گذشتہ چند ہفتوں میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کی میڈیا میں خوب پذیرائی ہوئی، لیکن اسکے ساتھ ساتھ جس طرح پوری مسلم امہ کو شرم دلائی گئی ہے، اس کے رویوں پر لعنت ملامت کی گئی ہے اور اسے دنیا کی سب سے جاہل، بد تہذیب اور اجڈ و گنوار ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ایسا کچھ کسی کیلئے بالکل حیران کن نہیں تھا۔ اس لیے کہ کسی شخص کو ہیرو بنانے اور کسی فرد کو غلط ثابت کرنے کا دھندہ ہی تو ہے جس نے اس دنیا کا امن غارت کر رکھا ہے اور یہ دھندہ ایک طویل عرصے سے صرف اور صرف میڈیا کے ہاتھ میں آچکا ہے۔
اس مکروہ دھندے پر اس کی "مناپلی" ہے۔ میڈیا اس معاملے میں پوری دنیا میں متحد ہے اور اسے کسی فرد، قوم یا گروہ کو ظالم، دہشت گرد اور انسانیت دشمن ثابت کرنے میں چند ثانیے لگتے ہیں۔ یہ میڈیا جیسنڈا آرڈرن کی کیوں تعریف نہ کرتا۔ اس کی تقریر نے تو اس میڈیا کے ہاتھوں پر لگے ہوئے مسلمانوں کے خون کے دھبے چھپائے ہیں۔
گذشتہ پچاس برسوں میں مسلمانوں کے قتل پر اکسانے، ان سے نفرت کروانے، انکے ملکوں پر حملہ کروانے اور ان کی بستیوں کو ویران کر کے انہیں دربدر کروانے میں اس خونی، متعصب اور دہشت پسند میڈیا نے جو کردار ادا کیا ہے، نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اور عوام نے اسے بھلانے میں جو کردار ادا کیا ہے، میڈیا اسکی تعریف تو کرے گا۔ یہ میڈیا جو کبھی بکھرا ہوا تھا، منتشر تھا، آج متحد ہے۔
1983ء میں امریکی میڈیا کا نوے فیصد 50 سے زیادہ کمپنیوں کی ملکیت تھا، جبکہ 2011ء سے یہ صرف اور صرف چھ کمپنیوں کی ملکیت ہوگیا۔ یہ چھ کمپنیاں تھیں 1۔ جنرل الیکٹرک (GE)، 2۔ نیوز کارپوریشن، 3۔ ڈزنی، 4۔ وائا کوم (VIACOM)، 5۔ ٹائم وارنر اور 6۔ سی بی ایس(CBS)۔
آج آٹھ سال کے بعد ان میں سے ایک کمپنی نیوز کارپوریشن نے اپنی سلطنت اس قدر وسیع کر لی ہے کہ اسے شاید دنیا کی سب سے بڑی میڈیا کمپنی کہا جا سکتا ہے۔ یہ آج سے 39 سال قبل 1980 میں آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں قائم ہوئی اور مشہور زمانہ اسلام دشمن، روپرٹ مرڈوک (Rupert Murdock)اسکا بانی تھا۔ اسوقت اسکا ہیڈ کوارٹر نیویارک میں ہے۔ اسکے کل اثاثے 70 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔
روپرٹ مرڈوک اسوقت 88 سال کی عمر کا ہے اوراسلام فوبیا کے حوالے سے ایک شہرت رکھتا ہے۔ وہ ایک صحافتی گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ اسکا والد سر کیتھ مرڈوک پہلے ایک رپورٹر، اسکے بعد سینئر ایگزیکٹو اور پھر ہیرالڈ (Herald) اور ہفت روزہ ٹائمز کا سربراہ بن گیا۔
اپنے باپ کے مرنے کے بعد روپرٹ نے ان کمپنیوں سے منسلک رہنے کی بجائے اپنی ایک نئی کمپنی نیوز لمیٹڈ بنائی اور پھر وہ جلد ہی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بے شمار اخبارات کا مالک بن گیا۔ اسکے بعد اسکی فتوحات کا سلسلہ برطانیہ اور پھر امریکہ جا پہنچا اور آج وہ اس میڈیا انڈسٹری کا فاتح اعظم ہے۔ اس شخص کے بارے میں مشہور آسٹریلوی مصنف اور صحافی سی جے ورلی مین (CJ Werleman) نے اپنے تازہ ترین مضمون میں لکھا ہے۔ " اگر روپرٹ مرڈوک نہ ہوتا تو برطانیہ میں بریکسِٹ (Brexit) نام کی بلا نہ آتی، ٹرمپ الیکشن نہ جیتتا، صرف دس سال کے عرصہ میں آسٹریلیا میں سات وزیراعظم نہ بدلتے اور نہ ہی نیوزی لینڈ میں اکاون مسلمانوں کا قاتل اس قدر نفرت سے بھرا ہوا ہوتا"۔
آسٹریلیا کے اخبارات کا تجزیہ تو اس وقت دنیا بھر میں موضوع بحث ہے کہ روزانہ آسٹریلیا کے ان پانچ بڑے اخبارات میں آٹھ مضامین مسلمانوں کے خلاف نفرت سے بھرے ہوئے چھپتے رہے ہیں اور یہ سب کے سب اسی شخص کی ملکیت ہیں۔ برطانیہ پہنچتے ہی روپرٹ مرڈوک نے اپنے شام کے اخبار سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پراپیگنڈے کا آغاز کیا اور پھر اسکی سلطنت کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ برطانوی اور امریکی شہریوں کے ذہنوں میں اس زہر کے سرایت کرنے میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ کیسے کیسے اخباری سروے گھڑے گئے۔
23 نومبر 2015ء کو اس شخص کے اخبار The Sun نے صفحہ اول پر ایک جائزہ شائع کیا کہ برطانیہ کا ہر پانچواں مسلمان جہادیوں کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے اور بیس فیصد مسلمان داعش کے حق میں ہیں۔ اس میں اصل کمال خبروں کے متن کا نہیں تھا بلکہ ان ہیڈلائنز کا تھا جنہیں خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف تخلیق نہیں بلکہ گھڑا جاتا تھا۔ جیسے Muslims silent on terror (مسلمان دہشت گردی پر خاموش ہیں )، Muslims Tell British: go to hell (مسلمانوں نے برطانیہ کو کہا جہنم میں جاؤ)، Muslim schools ban our culture(مسلم سکولوں میں ہماری تہذیب پر پابندی لگا دی گئی)، Britain goes Halal(برطانیہ میں اب حلال ہی بکے گا)۔
ایسی مسلسل ہیڈ لائنز اور بے پناہ پراپیگنڈے کا نتیجہ ہی تھا کہ برطانیہ میں 2017ء میں کیے گئے لاتعداد سروے اور پول یہ بتانے لگے کہ پچاس فیصد سے زیادہ برطانوی شہری اسلام کو برطانوی اقدار کے لیے ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس طرح مسلمانوں کے خلاف ایک رائے عامہ تخلیق کی گئی۔ ایک خوف کا منظر نامہ تحریر کیا گیا اور اس پراپیگنڈے سے ایسے کردار معاشرے میں پیدا ہوئے جو مسلمانوں کے وجود سے اپنے علاقوں کو پاک کرنے کے لئے سرگرم عمل ہوگئے۔
مسلمانوں سے نفرت کا یہ عالم اور ان کے مخالفین سے محبت کی کہانی مشہور اخبار "The Guardian"گارڈین نے اپنی ڈاکومنٹری "white fright"(سفید دہشت) میں جولائی 2018ء میں پیش کی ہے۔ کہانی کے مطابق 2015ء میں نیو یارک کے ایک علاقے اسلام برگ (Islamberg) کے مسلمان رہائشیوں نے ایک مظاہرہ کیا کہ ٹینسی ریاست کا ایک وزیر روبرٹ ڈوگارٹ (Robert Doggart) انکے گاؤں پر ایک بہت بڑے دہشت گرد حملے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
یہ منصوبہ اتنا بڑا ہے کہ امریکہ کی سرزمین پر 11/9 کے بعد سب سے بڑا حملہ شمار ہوگا۔ اس مظاہرے اور اسی منصوبے کی کوئی خبر میڈیا نے نہ دی، حالانکہ گاؤں کے لوگ تمام ثبوتوں کے ساتھ پولیس کے پاس گئے تھے۔ ایک مہینے بعد وہ شخص گرفتار ہوا، اس دفعہ بھی کوئی خبر نشر نہ ہوئی۔ اس وزیر کا مقدمہ ایک ایسی جیوری کے پاس گیا جس میں تمام جج گورے تھے، انہوں نے اسے بری کر دیا۔
اخبار کی ڈاکومنٹری کے مطابق امریکا کے تمام میڈیا ہاوسزکا یہ عالم ہے کہ مسلمانوں کے خلاف خبر کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ اسکا عالم یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کی جانب سے کسی دوسری قوم پر حملہ دیگر تمام گروہوں کے حملے سے 357 فیصد زیادہ اخباری توجہ حاصل کرتا ہے۔
سی جے ورلی مین نے یہی تو کہا ہے کہ میں ایک مصنف اور صحافی ہوں اورسمجھتا بوجھتا ہوں لیکن پھر بھی میرا ذہن اس پروپیگنڈے سے زہر آلود ہو چکاتھا اور میں مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے منصوبے بنایا کرتا تھا لیکن میں اب اعتراف کرتا ہوں کہ میں غلط تھا۔ I hate me that(میں اپنے اس پرانے وجود سے نفرت کرتا ہوں )، I am no longer that me۔ (میں اب وہ نہیں جو پہلے تھا)۔
اس شخص پر تو اصلیت واضح ہوگئی اور بدل گیا ہے لیکن ہزاروں ایسے سفید فام ہیں جنہیں گزشتہ پچاس سالوں میں میڈیا نے نفرت سے بھر دیا ہے، مسلمانوں کو قتل کرنے پر اکسایا ہے۔ کیا یہ سب کے سب اس نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے حسن سلوک سے بدل چکے ہوں گے۔ وہ تو آج اس وزیراعظم سے بھی نفرت کر رہے ہیں۔ لیکن روپرٹ مرڈوک، اسکا خون آشام میڈیا آزادی صحافت اور حرمت قلم کا پرچم اٹھائے سرخرو ہے اور اس پرچم کے سائے میں لاکھوں مسلمانوں کی لاشیں پڑی ہیں۔