لوگوں کے دلوں کو آتشِ عشقِ رسول ﷺ کی گرمی سے زندہ کرنے والا ہدی خوان چلا گیا۔ وہ جس نے برسوں بعد اس پژمردہ قوم کی خاکستر میں سیدالانبیاء ﷺ سے محبت کی دبی ہوئی چنگاری کو روشن چراغ بنایا۔ میری زندگی میں عشقِ رسول ﷺ کے تین بڑے حوالے ہیں۔ ایک میرے والد محترم، دوسرا اقبال اور کلامِ اقبال اور تیسرا علامہ خادم حسین رضوی۔ ان تینوں میں کلامِ اقبال مشترک ہے۔ کون اب قلندرِ لاہوری پکارتے ہوئے اقبالؔ کے شعروں سے دلوں کو گرمائے گا۔ حرمتِ رسول ﷺ کی نگہبانی کے لیئے کس کی زبان تلوار بنے گی اور کس کا جوش و ولولہ دلوں کو زندہ کرے گا۔ اس مملکتِ خدادادِ پاکستان کے افق پر اس "سورج" کے طلوع ہو کر غروب تک کے صرف چند سال ہیں، لیکن ان چند سالوں میں اس افق پر ابھرنے والی یہ وہ شفق ہے جس کی لالی تادیر دلوں میں زندہ رہے گی۔
اللہ نے علامہ خادم حسین رضوی کو ایک ایسے دور میں اس پژمردہ و افسردہ قوم کو زندہ کرنے پر مامور کیا، جو اُمتِ مسلمہ کے سب سے بڑے مجرم پرویز مشرف کا دور تھا اور پوری دنیا حدیث رسول ﷺ کے مصداق بھیڑیوں کی طرح اُمت کی بھیڑوں پر ٹوٹ پڑی تھی۔ اعلائے کلمۃ الحق تو بہت دور کی بات تھی، اللہ کے دین سے وابستگی کا اظہار بھی جرم بن چکا تھا۔ گذشتہ صدی میں مسلمانوں پر مظالم کی اگر تاریخ مرتب کی جائے تو مشرف اور عالمی منظر پر چھائی قوتوں کے مظالم کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں یہی دور تھا جب صدیوں سے "توہینِ رسالت" کے مسلمہ اصولوں کو چھیڑنے کا آغاز ہوا۔ میدانِ سیاست میں اس کو آمر اور ڈکٹیٹر کہنے والی پارٹیاں بھی اس معاملے میں اس کی ہمنوا تھیں۔
عافیہ صدیقی سے لال مسجد کے قتلِ عام، ملا عبد السلام ضعیف سمیت چھ سو آزاد مسلمانوں کو امریکہ کے حوالے کرنے سے لیکر پاکستانی ہوائی اڈوں سے ستاون ہزار امریکی طیاروں کی افغان مسلمانوں پر بم برسانے والی پروازوں تک، یہ سب کچھ یہ قوم خاموشی سے دیکھ رہی تھی اور برداشت بھی کرتی چلی آرہی تھی۔ تعلیمی ادارے الحاد کی فیکٹریاں بن چکے تھے۔ انسانی حقوق کے نام پر مغرب زدہ این جی او"زادے" اور "زادیاں" اُمت سے اس کی آخری متاع "عشقِ رسولؐ" بھی چھیننا چاہتے تھے۔ یہ لوگ کسی بھی گروہ، سیاسی پارٹی یا عقیدے سے تعلق رکھتے تھے، مگر حرمتِ رسول ؐ کے معاملے میں پرویز مشرف، سلمان تاثیراور عاصمہ جہانگیر کی طرح ایک دوسرے کے مخالف ہو کر بھی ایک ہی لائن میں کھڑے تھے۔
یہ موضوع تو اُمت میں چودہ سو سال تک کبھی زیرِ بحث نہیں آیا تھا۔ ہر کوئی اس بات پر ایمان کی حد تک یقین رکھتا تھا کہ سید الانبیاء ﷺ کی ذات، اس کے لیئے اپنے ماں باپ، اولاد، بہن بھائیوں، رشتے داروں اور دیگر تمام رشتوں سے زیادہ محترم، معزز اور عزیز ہے۔ مسلمان اپنے باپ کی گستاخی معاف کر دیتا، ماں کی بے حرمتی پر کمزور ہونے کی وجہ سے چُپ ہو جاتا لیکن رسول اکرم ﷺ کی ذات کی جانب غلط اشارہ بھی برداشت نہیں کرتاتھا۔ لیکن اس دور میں یہ موضوع ٹی وی ٹاک شوز کی زینت بننے لگا تھا۔ یہ ایک انتہائی خوفناک وقت تھا۔ پرویز مشرف سے پہلے ناکوں اور پولیس کی چیک پوسٹوں پرایسے افرادکو روک کر پوچھاجاتا تھا جن کا حلیہ غنڈوں اور بدمعاشوں والا ہوتاتھا، لیکن اس دور میں ان پوسٹوں اور ناکوں پر ایسے افراد کو تذلیل کا نشانہ بنایا جانے لگا، جن کے ماتھے پر محراب، سروں پر عمامہ، چہرہ داڑھی سے آراستہ اور شلوار اتباعِ سنت رسول میں ٹخنوں سے اونچی ہوتی۔
اسی دور میں آئینِ پاکستان کے تحت اقلیت قرار دیئے جانے والے قادیانیوں کے بارے میں بھی مین سٹریم میڈیا پر گفتگوکا آغاز ہوا۔ پورے ملک میں ہر وہ شخص جواسلام، مسلمان اور نظریہ پاکستان کا تمسخر اڑانا چاہتا، اسے کھلی چھوٹ تھی۔ اس پژمردگی، مایوسی اور بے زبانی کے عالم میں شعلۂ جوالہ کی صورت ایک آوا زگونجی، ایک نعرۂ مستانہ، کہ جس کی گونج میں ہر وہ دل جس میں محبتِ رسول ﷺ کی ٹمٹماتی سی لو بھی زندہ تھی پروانہ وار اس کے گرد جمع ہونے لگا۔ اقبالؔ کے نقشِ قدم پر چلتا ہوا یہ مردِ قلندر بالکل ویسی ہی کیفیت دلوں میں پیدا کرنے میں کامیاب ہوا جیسی اقبال نے اپنے بارے میں اپنی نظم "شکر و شکایت" میں لکھی:
اک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تاخاکِ بخارا سے سمرقند
کون تھا جس کو اس عالم ِ پژمردگی و مایوسی میں علامہ خادم حسین رضوی کی آواز نے حوصلہ نہ دیا ہو۔ یوں لگتا تھا جیسے جنگل کے پرہول سناٹے میں کوئی ضیغم کچھار سے نکل آیا ہو اور اس کے پرزور نعرے نے جہاں دلوں میں ولولہ پیدا کیا، وہیں میں نے مدتوں بعد ہر گستاخِ رسول اور ملحد کے چہرے پر خوف دیکھاتھا۔ جن کی زبانیں مشرف دور میں گزگز لمبی ہو گئی تھیں، علامہ خادم حسین رضوی کے چہرے کے جلال سے کانپتے تھے۔ اسلام سے عناد، مسلمانوں کی تہذیب سے نفرت اور رسول اکرم ﷺ کی ذات کو زیرِ بحث لانے کی آرزو رکھنے والے مشرف دور کے بعد بھی بے لگام رہے۔ اس زہرناک درخت کی آبیاری زرداری اور نوازشریف کے دور میں بھی ہوئی اور عمران خان کے عہد میں بھی یہ پھلتا پھولتا رہا۔ نوازشریف نے ممتاز قادری کو تختۂ دار پر لٹکانے کا طوق اپنے گلے میں پہنا تو عمران خان نے اُس ملعونہ آسیہ مسیح کو "پروٹوکول" دیا جس کی جسارت فرانس کے گستاخانِ رسولؐ کو اس قدر پسند آئی تھی کہ آج پیرس کی جس عمارت پر رسول اکرم ﷺ کے گستاخانہ خاکے لٹکائے گئے تھے، اس عمارت پر کئی سال آسیہ مسیح کی تصویر لٹکتی رہی۔ یہ اس بات کا اظہار تھا کہ مغرب رسول اکرم ﷺ کے گستاخ کو کتنی عزت دیتا ہے۔ لیکن گذشتہ دس سالہ عہد اگر کسی فردکی جدوجہد سے عبارت تھا، کسی مردِ حّرکی مردانہ وارآواز سے گونجتا اور زندہ ہوتاتھا اور کسی عشقِ رسول ؐ میں ڈوبے شخص کے جذبے سے توانائی لیتا تھا تو وہ صرف اور صرف علامہ خادم حسین رضوی کی ذات تھی۔ اوران کے بعد شاید اب کوئی بھی نہیں۔۔ دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا کہ جس کی گرمیٔ شوق سے لوگوں کے دل زندہ ہوں:
میری نوائے شوق سے شورِ حریمِ ذات میں
غلغلۂ ہائے الاماں بت کدۂ صفات میں
مفسرینِ و مفتیان تو بہت سے آئے اور آج بھی ہیں۔ مقررین بھی بے شمار آئے اور آج بھی شعلہ بیانی دکھا رہے ہیں، لیکن عشقِ رسول ﷺ کا ہدی خوان اس قوم میں مدتوں بعد پیدا ہوا تھا۔ وہ جرّی جس نے اقبال کے اس مصرعے "نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری" کا حق ادا کر تے ہوئے خانقاہوں اور مزاروں سے لپٹے ہوئے لاتعداد انسانوں کو وقت کی کربلا میں سنتِ امام حسینؓ کی اتباع میں لاکھڑا کیا تھا۔ جس کی گرمیٔ گفتار دلوں کو جوش دلاتی تھی، کمزور دلوں کو توانا اور مضبوط دلوں کو شیر کرتی تھی۔ عشقِ رسول ﷺ کے ترانے گاتا شخص
نغمہ کجا و من کجا، ساز سخن بہانہ ایست
سوئے قطار میں کستم، ناقۂ بے زمام را
(میں کہاں اور نغمہ کہاں، میری شاعری تو ایک بہانہ ہے۔ میں تو ایک بے لگام اونٹنی (مسلم قوم) کو قطار میں لانے کی کوشش کر رہا ہوں )۔ علامہ خادم حسین رضوی کی بنائی گئی قطار میں آج بے شمار فرزانے و پروانے موجودہیں جنہیں شمع رسالتؐ کی لو پر جان دینے کا جذبہ انہوں نے دیاہے، لیکن ان کے رخصت ہو جانے کے بعددل پر وہی کیفیت طاری ہے جو اقبالؔ نے وقتِ رخصت اپنے بارے میں کہا تھا
سرودِرفتہ باز آید کہ ناید
نسیم حجاز آید کہ ناید
سرآمد روزگارے ایں فقیرے
دِگردنائے راز آید کہ ناید
(وہ پہلے والا دور آئے گا کہ نہیں۔ حجاز کی طرف سے ٹھنڈی ہوا آئے گی یا نہیں۔ اس فقیر کا آخری وقت آگیا ہے۔ کوئی دوسرا دانائے رازآ ئے گا کہ نہیں )۔ اپنے اس عالمِ پیری میں مجھے تودور دور تک کوئی نظر نہیں آرہا۔