کیا یہ سب کچھ حادثاتی طور پر ہو رہا ہے۔ آپ کسی بھی جدید علوم کے ماہر اور حالات حاضرہ کے نقطہ رس سے سوال کریں تو وہ یہی جواب دے گا کہ سائنسی علوم ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں اور روز سینکڑوں کے حساب سے نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔
انسانوں کی غالب اکثریت ہر روز وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو ایک معمول کا واقعہ بھی سمجھتی ہے اور ترقی کی اگلی منزل بھی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کسی بیماری پر قابو پا لے، کسی مرض کا علاج دریافت کر لے، کسی نئی ٹیکنالوجی میں کمال کے درجے پر پہنچ جائیں یا پھر کوئی طاقتور ہتھیار ایجاد کرلے، لوگ اسے ایک معمول کی خبر سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر اس سب کچھ کو بالکل اس کے الٹ کے طور پر دیکھیں کہ ہم جسقدر بھی ترقی کرتے جا رہے ہیں، اسی قدر یہ دنیا اپنی تباہی اور مکمل بربادی کی جانب بڑھتی جا رہی ہے تو ہماری سانس رک جائے۔
ہماری اس دنیا کو سید الانبیاء ﷺ نے کس خوبصورت استعارے کے ساتھ بیان کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا "دنیا ایک دریدہ لباس ہے جو ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھٹ چکا ہے اور اب صرف ایک دھاگے کے سہارے لٹکا ہوا ہے جو بہت جلد ٹوٹ جائے گا (سنن بیہقی)۔
اس زوال پذیر اور آخری انجام کی طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی دنیا کی اس سے خوبصورت تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔ چند دن پہلے یعنی 28 مارچ کو ہونیوالا یہ واقعہ کہ بھارت نے خلا میں اپنا ایک میزائل بھیجا، جو تین سو کلو میٹر بلند ہوا اور اس نے وہاں خلاء میں موجود ایک سیٹلائٹ کو تباہ کر دیا، ان دنوں دنیا بھر کے میڈیا میں زیر بحث ہے۔
عالمی حالات حاضرہ کے تناظر میں یہ صرف ہتھیاروں کی ایک دوڑ ہے جس میں بھارت نے چین کو خبردار کیا ہے کہ وہ بھی اب خلائی جنگ میں داخل ہوگیا ہے۔ آج سے تقریبا بارہ سال قبل چین کا موسم کا حال بتانے والا سیٹلائٹ جو تقریبا 865 کلو میٹر کی بلندی پر محو خرام تھا، خراب ہوگیا تو چین نے ویسا ہی سیٹلائیٹ نما میزائل جو آٹھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتا تھا اسکو خلا میں بھیجا، وہ اس سے ٹکرایا اور خراب سیٹلائٹ تباہ ہوگیا۔ اسکو Kinetic kill vehicle(حرکی تباہ کن گاڑی) کہا گیا۔
11 جنوری 2007ء کو جب یہ تجربہ ہوا تو دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ اسوقت تک صرف امریکہ کو ہی یہ عروج حاصل تھا۔ امریکہ نے ایسا تجربہ دسمبر 1985ء میں کیا تھا، مگر اسکے فورا بعد امریکہ نے ایسے تجربوں پر مکمل طور پر پابندی لگا دی تا کہ کہیں دوسرے ممالک اس دوڑ میں شریک نہ ہو جائیں، اور اس دوڑ کے نتیجے میں خلا پر امریکی برتری مکمل طور پر ختم نہ ہو جائے۔ خلا کی برتری ہی دراصل اس دنیا کے کاروبار پر کنٹرول کا نام ہے اور اسکی تباہی پر اختیار ہی اصل برتری ہے۔ اسوقت پوری دنیا کا نظام کار خلاء میں موجود سیٹلائٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔
بنکوں سے روپیہ نکالنے، جہاز کے ٹکٹ بک کرنے، ویب سائٹ پر خرید و فروخت کرنے سے لیکر ریل گاڑیوں، کاروں، جہازوں، کشتیوں اور دیگر ذرائع آمدورفت کو ہر لمحہ خلاء میں موجود سیٹلائٹ ہی رہنمائی کر رہے ہوتے ہیں۔ سارے کے سارے ٹیلی ویژن چینل، موبائل فون، بینکاری نظام انہی خلائی سیٹلائٹ کے مکمل محتاج ہیں۔
ایک میزائل اگر کسی مخصوص سیٹلائٹ کو تباہ کر دے تو اس سے منسلک تمام ٹیلی ویژن چینلز کی نشریات رک جائیں گی، تمام موبائل فون کام کرنا بند کر دیں گے، ہوائی جہازوں کا نیوی گیشن سسٹم بند ہو جائے گا اور اس علاقے کی دنیا بالکل جامد و ساکت ہو کر رہ جائے گی۔ لیکن جو لوگ قرآن اور سید الانبیاء ﷺ کی احادیث کی روشنی میں اپنے آج اور کل کے حالات کو پرکھتے ہیں، ان کے نزدیک یہ بالکل ایک حادثاتی عمل نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اس آخری خیر و شر کے معرکے کی جانب بڑھنے کی تیاریاں ہیں جو حزب اللہ اور حزب الشیاطین کے درمیان برپا ہونے والا ہے۔
یہ دنیا اپنے انجام کی منازل تیزی سے طے کررہی ہے اور اس کا آغاز 1920 کے آس پاس اسوقت ہوا تھا جب قرآن پاک کی سورۃ الانبیاء ﷺ کی اس آیت کے اسرار کھلنے لگے تھے۔ "ایک بستی کو ہم نے تباہ کر دیا تھا اور پابندی لگا دی تھی کہ اس شہر کے لوگ کبھی وہاں واپس نہ آسکیں گے، اسوقت آئیں گے جب یاجوج ماجوج رہا کر دیے جائیں گے اور وہ دنیا میں بلندیوں سے آکر پھیل جائیں گے (انبیاء: 96، 95)۔
اس آیت میں یہودیوں کے شہر یروشلم کا ذکر ہے۔ یہ بستی 70 عیسوی میں رومن افواج کے ہاتھوں تباہ ہوئی تھی اور یہودی وہاں سے دربدر کر دیے گئے تھے، لیکن ٹھیک 1850ء سال کے بعد وہ 1920ء کے آس پاس بحر طبریہ عبور کرکے یروشلم میں داخل ہوئے۔ یہ وہ دور تھا، جب دنیا میں جدید مغربی تہذیب اپنا تسلط قائم کرنے کی پہلی منزل پر تھی۔ بینکاری نظام، کاغذی کرنسی، قومی ریاستیں، جمہوریت، عورت کی آزادی، مذہب سے فرار اور انسان عظیم ہے خدایا کی علمبردار یہ تہذیب اپنے پنجے گاڑے چکی تھی۔ عالمی مالیاتی، سیاسی اور معاشرتی نظام مستحکم کر دیا گیا تھا۔
یروشلم میں یہودیوں کی واپسی قرآن کے مطابق یاجوج اور ماجوج کے کھلنے سے مشروط تھی۔ اسی لئے جنہیں اللہ نے بصیرت دی تھی انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ یاجوج ماجوج اس جدید مغربی تہذیب کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں قرآن پاک کے غواص اور رمز آشنائے رسولﷺ، علامہ اقبال نے اس آیت کے مطالب سمجھتے ہوے فرمایاکھل گئے یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمامچشمِ مسلم دیکھ لے تفسیرِ حرفِ ینسلونیاجوج ماجوج کے حوالے سے، زمین پر قبضہ سے لیکر خلاؤں کی جنگ تک کون سی ایسی بات ہے جو میرے آقا، مخبر صادق ﷺ نے ہمیں نہ بتائی ہو۔
یاجوج اور ماجوج کے زمین پر غلبے کے بارے میں اور پھر انکی آخری جنگ کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا۔ ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ "یاجوج ماجوج جو کچھ بھی زمین میں ہوگا، سب کو ہلاک کردیں گے، سوائے ان لوگوں کے جو قلعوں میں بند ہوں گے۔ جب وہ زمین والوں سے فارغ ہوں گے تو آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے بے شک اب وہ لوگ باقی بچے ہیں جو قلعوں میں ہیں یا پھر جو آسمان میں ہیں۔ بس وہ اپنے تیر آسمان کی طرف چلائیں گے۔ وہ تیر خون سے رنگین واپس ان پر گریں گے تو وہ کہیں گے، اب تمہیں آسمان والوں سے نجات مل گئی، صرف قلعے والے باقی رہ گئے (ابنِ ماجہ)۔
یہ قلعے والے کون ہوں گے۔ یہ مسلمان ہونگے۔ دوسری روایت ہے، "یاجوج ماجوج ساری زمین میں پھیل جائیں گے اور مسلمان اپنے شہروں اور قلعوں میں چلے جائیں گے" (ابنِ ماجہ)۔ اللہ اور اسکے رسول نے اسقدر کھول کر اس دورِ فتن کے بارے میں ہمیں اس لئے بتا دیا کہ اس دور کے فتنوں میں یہ بھی شامل ہے کہ مسلمان ان فتنوں کو سائنس کی فتح، ٹیکنالوجی کا عروج اور انسان کی عظمت سمجھ کر غفلت کا شکار ہونگے اور جدید تہذیب مغرب کے دجالی نظام کوہی اپنا نجات دہندہ تصور کر لیں گے۔
یہی تو وہ کفر ہوگا، یہی وہ گمراہی ہوگی، یہی دجال کا جال ہوگا۔ یہ ترقی نہیں، یہ تو سب اس دنیاکے انجام کا سامان اکٹھا ہو رہا ہے۔