محبی و مکرمی ہارون الرشید صاحب نے تقریباً ایک ماہ قبل 29اکتوبرکو "دستک" کے عنوان سے کالم لکھا تو اس کی ابتدائی سطریں ایسی تھیں کہ دل ودماغ پر ایک ایسی کیفیت طاری ہوئی جو آج تک قائم ہے۔ برادرم اشرف شریف سے تذکرہ کیا کہ موت کا اس وارفتگی سے انتظار کسی نفسِ مطمئنہ والے شخص کا ہی خاصہ ہو سکتا ہے۔ کیا اطمینان ہے، "اب زندگی سے دل اُچاٹ ہونے لگا ہے، اب ٹھنڈے سائے کی آرزو ہے، اب دل مدینے کو لپکتا ہے"۔ انہوں نے کس محبت سے جہانِ نامعلوم کا ذکر کیا کہ دِل سے موت کا خوف ہی جاتا رہا۔ کیا بولتی سطریں ہیں، "مالک کی دنیا اس جہان سے تو بہر حال اچھی ہوگی۔ اس کے دامانِ رحمت کی وسعتیں بے کنار ہیں۔ اس کا سایہ ٹھنڈا ہے"۔ سچی بات ہے نثر میں موت کااسقدر پرسکون استقبال نظر سے نہیں گذرا۔ اقبال یاد آئے
نشانِ مردِ مومن با تو گویم
چوں مرگ آمدِ تبسم بر لبِ اوست
"میں تجھے بندۂ مومن کی نشانی بتاتا ہوں، جب اسے موت آتی ہے تو اس کے لبوں پر تبسم ہوتا ہے"۔ موت کی آرزو کرنا تو منع ہے، لیکن موت کے استقبال کی تیاری بہت ضروری ہے۔ یہ تو وہ سواری ہے جو عمر بھر زندگی کے صحرا میں بھٹکنے والے مسافر کو مسکن کی جانب واپس لے جانے آتی ہے۔ وہ گھر جہاں سے ہمارے جدامجد کو زمین پرایک عارضی ٹھکانہ بنا کر، زندگی گذارنے کا سامان بہم پہنچا کر، ایک محدود وقت کے لیئے بھیجا گیا تھا۔ ڈیڑھ سو سال پہلے کے بھلے وقتوں کے ایک ڈپٹی کمشنر تھے خواجہ عزیز الحسن، درویشی، طبیعت میں تھی، "مجذوب" تخلص کرتے تھے۔ حکمرانی سے جی اُکتا یا، ڈپٹی کمشنری سے استعفیٰ دیا اور سکول میں پڑھانے لگ گئے۔ ترکِ دنیا کا اس سے بڑااظہار کیا ہوسکتا ہے۔ اللہ نے ان کی صحبت میں ایسی تاثیر رکھ دی کہ جگرمراد آبادی اپنی بلانوشی کے عالم میں ان سے ملنے آئے اور ایسے لوٹے کہ شراب نوشی سے تائب ہوکر بقیہ زندگی شریعت کے مطابق گذارنے لگے۔ انہی "مجذوب"کی ایک مثنوی کا پہلا مصرعہ عموماًوالد صاحب مرحوم گنگنایا کرتے تھے، "جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے" اگلا مصرعہ تو حقیقت کھول دیتا ہے، "یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے"۔ ایسے لوگ اس حدیث کے مصداق دنیا میں رہتے ہیں، " دنیا مومن کے لیئے قید خانہ اور کافر کے لیئے جنت ہے" (سنن ترمذی)۔
دنیا کی بے رغبتی، عین اس وقت بھی انسان پر طاری ہوتی ہے جب ایسے لوگ دنیا سے رخصت ہونے لگتے ہیں، جن سے اس کی اپنی دنیا آباد رہتی تھی۔ مادی نقصان آدمی کو دنیا سے بیگانہ نہیں کرتا لیکن جن کے دم قدم سے اس کے اردگرد، روشنی و خوشبو بکھرتی ہو، وہ ایک ایک کر کے رخصت ہونے لگیں تو دل دنیا سے اُٹھ جاتا ہے۔ بلھے شاہ کی اس نظم والی کیفیت طاری ہوتی ہے، "اُٹھ گئے گواھنڈوں یار" یعنی سب ساتھی رخصت ہوگئے"، پیچھے تنہائی رہ گئی ہے یا موت کا انتظار۔ یادیں گھیر لیتی ہیں اور روح کی کیفیت اس پھڑپھڑاتے ہوئے پرندے کی صورت ہوجاتی ہے جو تن کا بوسیدہ لباس اتارنے کو بے تاب ہوجاتاہے۔ اک یقین کا عالم آتا ہے کہ کوچ کرنے والے اسکا عالمِ ارواح میں انتظار کر رہے ہیں۔۔ انسان کوحوصلہ دیتا ہے، موت کے استقبال کے لیئے تیار کرتا ہے۔ گذشتہ ایک سال سے یہی عالمِ بے کیفی و بے رغبتی طاری ہے۔ آدمی اپنے ماں باپ کو ٹھنڈی مٹی میں اتارکر کچھ دیر بعد دنیا میں مصروف ہوجاتا ہے کہ ابھی اس کا یہ دکھ بانٹنے والے موجود ہوتے ہیں۔ لیکن پھر ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب اس کی دنیا بالکل خالی ہونے لگتی ہے۔ گذشتہ چند ماہ تو غضب کے تھے، میں نے زندگی بھر اپنے پیاروں کے اتنے نوحے تحریر نہیں کئے، جتنے اس سال کئے ہیں۔ یہ چند دن تو غضب کے گذرے ہیں، لگتا ہے زندگی کی کتاب کے ورق اب تیزی سے پلٹنا شروع ہوگئے ہیں۔
عبدالقادر حسن چلے گئے، کہ زندگی کا وہ ورق تھے جن سے پہلی ملاقات سولہ سال کی عمر میں انارکلی کے سامنے ان کے رسالے "افریشیا" کے دفتر میں ہوئی، جہاں ان کی تحریروں کا سحر، ملاقات کے اشتیاق میں مجھے لے گیا تھا۔ کالم نگاری کا "مردِ کوہستانی" کہ جس نے بقول اقبال "فطرت کے مقاصد کی نگہبانی" کا فریضہ عمر بھر نبھایا۔ تحریر کا جادو ایسا کہ میرے جیسا مبتدی کئی سال یہ خواب دیکھتا رہا کہ نثر میں ایسی "سہل ممتنع"یعنی اس قدر روانی سے مشکل ترین بات لکھناکیسے نصیب ہوتا ہے۔ میاں افضل حیات رخصت ہوئے کہ جن سے تعلق کی عمر شاید اس عمر عزیز سے بھی زیادہ ہو۔ سیدنا علیؓ نے سیدنا عمرؓ کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ کچھ لوگ دنیا میں آپ کو اس لیئے بہت اچھے لگتے ہیں کہ عالمِ ارواح میں جب اللہ "عہد الست" لے رہا تھا وہاں وہ ایک دوسرے کے قریب تھے۔ میاں صاحب سے رشتہ بھی کچھ ایسا ہی تھا، اس میں عمر کی قید محسوس نہ ہوتی۔
پاکستان کی سیاست میں شرافت و نجابت کا ایک باب بند ہوگیا۔ وزیر رہے، پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی رہے، لیکن درویشی ایسی غالب تھی کہ ملنے والے کو احساس تک نہ ہونے دیتے۔ کھاریاں سے الیکشن لڑا کرتے تھے، کبھی جیتتے کبھی ہارتے۔ ان کے مخالفین ان کے بارے میں ایک ایسا فقرہ بولتے تھے جوپاکستانی سیاست کے چہرے کا بدنما داغ ہے۔ ان کے مقابل الیکشن لڑنے والے کہتے، "جس شخص نے زندگی بھر سیاست سے اپنے لیئے کچھ نہیں بنایا وہ تم لوگوں کے لیئے کیا فائدہ مند ہوگا"۔ گفتگو اس قدر خوبصورت کرتے کہ رات گذرنے کا احساس نہ ہوپاتا۔ ایسا ہی ایک اور شرافت و نجابت کا پیکر اور پاکستانی سیاست کے کیچڑ میں اُگنے والا گلاب، انور عزیز چوہدری رخصت ہوگیا۔ ان کے بارے میں تو میرا اپنی زندگی سے گلہ بنتا ہے، "تو بڑی دیر سے ملا ہے مجھے"۔ بلوچستان میں چوبیس سال زندگی گذارنے کے نقصانات میں سے ایک بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ میں ایسے سیاستدان کی مجلس اور دوستی سے محروم رہا کہ کتاب جس شخص کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ تہذیبی دانائی جس کے خمیر میں تھی اور پاکستان سے محبت اس کی علامت تھی۔ اب ایسے لوگ ناپید ہوتے جارہے ہیں جو قائد اعظم اور علامہ اقبال کی طرح یورپ سے پڑھ کر آئیں، لیکن مغربی تہذیب کے سب سے بڑے ناقد ہوں۔ انور عزیز چوہدری تو جیون ساتھی بھی وہیں سے لائے تھے، لیکن تمام عمر مٹی کی محبت میں گندھے رہے۔
سول سروس پر تو یہ چند دن قیامت کے گذرے ہیں۔ کیسے کیسے بلا کے افسران تھے کہ جن کے دبدبے سے دنیا کانپتی تھی، اب پیوندِ خاک ہو گئے۔"زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے"۔ حسن وسیم افضل چلا گیا کہ جس نے اپنی نوکری داؤ پر لگا کر زرداری اور بے نظیر کے سوئس اکاؤنٹس اور سرے محل کا سراغ لگایا تھا۔ زبیر شفیع غوری چلا گیا کہ رہا تو ریلوے میں آفیسر، لیکن آثارِ قدیمہ پر اس کی تصنیفات صدیوں ریفرنس کے طور پر زندہ رہیں گی۔ شیگان شریف کہ بائیس گریڈ میں ریٹائر ہوا، لیکن ایک گاڑی اور ڈرائیور کا خرچہ برداشت نہ کر سکتا تھا، بیٹا کینسر کے علاج کی خاطرلیئے لیئے پھرتا رہا۔ کینسر سے جنگ توجیت گیا لیکن "کرونا" سے ہار گیا۔ میرے دو پڑوسی، ایک ڈاکٹر شفقت جو میو ہسپتال میں "کرونا" کے ساتھ کشمکش کی حالت میں پہنچے لیکن وینٹی لیٹر ملنے سے پہلے ہی بازی ہار گئے اور دوسرے یٰسین صاحب کہ روز کا آمنا سامنا اور روز کی دعا سلام، لگتا ہے دہلیز ہی ویران ہو گئی ہے۔ انہیں آج جس قبرستان میں دفن کرنے گیا وہاں تازہ قبروں کی اتنی بڑی تعداد تھی کہ یوں لگتا تھا جیسے دستِ قدرت تیزی سے اس "بستی"کو آباد کرنا چاہ رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اب زندگی میں بھی قبرستان کا سناٹا راج کرنے لگا ہے۔ ایک دوسرا جہان آباد ہو رہا ہے۔ دونوں جہان میرے مالک کے ہیں۔ دونوں جگہ اس کی رحمتوں کے سائے ہیں، ڈر کس بات کا ہے۔