Wednesday, 27 November 2024
  1. Home/
  2. Orya Maqbool Jan/
  3. Corona Mein Ghar Ki Az Sar Nao Shiraza Bandi

Corona Mein Ghar Ki Az Sar Nao Shiraza Bandi

مدتوں بعد انسانی زندگی میں ٹھہراؤ، سکوت اورخاموشی کا حسن لوٹ آیا ہے۔ وہ جو روزمرہ کی تیز رفتاری کے عادی تھے، جن کے شیڈول میں فرصت نام کی کوئی گھڑی نہ تھی، ٹریفک کے ہنگاموں پر سیخ پا ہوتے ہوئے، ہر کسی سے معاملات طے کرتے، گفتگو کرتے یا سر پٹھول کرتے، لیکن پورا دن اسی ادھیڑ بن میں گزار کر رات کو تھک ہار کر اپنے بستر پر دراز ہو جاتے، الارم لگاتے اور پھر اگلے دن صبح سویرے سے ہی اسی مصروفیت میں جُت جاتے۔ گذشتہ تین ماہ سے بڑے شہروں کے نشے کے عادی ان باسیوں کی زندگیاں اب جیسے بالکل رک سی گئی ہیں۔ وہ گھر جہاں دیر سے لوٹنے کے لیے وہ سو سو بہانے تلاش کرتے تھے، دوستوں کی محفل میں بیٹھ گئے، کوئی اچھی فلم دیکھنے چلے گئے، کسی کافی شاپ یا "پب" میں وقت گزار لیا اور رات گئے دبے پاؤں گھر میں داخل ہوگئے۔ اب گھر ان آزاد پرندوں کا مسکن بن چکا ہے۔ جس خاندانی نظام کی بنیادوں کو توڑنے کی کوششیں ایک سو سال سے جاری تھیں، کرونا کے خوف نے اس بکھرتے ٹوٹتے ادارے کو پھر سے جوڑنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن اس واپسی کے سفر میں جس شخصیت کا بت دھڑام سے ٹوٹا ہے، وہ جدید کارپوریٹ تہذیب کی روح رواں اور مرکز نگاہ پیشہ ور خاتون (Professional Women) ہے۔ کرونا کے اس زوردار دھکے نے جب اس عورت کو گھر کے ماحول میں واپس بھیجا تو گھر کے افراد پر حیرت کے جہان کھل گئے۔ بچوں کو ماں، شوہروں کو بیویاں، بھائیوں کو بہنیں اور والدین کو بیٹیاں ہنستی مسکراتی زندگی میں رنگ بھرتی، اپنے اردگرد نظر آنے لگ گئیں۔ صدیوں سے انسان جس خاندانی زندگی میں جی رہا تھا وہ ایسی ہی خوشگوار تو تھی۔ مرد کا تعلق بیرونی دنیا سے تھا جہاں وہ دن رات محنت مشقت کر کے گھر والوں کے لیے آسائش خریدتا تھا اور عورت اس آسائش کو اپنے حسنِ انتظام سے گھر کے سکون، خوراک اور بچوں کی تعلیم و تربیت سے لے کر بزرگوں کی دیکھ بھال تک سب امور پر خرچ کرتی۔ یہ وہ قدیم گھرانے تھے جہاں سے بوعلی سینا، ابن الہیثم، فارابی، رومی، اقبال، میر، غالب، آئن سٹائن، فرائڈ، بیدی، منٹو، قائد اعظم، گاندھی سے لے کر صرف پچاس سال پہلے تک کے عظیم اور کامیاب انسان ان ماؤں نے تراش کر پوری دنیا کو تحفے میں دیئے تھے۔ اس خاتون خانہ کو گھر کے تصور میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ جدید کارپوریٹ تہذیب نے اسے وہاں سے اکھاڑا اور پیشہ ور زندگی کی دوڑ میں مرد کے شانہ بشانہ لاکر کھڑا کردیا گیا۔ اس اچانک تبدیلی کے نتیجے میں وہ بچے کس کے سپرد ہوئے، ان کی تربیت کس نے کی۔ ان کے جذباتی مسائل نفسیاتی الجھنوں کو کس نے حل کیا۔ یہ بہت بڑا سوال تھا جس کا حل گذشتہ ایک سو سال کی جدید تہذیب نے لاتعداد ادارے قائم کرکے ڈھونڈا۔

ایک پیشہ ور خاتون کی زندگی کا تصور ذہن میں لائیے جس کی دھوم دھام سے شادی ہوتی ہے اور وہ ایک ادارے یعنی گھر کی بنیاد رکھتی ہے۔ ایک مرکزِ محبت و تربیت کے مرکز کا آغاز کرتی ہے۔ اس پیشہ ور زندگی کی مصروف عورت کو اپنی شادی کی لذتوں سے آشنا ہونے کے لیے اتنی ہی دن ملتے ہیں جتنی چھٹیاں اس کے کریڈٹ میں ہوتی ہیں۔ وہ ان ایام کو گھر پر گزارے یا کہیں ہنی مون منانے چلی جائے اور پھر اپنی باقی مصروف زندگی میں ان چند دنوں کی تصاویر والے البم دیکھ کر دل بہلاتی رہی، آنسو بہاتی رہی اور افسوس کرتی رہے کہ اب تو اتنی فرصت بھی میسر نہیں کہ آدمی اپنے لئے چند لمحے نکال سکے۔ اس خاتون خانہ کو ایک پیشہ ور خاتون بنانے کے لیئے اور اسے خاندانی نظام کی الجھنوں اور ذمہ داریوں سے دور کرنے کے لیئے پورا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ پائلٹ خاتون، بزنس ایگزیکٹو عورت، عام سکول ٹیچر یا نرس، شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد جب ماں بنتی ہے تو اس کی اولاد کی پرورش کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے لاتعداد ادارے موجود ہیں۔ وہ اپنے نومولود بچے کو بے بی سنٹر کے حوالے کر سکتی ہے، ڈے کیئر سینٹر میں چھوڑ سکتی ہے یا اپنے ہی دفتر میں ایک علاقہ مخصوص کر سکتی ہے۔ جہاں اسی جیسی "ورکنگ وومن" کے بچے وقت گزارتے ہیں۔ ان بچوں میں اگر ماں سے علیحدگی یا عارضی دوری کی وجہ سے جذباتی یا نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں تو گذشتہ پچاس سالوں میں بچوں کے نفسیاتی معالجین (Child Psychologists) کی ایک کثیر تعداد موجود ہے جن کا رزق ہیں اس وجہ سے چلتا ہے کہ مائیں نوکریاں کرتی ہیں۔ ظاہر بات ہے یہ کامیاب ہونے کی دوڑ ہی ایسی ہے جس میں وقت کی کمی بہت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ اسی لئے پیشے کو قربان نہیں کیا جا سکتا، اس پر دوسرے امور نچھاور کیے جاتے ہیں، گھر کے دیگر افراد کو قربان کیا جاسکتا ہے۔ گھر کا کچن، باورچی خانہ جو کبھی خاتون کی سلطنت ہوا کرتا تھا، وہاں اب امیر گھروں میں تو خانساماں آجاتے ہیں اور یہ امیر گھر بھی صرف غریب ملکوں میں ہوتے ہیں، یورپ اور امریکہ میں تو خانساماں، ایک خواب ہے جس کی تعبیر ممکن نہیں ہوتی۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اور وقت کا شاندار استعمال کرنے کے لئے فاسٹ فوڈ کے ریستوران مغرب سے مشرق تک ہر ملک میں پھیلا دیے گئے ہیں۔ برگر، پیزا، چکن روسٹ، وغیرہ۔ ایک عورت خود بھی فاسٹ فوڈ ہاتھ میں لیتی ہے اور ساتھ بیٹھے میاں کو بھی دیتی ہے اور دونوں اپنے اپنے دفاتر جاتے ہوئے یہ فوری خوراک کھانے کے بعد کام میں لگ جاتے ہیں۔ لانڈری، ڈرائی کلینز وغیرہ کی سروسز نے عورت کے سر سے ایک اور بوجھ اتار دیا ہے۔ درزی سے ڈیزائنر تک کا ایک لمبا سفر ہے جو دنیا کے ہر ملک نے طے کیا ہے اور عورت کے ہاتھ سے کروشیا، سوئی دھاگہ اور سلائی مشین چھین کر ایک مکمل شعبے کا آغاز کیا گیا جواب دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے اور آج دنیا کے لاتعداد گھروں سے سلائی مشین جیسی فرسودہ چیز غائب ہوچکی ہے جو عورت کو عہد غلامی کی یاد دلاتی تھی۔ صدیوں سے عام بیماریوں کے لیے جو گھریلو نسخے سینہ بہ سینہ چلے آرہے تھے اور گھر کے ہر فرد کو بہت کم ڈاکٹر یا حکیم کے پاس جانا پڑتا تھا، ان کی جگہ اب قدیم نسخے بتانے والے ماہرین آچکے ہیں جو روزانہ ٹی وی پر یہ سب بتاتے ہیں۔ بچے کے رجحان کا مطالعہ کرنے اور اس کے کیریئر کی پلاننگ کے لیے مشاورت (Counciling) کے ماہرین کی دکانیں آباد ہو چکی ہیں۔ خاندان کی صحت کے لئے جو خوراک خاتونِ خانہ تیار کیا کرتی تھی۔ اب اس بھاری بوجھ سے اس کا تعلق ختم ہو چکا ہے۔ اس کی جگہ تو ماہرینِ غذائیت (Nutritionist) آچکے ہیں جو کلوریز چارٹ کے مطابق غذائیں تجویز کرتے ہیں۔ بوڑھوں کے مسائل کے حل کے لئے ڈاکٹرز ہیں، ان کے کلب ہیں اور اگر بہو یا بیٹا گھر سے نکال دے تو اولڈ ایج ہوم ہیں۔ بستر کی چادر اور تکیے سے لیکر ڈرائنگ روم کی زیبائش تک ہر کام اب خاتون کی سلطنت سے نکل کر بے شمار شعبوں کے ماہرین کے پاس چلا گیا ہے۔

اس ایک خاتونِ خانہ کو مرکزِ خاندان کی حیثیت سے نکال کر مرکزِ وسعتِ دنیا بنانے کے لیے درجنوں ادارے بنائے گئے اور اتنے ہی پیشے وجود میں آئے۔ اس لائف سٹائل کا عورت پر ایک اور کاری وار یہ ہے کہ ان سب کی پرموشن، اسی طرز زندگی کو اختیار کرنے کے لیئے عورت کوہی ہتھیار بنایا گیا۔ اس کی خوبصورتی کی چکا چوند کے گرد اشتہارات اور میڈیا کی دنیا آباد کی گئی۔ اس چکاچوند میں اس بیچاری کی آنکھیں ایسی چندھیائیں کہ انیس سال یعنی (Teens) تک وہ محبت کے گیت سنتی اور محبوب کے ساتھ گھر بسانے کے خواب دیکھتی ہے، لیکن اسے اپنے پیشہ وارانہ مقاصد اور آگے بڑھنے کی دوڑ میں الجھا کر اسے ایک کامیاب پائلٹ، ڈاکٹر، استاد، بزنس وومن کے میڈل سے آراستہ کردیا جاتا ہے اور اس سے ایک کامیاب لازوال ماں، شاندار محبوبہ بیوی، محبت کرنے والی بہن، اور خاندان پر نچھاور ہونے والی بیٹی کے میڈل سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ گذشتہ تین ماہ سے عورت کا یہ بازار حصص بند پڑا ہے۔ کاش اس دوران کسی کو واپس لوٹنے کا مکمل راستہ مل جائے۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran