نپولین جب سینٹ ہیلنا کے قید خانے میں زندگی کے آخری ایام گزار رہا تھا تو ایک دن اس قید خانے کے انچارج نے ترس کھا کر اسے کہا کہ اگر تم ایک درخواست مجھے لکھ دو تو میں حکمرانوں سے کہہ کر تمہاری سزا میں تخفیف یا نرمی کی کوشش کروں گا۔
نپولین نے اپنے اسی تفاخر سے جواب دیا"بادشاہ درخواست نہیں کرتے، حکم دیا کرتے ہیں" لیکن چند سرفروش، صاحبان ایمان اور پیکران عزیمت افغان طالبان کے جہاد کا ثمر اور نصرت کا عالم دیکھئے کہ گیارہ ستمبر2001ء کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد جدید دنیا کے بادشاہ، امریکی صدر جارج بش کے لہجے کا جو غرور اس چار منٹ بیالیس سکینڈ کی نشری تقریر میں دنیا بھر کو للکار رہا تھا ٹھیک سترہ سال بعد اسی کرسی اور اسی وائٹ ہائوس میں بیٹھنے والا جارج بش سے زیادہ متکبر اور متعصب شخص ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو عاجزانہ درخواست پیش کرتا ہے کہ اسے اس جنگ سے باعزت طور پر نکلنے میں مدد کی جائے۔
کہاں وہ غرور کہ امریکی صدر کی تقریر کا پہلا فقرہ وہی تھا جو فرعون نے حضرت موسیٰؑ کے بارے میں کہا تھا"تمہارے بہترین طریقِ زندگی کا خاتمہ کر ڈالیں گے(طٰہٰ:63)جارج بش کا فقرہ تھا۔ Today our Way of life came under attack"آج ہمارے طریق زندگی پر حملہ کیا گیا ہے" اس کے بعد پوری دنیا کو دھمکی دیتے ہوئے اس نے کہا"you are either with us or against us"یعنی "اگر تم ہمارے ساتھ نہیں ہو تو پھر ہمارے مخالف ہو"۔
تاریخ میں یہ فقرہ ہر اس متکبر نے بولا ہے جو اپنی بادشاہت کی طاقت کے نشے میں بدمست تھا۔ رومن بادشاہ جولیس سیزر کے دربارمیں 483قبل مسیح کو دربار کے سب سے بڑے عہدیدار مارکوس سسرو(cicero)نے سیزر کا فرمان پڑھ کر سنایا"ہم ان سب کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں جو جنگ میں ہمارے ساتھ نہیں تھے" لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اسی کے دوبار کے ساٹھ لوگ خنجر لئے اس پر حملہ آور ہوئے اور منٹوں میں اسے ڈھیر کر دیا۔ اس کے جسم پر خنجر گھونپنے کے 23زخم تھے۔
اس کے مارنے والوں میں اس کا سب سے بااعتماد ساتھی بروٹس بھی شامل تھا۔ سیزر کی زبان سے نکلا ہوا یہ فقرہ "Et Tu، Brute?"(اوہ بروٹس تم بھی) انسانی تاریخ کا المناک حصہ ہے۔ روس میں کمیونسٹ انقلاب آ رہا تھا۔ گلیوں، بازاروں میں قتل عام ہو رہا تھا تو اس لمحے سوویت یونین کے بانی ولادی میر لینن نے کہا تھا"ہر فرد آج یہ فیصلہ کر لے کہ وہ ہمارے گروہ میں شامل ہو گا یا ہمارے مخالفوں کے گروہ میں۔ غیر جانبدار رہنے والا بھی دشمن سمجھا جائے گا" اس کمیونسٹ روس کا انجام یہ ہوا کہ اس کے گروہ کے افراد جو دنیا بھر میں اس کا پرچم اٹھائے پھرتے تھے اس کے دشمن امریکہ کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے۔
جنگ عظیم دوم کے مشہور ڈکٹیٹر، اٹلی کے حکمران میسولینی نے کس قدر تحکمانہ لہجے میں کہا " O Con noi O Contro di noi"تم یا ہمارے ساتھ ہو یا پھر ہمارے مخالف" یہ فقرے بولنے والا میسولینی 25اپریل 1945ء کو اتحادی افواج کی یلغار کے بعد اپنی رکھیل کلارا پٹاسی کے ساتھ بھاگ نکلا۔ ایک گائوں ڈونگو (Dongo) کے نزدیک پہچانا گیا۔ پکڑا گیا آخری رات اس گائوں کے ایک چھوٹے سے گھر میں گزارنے دی گئی اور صبح ہوتے ہی گولیوں سے بھون دیا گیا۔
میسولینی اور پٹاسی کی لاشیں دو دن کی مسافت کے بعد میلان لائی گئیں اور ایک پٹرول پمپ کے باہر الٹی لٹکا دی گئیں۔ لٹکانے سے پہلے جب یہ وہاں رکھی ہوئیں تھیں تو اس کی اپنی قوم کے لوگ آتے، اس پر تھوکتے اور پتھر مارتے۔ تاریخ ایسے کرداروں سے بھری پڑی ہے جو اس لہجے میں بولتے تھے اور عبرت کا نشان بنا دیے گئے اور ایسی تہذیبوں کی داستانیں بھی سناتی ہے جو اس ترنگ میں جیتے تھے اور ملیا میٹ کر دیے گئے۔ اس لئے کہ یہ لہجہ صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کا لہجہ ہے جو ببانگ دہل فرماتے ہیں کہ دنیا میں صرف دو گروہ ہیں، حزب اللہ، اللہ کے دھڑے کے لوگ اور "حزب الشیاطین" شیاطین کے دھڑے کے لوگ۔
جارج بش نے ہو سکتا ہے دنیا بھر کے عیسائیوں کے پاس موجود مقدس کتاب "انجیل میں سیدنا عیسیٰؑ کے یہ فقرے پڑھے ہوں" جو کوئی میرے ساتھ نہیں ہے وہ میرا مخالف ہے(میتھیو 12۔ 30) یہ تقسیم صرف اس مالکِ کائنات کوزیبا ہے جو قضا و قدر کا مالک ہے۔ صرف وہی اپنے پیغمبروں کے ذریعے یہ اعلانِ عام کرواتا ہے کہ جو اللہ کی حاکمیت کا انکار کرتا ہے وہ اس کا دشمن ہے۔ جو فرد یا قوم اس لہجے میں بولنے لگے، اللہ اسے مقام عبرت بنا دیتا ہے۔
اسی طرح اللہ کی مدد اور نصرت کا بھی صرف ایک ہی اصول ہے، یہ اس شخص اور گروہ کے ساتھ ہوتی ہے جو مکمل طور پر اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس معاملے میں وہ ذرا سا شرک اور دوئی پسند نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ جسے اپنے ہتھیاروں اور قوت بازو پر بھی بھروسہ ہو اس سے بھی اپنی نصرت اٹھا لیتا ہے۔ وہ بار بار دنیا میں اپنی نشانیوں سے بے سروسامان لوگوں کو فتح سے ہمکنار کر کے اپنے مالک و مختار ہونے کا پتہ دیتا ہے۔
سیدالانبیاء کے تین سو تیرہ ساتھیوں کی بے سروسامانی کا عالم یہ تھا کہ ان کے پاس دو گھوڑے، چھ زرہیں اور آٹھ تلواریں تھیں اور توکل کا عالم یہ تھا کہ کیل کانٹے سے لیس ایک ہزار کے لشکر کے مقابل جاتے ہوئے ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی تھی۔ جارج بش کی تقریر سے ڈونلڈ ٹرمپ کے خط تک کا سفر غرور و تکبر سے ذلت و ہزیمت کا سفر ہے۔ خط کا ایک ایک لفظ اس شکست کا اعتراف کر رہا ہے جو صرف اکیلے امریکہ کو نہیں ہوئی، پوری دنیا کو ہوئی۔ یہ تو دنیا کی تاریخ کی سب سے حیران کن جنگ تھی کہ آسٹریلیا سے لے کر کینیڈا تک پوری دنیا ایک جانب تھی تو صرف چالیس ہزار بے سروسامان طالبان دوسری جانب۔
یہ سات ایٹمی طاقتیں ان کے مخالف تھیں۔ پوری دنیا کے دو کروڑ پانچ لاکھ فوجی، چار کروڑ اٹھانوے لاکھ ریزرو فوجی اور ستر لاکھ پیرا ملٹری فورسز کے جوان ان کے مقابل جنگ میں شریک تھے۔ ٹیکنالوجی اور فوجی برتری کے بت ان خاک نشینوں کے ہاتھوں چکنا چو ر ہو گئے۔ ٹرمپ کا خط پاکستان کی فتح نہیں ہے اس بات کا اعلان ہے کہ جس کسی نے اس قوم کو سترہ سال اس جنگ میں جھونکا۔ پچھتر ہزار انسانوں کے خون کا حساب اب اس سے لیا جائے۔
وہ جو خدا کے لہجے میں بولنے والے بش کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے تھے۔ انہیں کٹہرے میں کھڑا کرو۔ پرویز مشرف سے لے کر موم بتیاں جلانیوالوں تک، چینلوں پر فرعون صفت گفتگو کرنے والوں سے لے کر ٹیکنالوجی کے بت کے قصیدے گانے والوں تک، سب کو بلائو، اور سوال کرو کہ جب ان بیس کروڑ لوگوں میں تم طاقت کے فرعون کا ساتھ دے رہے تھے تو کیا تمہیں اندازہ تھا کہ میرا اللہ ذلت تمہارے چہروں پر لکھ دے گا۔
تمہیں اب بھی اندازہ نہیں، تمہارے دلوں پر مہریں لگی ہوئی ہیں۔ ورنہ تم فرعون کی صورت ہی پکار اٹھتے کہ "میں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتا ہوں۔ "