کرواتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پانچ سال تک خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ کام کرنے والوں کا گروہ بالکل بے نظیر، زرداری اور نواز شریف کے بیوروکریٹ گروہوں کی طرح اب ابھر کر"عمران خان کے ہمرکاب"کے طور پر سامنے آیا ہے اور اس گروہ نے اپنی مرضی کے بیورو کریٹس کو پورے سسٹم میں پھیلانا بھی شروع کردیا ہے۔
عمران خان صاحب کو اس بات کا الاؤنس تو دیا جا سکتا ہے کہ وہ صرف انہی افسران کو جانتے ہیں جنہوں نے ان کے ساتھ خیبر پختونخواہ میں کام کیا ہے، لیکن اب ان کی رفاقت کو وہیں چھوڑ دینا بہتر ہوگا۔ اس طرح وفا داریوں کا یہ آغاز بھی سول سروس میں ایک نئے گروپ کو جنم دے سکتا ہے اور یہ تاثر بہت خطرناک ہو گا۔
گذشتہ تیس سالوں میں یہی ہوا ہے کہ ایک گروہ نے بے نظیر زرداری اور دوسرے نے نواز شریف کو شیشے میں اتارا، ان کے قریب ہوئے اور پھر خود کو بیوروکریسی میں مضبوط کرلیا۔ پاکستان کا کوئی سول سروس کا آفیسر اس قدر نااہل نہیں ہوتا جیسے یہ گروہ اپنے مخالفوں کے بارے میں حکمرانوں کو تاثر دیتے ہیں اور انہیں دور کرتے ہیں، کھڈے لائن لگاتے ہیں۔ یہ بیوروکریسی میں اپنے وفادار بناتے ہیں اور انہیں حکمرانوں کے مفادات کا سپاہی بنا کر پیش کرتے ہیں۔
یہ تاثر اگر آہستہ آہستہ مضبوط ہوگیا تو پھر عمران خان صاحب! آپ بیوروکریسی کے ایک ایسے قلعے میں قید ہو جائیں گے جس کے دروازوں پر آپ کے منظور نظر افراد تیر کمانیں لے کر کھڑے ہوں گے۔ اس حصار سے نکلنے کا پہلا راستہ "سٹیٹس کو" توڑنا ہے اور وہ راستہ سول سروس کے امتحان کو اردو میں کرنے اور دفتری کاروبار کو اردو میں چلانے سے شروع ہوتا ہے۔ آپ یہ حکم دے کر دیکھیں کیسے "سٹیٹس کو" کے نگہبان آپ پر برس پڑیں گے۔
اگر یہ پہلا قدم ہی نہ اٹھایا گیا تو باقی سب بیکار ہے۔ کچھ عرصے بعد لوگ باتیں کرنے لگیں گے کہ وہ زرداری کا سول سروسز گروپ تھا، پھر نواز شریف کا تھا اور اب یہ عمران خان کاگروہ ہے۔ اس وقت اور انجام سے بچنے کی تدبیر کرو۔ ورنہ سب خسارہ ہے۔