Wednesday, 27 November 2024
  1. Home/
  2. Orya Maqbool Jan/
  3. Donald Trump: Shikast Khurda Don

Donald Trump: Shikast Khurda Don

کونسا ملک ہے جو امریکہ کے ساتھ دندناتا ہوا اس نہتے افغانستان میں داخل ہوا ہو اور حریت پسند طالبان کے مشاق نشانہ بازوں نے پرندوں کے شکار کی طرح ان گھس بیٹھیوں کے لشکروں کو بھون کر نہ رکھ دیا ہو۔ ہر ایک حملہ آور اپنی لاشوں کی نشانی یہاں چھوڑ کر گیا۔ نشے میں بدمست اور طاقت کے غرور میں ہوش و حواس سے عاری امریکہ کے 2، 313 سپاہی بے سروسامان طالبان کا شکار ہوئے، برطانیہ456، کینیڈا157، فرانس88، جرمنی57، اٹلی53، پولینڈ44، ڈنمارک43، آسٹریلیا41، سپین35، جورجیا32، رومانیہ26، ہالینڈ25، ترکی15، چیک جمہوریہ14، نیوزی لینڈ10، ایسٹونیا9، ہنگری7، سویڈن5، لیٹویا4، سلواکیہ3، فن لینڈ، اردن، پرتگال اور جنوبی کوریا2 سپاہی فی ملک اور البانیہ، بلجیم، لیتھونیا، مونٹی نیگرو1سپاہی فی ملک اس افغانستان کے میدانوں میں سلگتی جہنم کا ایندھن بنا دیئے گئے۔ یہ انسانی تاریخ کی پہلی جنگ تھی جس میں ساری دنیا ایک جانب تھی اور ایک بے سروسامان ملک دوسری جانب، بلکہ وہ ملک نہیں دنیا بھر کے میڈیا میں بدنام کیے گئے "طالبان" تھے جنہوں نے قرون وسطیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ کر دی جن کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا "اگر ہو جنگ تو شیرانِ غاب سے بڑھ کر"۔ شورش کاشمیری بلا کے خطیب تھے عموماً ایسے معرکوں کو یاد کر کے یہ شعر پڑھا کرتے تھے ؎جانے تعداد کی کثرت کو تو کیا سمجھا ہےشیر جنگل میں اکیلا ہی بہت ہوتا ہےشیروں کا یہ کچھار، طالبان کا مسکن افغانستان جو سید الانبیاء ﷺ کے مقدس دور کا "خراسان" ہے۔ بشارتوں کا امین "خراسان" جس کے بارے میں فرمایا: "جب وہ خراسان کی گھاٹی سے اتریں گے تو اسلام کی طلب میں اتریں گے اور کوئی چیز ان کے آڑے نہیں آئے گی سوائے اہل عجم کے جھنڈوں کے جو مغرب سے آئیں گے"(کنزالعمال، الفتن نعیم بن حماد)، فرمایا "جب کالے جھنڈے مشرق سے نکلیں گے تو کوئی چیز ان کو روک نہیں سکے گی حتیٰ کہ وہ ایلیا(بیت المقدس) میں نصب کر دیئے جائیں گے(مسند احمد، ترمذی، سنن ابن ماجہ) قدیم تاریخ کی کتابوں میں خراسان کی حدود دریائے آمو سے شروع ہو کر دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی دکھائی گئی ہیں، جس میں مکمل افغانستان، ایران کاطوس، نیشاپور اور سیستان جبکہ پاکستان کے قبائل علاقے اور بلوچستان اس میں شامل تھے۔ فارس ایک علیحدہ ملک تصور ہوتا تھا اور سندھ و ہند دو علاقے تھے۔ سندھ اور خراسان کا کچھ علاقہ ملا کر پاکستان وجود میں آیا ہے جبکہ افغانستان کا پورا علاقہ خراسان ہے۔ شیروں کے اس کچھار میں میرے آقاؐ کی پیش گوئیوں کے مطابق اہل مغرب کے یہ پرچم شکست کی علامت ہیں۔ کسی کو گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد امریکی صدر کا فرعونیت سے لتھڑا ہوا لہجہ یاد ہے۔ اس نے کہا تھا "تم لوگ فیصلہ کر لو کہ تم ہمارے دوست ہو یا دشمن" اس دھمکی کے بعد بزدلوں، مفاد پرستوں، کاسۂ لیسوں اور کرائے کے قاتلوں کی فوجِ ظفر موج اس کے ساتھ کھڑی ہو گئی، دنیا کے تمام ممالک اور مقابل میں مٹھی بھر سرفروش طالبان لیکن آج سترہ سال بعد ایک شکست خوردہ امریکی صدر کا چہرہ سامنے آیا ہے۔ بالکل اس "ڈان" کی طرح جس کے سامنے اس کے کارندے مار کھا کر لہولہان واپس آتے ہیں اور وہ چیختا ہوا، گالیاں نکالتا ہوا ان پر برس پڑتا ہے کہ "تم پر اتنا خرچ کرتا ہوں، تم سب حرام خور ہو، کسی کام کے نہیں " جس امریکہ نے ساری زندگی ایسے ہی کرائے کے قاتلوں سے جنگیں لڑی ہوں، اس کا پاکستان پر برسنا اور طعنے دینا کوئی اچنبے کی بات نہیں۔ وہ دنیا کو سمجھا نہیں پا رہا، خود کو بھی قائل نہیں کر پا رہا کہ یہ سب کیسے ہو گیا۔ جدید ٹیکنالوجی کو شکست ہو گئی، سرمائے کی بہتات ہار گئی، دنیا بھر کی افواج کی اکثریت کو شکست ہو گئی۔ کیا بہانہ بنائیں کہ ایسا مٹھی بھر طالبان کی وجہ سے ہوا، یہ تو بہت ذلت و رسوائی ہے۔ نہیں، وہ جن کو ہم نے طالبان کی "سپاری" دی تھی انہوں نے کوئی کام نہیں کیا۔ پھر بھی بات نہیں بنتی، لوگ سوال کرتے ہیں، تمہاری ڈیڑھ لاکھ فوج، تمہارے تربیت یافتہ ساڑھے تین لاکھ افغان فوجی سب ناکام و نامراد ہو گئے، اور ان طالبان کے ہاتھوں جن کو تم آج تک چالیس ہزار سے زیادہ نہیں بتاتے تھے، یہ چالیس ہزار اللہ پر توکل کی دولت و طاقت سے مالا مال تھے۔ ایسے سرفروشوں کو نہ سرمائے کی حاجت ہوتی ہے اور نہ ہی سازوسامان حرب کی۔ ان کے دوبدو لڑنے والے سادہ ہتھیار بھی میزائل شکن ٹینکوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ بم پروف عمارتیں مسمار کر دیتے ہیں اور بلٹ پروف ملبوسات میں سوراخ کر دیتے ہیں۔ یہ کس بلا کے لوگ ہیں۔ رونا پیٹنا تو ہے کہ نقصان بہت بڑا ہے۔ سرمائے پر جان چھڑکنے والا مغرب اور اس کا سربراہ امریکہ اس جنگ پر غرق ہونے والے سرمائے کا حساب کرنے بیٹھا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اوہ میرے خدایا! ایک ہزار ستر ارب ڈالر اس جنگ میں جھونک دیئے اور ذلت و رسوائی حصے میں آئی۔ ایک ہزار ستر ارب ڈالر تین مختلف جگہوں پر خرچ ہوئے۔ افغانستان میں موجود افواج اور دیگر کا خرچہ اٹھانے پر 773ارب ڈالر صرف ہو گئے چونکہ جنگ جاری تھی اس لیے واشنگٹن میں موجود محکمۂ دفاع کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے 243ارب ڈالر خرچ کیے گئے جبکہ وہ فوجی جو افغان جنگ سے واپس آئے اور طرح طرح کی نفسیاتی اور ذہنی امراض کا شکار ہو گئے، ان کی فلاح و بہبود پر 54.2ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ اس آخری خرچے کو "Veteran affairs"یعنی سابقہ فوجیوں کا معاملہ کہا جاتا ہے۔ یہ خرچہ اب ہر سال بڑھتا چلا جائے گا کیونکہ ان نفسیاتی مریضوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے جو افغان جنگ سے واپس آئے ہیں۔ یہ ایک دفعہ ذہنی امراض کے ہسپتال ہو آئیں تو بیویاں، بچے، بہن بھائی حتیٰ کہ والدین بھی ان کی دیکھ بھال چھوڑ دیتے ہیں، اور یہ سڑکوں پر پناہ(Shelter)کی تلاش میں گھومتے نظر آتے ہیں۔ ہسپتالوں سے نکلنا نہیں چاہتے اور ہسپتال اتنی بڑی تعداد کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ سات اکتوبر 2001ء کو جب امریکی طیاروں نے کابل میں طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی اور طالبان کابل شہر چھوڑ گئے تو فاتح امریکی اتحادی افواج کابل میں داخل ہوئیں ایسے میں ہر کاسہ لیس ملک اور امریکی دولت پر پلنے والے دانشور، تجزیہ نگاروں نے مستقل فتح کا اعلان کر دیا۔ اس سال امریکہ نے 22.9ارب ڈالر جنگ میں جھونکے، لیکن مارچ میں واپسی حملے شروع ہوئے تو اس سال 40.8ارب ڈالر خرچ ہو گئے۔ 2001ء میں 9700امریکی سپاہی جنگ جیتنے آئے تھے، 2011تک ان کی تعداد 96، 900ہو گئی لیکن جنگ میں جیت دور دور تک نہ تھی۔ تمام اتحادی ملا کر ایک لاکھ چالیس ہزار فوجی چند ہزار طالبان کے مقابل میں اتار دیئے گئے۔ ساڑھے تین لاکھ افغانیوں کو بھاری تنخواہوں اور شاندار ٹریننگ کے ساتھ میدان میں اتارا گیا، جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہتھیار دیئے گئے، لیکن حالت وہی کہ جس روس کو شکست دے کر واحد عالمی طاقت بننے کے دعوے کیے تھے کبھی، اس سے طالبان مذاکرات میں شرکت کی بھیک مانگی گئی۔ یہ بدترین شکست ہے جو انسانی تاریخ میں ہوئی ہے۔ ساری دنیا ایک جانب اور مٹھی بھر سرفروش طالبان دوسری جانب۔ پھر ٹرمپ غصہ کیوں کرتا ہے، دھمکیاں کیوں دیتا ہے۔ یہ تو امریکہ کا دستور ہے، جو ویت نام میں جنگ ہارتا ہے لیکن اپنی قوم کو حوصلہ دینے کے لیے ریمبو فلموں کی سیریز بناتا ہے تا کہ پتہ چلے امریکی فوجی ناقابل تسخیر ہے، لیکن اس دفعہ تو شکست خوردہ "ڈان" اپنے حرام خوروں پر برس رہا ہے۔ اسے اندازہ ہی نہیں کہ جنہیں وہ اپنے اڈے کے کارندے سمجھتا تھا وہ یہ اڈا کب کا چھوڑ چکے ہیں۔ اب صرف ماتم آپ کے حصے میں ہے وہ کرتے جائیں۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran