یہ فقرہ کسی مسجد کے مولوی یا چرچ کے پادری نے نہیں بولا کہ سارے لبرل سیکولر اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جائیں کہ مذہبی لوگ ایک تو قصے کہانیوں میں کھوئے رہتے ہیں اور دوسرا ان کا ایک گروہ قیامت سے پہلے ہونے والی بڑی جنگوں سے ڈرا کر انسانوں کا خون خشک کرتا رہتا ہے۔
یہ فقرہ دنیا کی طاقتور ترین سپر پاور امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بولا ہے۔ یوں تو وہ شخص امریکی فوج میں رہا، انکی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا ڈائریکٹر رہا لیکن اس نے قانون کی تعلیم کے بہترین ادارے ہارورڈ لاء سکول سے جیورس ڈاکٹر کی ڈگری بھی حاصل کی ہوئی ہے۔
جدید سیکولر تعلیم کے حساب سے اسے توہمات اور ایسی پیش گوئیوں والی "خرافات" سے دور رہنا چاہیے تھا۔ لیکن امریکہ کے اس "پڑھے لکھے" وزیر خارجہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک ایسا شخص بتایا جسے اللہ نے یہودیوں کی مدد کے لیے منتخب کیا ہے۔ مائیک پومپیو اسرائیل جانے والا ایسا پہلا وزیر خارجہ ہے جسے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اپنے ہمراہ یہودیوں کی مقدس ترین عبادت گاہ "دیوار گریہ" پر لے کر گیا۔
جس دن وہ اسرائیل میں موجود تھا، وہ یہودیوں کے لئے ایک جشن کا دن ہوتا ہے۔ یہودی عقائد کے مطابق اس دن، انہیں ایک ملکہ نے اجتماعی قتل عام سے بچایا تھا۔ اس دن کو یہودی پورم (purim)کہتے ہیں۔ مائیک پومپیو سے جب ایک عیسائی نشریاتی ادارے نے یہ سوال کیا کہ کیا ٹرمپ کو بالکل ویسے ہی منتخب کیا گیا ہے جیسے ملکہ استر (Esther) کو خدا نے منتخب کیا تھا تاکہ یہودیوں کو بچایا جائے تو اس کے جواب میں مائیک پومپیو نے کہا۔
"As a Christian, I certainly believe that is possible"
"ایک عیسائی کی حیثیت سے میرا عقیدہ ہے کہ ایسا ممکن ہے"
اور پھر یوں کہا
"I am confident that lord is at his work here"
"مجھے یقین ہے کہ خدا یہاں (یروشلم میں ) اپنا آپ کام کر رہا ہے"۔
جس وقت وہ یہ انٹرویو دے رہا تھا وہ ڈیوڈ سٹڈل ہوٹل میں اپنے کمرے کی بالکونی سے اس قدیم شہر یروشلم پر نظریں گاڑے ہوئے تھا۔ یہ وہ شہر ہے جہاں اسکے ایونجلیکل (Evangelical) عیسائی عقیدے کے مطابق قیامت سے پہلے یہودیوں کا ہیکل سلیمانی ازسر نو تعمیر ہوگا اور اسکے بعد حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی دنیا میں واپسی ہوگی۔
ٹھیک دو ہزار چار سو چور اسی سال بعد ایران کی ملکہ آستر کا ذکراور اسکی ڈونلڈ ٹرمپ سے مشابہت کا ذکر مائیک پومپیو نے اپنے عقیدے کو سامنے رکھ کر کیا ہے۔ آستر تورات اور قدیم انجیل کے مطابق ایک خدا کو ماننے والے یہودی ایرانی خاتون تھی جسے ایران کے بادشاہ کے ایک مشیر خاص "مردکی" نے پالا پوسا تھا۔
یہ 480 قبل مسیح کے آس پاس کی بات ہے۔ اس وقت ایران کے بادشاہ کا ایک وزیراعظم تھا جس کا نام "ہامان " تھا۔ یہ شخص یہودیوں کا سخت دشمن تھا۔ اس نے بادشاہ سے یہودیوں کے قتل عام کا فرمان حاصل کر لیا اوراس پر عملدرآمد شروع ہونے والا تھا کہ اس تمام سازش کا علم مردکی کوہوگیا۔
آسترا اسوقت شاہ ایران کی ملکہ بن چکی تھی۔ وہ ملکہ آستر کے پاس پہنچا اور اس کی مدد سے اسنے بادشاہ کو قائل کیا اور بادشاہ نے اپنا فرمان واپس لے لیا۔ یہودیوں کی جان بخشی ہوگئی اور ہامان کو سرعام پھانسی دے دی گئی۔ مردکی کو وزیراعظم بنا دیا گیا۔ تالمود میں مردکی کو نبی قرار دیا گیا ہے جبکہ کتاب مقدس کے عہد نامہ قدیم میں"کتاب آستر" کے نام سے ایک باب موجود ہے۔ اس دن کی خوشی میں دنیا بھر کے یہودی پورم کا تہوار مناتے ہیں۔
عقیدے کا یہ معاملہ صرف مائیک پومپیو تک محدود نہیں، بلکہ جنوری 2019 میں وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری سارا سینڈرس (Sarah Sandres)نے ایک ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا"God wanted Donald Trump to become president""اللہ چاہتا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنے"۔ یہی نہیں بلکہ امریکی نائب صدر مائیک پینس (Mike Pence)اور سابق اٹارنی جنرل جیف سیشن (Jeff sessions)نے بھی بار بار اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ان کی ٹرمپ کے ساتھ امریکی اقتدار میں آمد آخری بڑی جنگ "Armageddon" کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔
ملکہ آستر کے ڈھائی ہزار سال بعد ڈونلڈ ٹرمپ واقعی پہلا شخص ہے جس نے اسرائیل اور اس کے عزائم کی اس قدر کھل کر حمایت کی ہے۔ 13 اکتوبر 1995 کو امریکی سینٹ میں یہ بل پیش ہوا کہ امریکہ اپنا سفارت خانہ 1967 میں اسرائیل کے قبضہ میں آنے والے مقدس شہر یروشلم میں منتقل کرکے اسے اسرائیل کے دارالحکومت کا درجہ عطا کرے، 24 اکتوبر 1995 کو یہ بل سینیٹ نے پاس کر دیا۔
18 اکتوبر 1995 میں بل کلنٹن نے بھی اس پر دستخط کرنے کی ہمت نہ کی اور اس کے بعد آنے والے جارج بش اور اوباما بھی اس عمل سے دور رہے۔ لیکن 16 دسمبر 2017 کو ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کی حیثیت سے تسلیم کرلیا اور امریکی سفارت خانے کو بھی وہاں منتقل کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ گذشتہ دو ہزار سال کی یہودی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔
70ء عیسوی میں جب یہودیوں کو رومن جرنیل ٹائٹس (Titus) نے یروشلم سے نکالا تو پھر وہ پوری دنیا میں بکھر گئے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت عمرؓ نے جس وقت عیسائی حاکم سے بیت المقدس کی چابیاں وصول کیں تو اسوقت ایک عہد نامہ پر دستخط بھی کیے جس کی ایک شق یہ تھی کہ ہم یروشلم کا مقدس شہر آپکو اس شرط پر حوالے کر رہے ہیں کہ یہاں یہودیوں کو رہنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسکے بعد کے تیرہ سو سال، یہودی پوری دنیا میں بھٹکتے رہے۔
1920 میں یہودیوں کا پہلا قافلہ جب بحر طبریہ عبور کرکے اسرائیل آیا تویہ لوگ یروشلم کے آس پاس کے شہروں حیفہ اور تل ابیب میں آباد ہوئے۔ 1948 میں جب اسرائیل بنا تو بھی یروشلم اسرائیل میں شامل نہ تھا۔ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں یروشلم جو اردن کا حصہ تھا، اسرائیل نے اس پر قبضہ کیا اور اس قبضے کو دنیا بھر میں ابتک ایک غاصبانہ قبضہ ہی تصور کیا جاتا رہا ہے۔
یہاں تک کہ امریکی سینٹ میں بل پاس ہونے کے باوجود کوئی امریکی صدر یہ ہمت نہ کر سکا تھا کہ اسے قانونی طور پر اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرکے سفارتخانہ وہاں منتقل کرے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ ایسا کر گزرا۔ یہ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا، بلکہ 22 مارچ 2019 کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کا اعلان کیا کہ شام کی گولان کی پہاڑیاں جو اسرائیل نے 1967 میں قبضے میں لی تھیں ان پر اسرائیل کا حق تسلیم کر لیا جائے گا۔
گیارہ مارچ 2019 کو امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈ مین اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ اسی متنازعہ علاقے میں گیا تاکہ امریکی ارادہ دنیا پر واضح کر سکے۔ 2011 تک ان گولان کی پہاڑیوں کے متعلق شام اور اسرائیل کے درمیان گفتگو جاری تھی کہ شام میں فسادات پھوٹ پڑے، قتل و غارت شروع ہوا اور پوری دنیا کی توجہ اس خطے کی جانب مرکوز ہوگئی۔
شام کے فسادات میرے نبی ﷺ کے ارشادات کے مطابق بڑی جنگوں کا نقطہ آغاز ہے۔ ایسے میں دنیا بھر کے عیسائی اور یہودی لیڈران جو اپنے اپنے مذاہب کی پیش گوئیوں پر یقین رکھتے تھے انہوں نے اپنے عالمی حالات کو ان پیش گوئیوں کے تناظر میں بیان کرنا شروع کر دیاہے۔ لیکن مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ میرے آقا ﷺنے جو ٹائم لائن بتائی ہے اس پر کوئی غور نہیں کرتا، آپ ﷺ نے فرمایا "بیت المقدس کی آبادی مدینہ طیبہ کی ویرانی، اور مدینہ طیبہ کی ویرانی بڑی جنگ کا ظہور، اور بڑی جنگ کا ظہور قسطنطنیہ کی فتح اور قسطنطنیہ کی فتح، دجال کا نکلنا (ابوداؤد)۔
کیا آج کا مسلمان اس آنے والے وقت کے لیے تیار ہے۔ کیا ہمارے حکمران یا لیڈر، مائیک پومپیو کی طرح مذہبی بیانئے میں بات کریں گے، ہمارے تو علماء بھی نبی آخر الزماں ﷺ کے ان ارشادات اورپیش گوئیوں کا تذکرہ بھول چکے ہیں۔