آج سے نو سال قبل امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن یہ کہہ رہی تھی کہ "افغانستان اور عراق" میں مہمات کی وجہ سے امریکی معیشت پر جو منفی اثرات ہوئے، اس کے نتیجے میں بہت سے لوگ یہ خیال کررہے ہیں کہ امریکہ کو بیرونِ ملک اپنی سرگرمیاں کم کرکے اندرونِ ملک ترجیحات کو بہتر بنانا چاہیے، ایسے لوگوں کے خیالات گمراہ کن (Misguided) ہیں۔ ہم نے ساٹھ برسوں سے اس "گھر واپس آؤ" والی طاقتوں کا مقابلہ کیا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی بیرونی دنیا میں اپنی مداخلت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے، وہ امریکی نظام کا پہیہ پیچھے گھمانا چاہتے ہیں، اور یہ ناممکن ہے۔ امریکہ کو اپنے کاروبار کے لئے نئی مارکیٹوں کی تلاش، ایٹمی ہتھیاروں کو پھیلاؤ سے روکنے اور سمندری راستوں کو تجارتی اور عسکری ضرورتوں کے لئے آزاد رکھنے کے لئے بیرونِ ملک مداخلت بہت ضروری ہے۔ یہ ہماری خوشحالی اور سیکورٹی کی ضامن ہے۔ 11اکتوبر 2011ء کے اس مضمون میں محترمہ کے یہ فقرے ملاحظہ فرمائیں :ـــ
"Harnessing Asia's Growth And Dynamism Is Central To American Economic And Strategic Interest and A Key Priority"
"ایشیاء کی ترقی اور آگے بڑھنے کی صلاحیت کو لگام ڈالنا امریکہ کے معاشی اور عسکری مفادات کے لئے ضروری ہے اور یہ ہماری اہم ترین ترجیح ہے"۔
ہیلری کلنٹن جس وقت ایک ایسے ایشیاء کو لگام ڈالنے کی بات کر رہی تھی، اسوقت چین معاشی اور عسکری ترقی کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔ ابھی تک اس نے اپنے علاقائی حصار کو توڑنے کے لئے صرف گوادر کی بندرگاہ تک روڈ بنانے کا اعلان کیا تھا تاکہ وہ مشرقی سمندر میں "ملاکہ" کی 2.8کلومیٹر تنگ گزرگاہ سے نجات حاصل کر سکے اور منڈیوں تک پہنچنے کے لئے اسے سفر بھی کم طے کرنا پڑے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لئے یہ ایک ڈراونا خواب ہے کہ چین مشرقِ وسطیٰ، یورپ، افریقہ یہاں تک کہ جنوبی امریکہ تک معاشی رسائی حاصل کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہیلری کلنٹن نے سفارتی آداب کے خلاف لفظ "لگام ڈالنا" (Harnessing) استعمال کیا۔ امریکہ کے اس ترجیحی اعلان کے صرف دو سال بعد، دسمبر 2013ء میں چینی صدر شئی جن پنگ نے اکیسویں صدی کے اپنے سب سے بڑے منصوبے"سمندری اور خشکی کی ایک گزرگاہ" (One Belt One Road) کا اعلان کردیا۔
صدر شئی نے اسے صدیوں پرانی "سلک روڈ" یعنی شاہراہِ ریشم کی ازسرِنو تعبیر قرار دیا۔ صدیوں پہلے چین انہی راستوں سے دنیا بھر میں اپنی تجارت کے لئے مشہور تھا۔ ہزاروں ارب ڈالر کا یہ منصوبہ حیران کن ہے۔ یہ شمال مغربی جانب سے چین کو الماتی، بشکک، سمرقند، دوشنبے، تہران، استنبول، ماسکو اور روٹرڈیم سے ملاتا ہے اور پھر وینس کی جانب گھومتا ہوا، ایتھنز کے بعد افریقہ کے نیروبی تک جاتا ہے۔ وہاں سے یہ سمندری راستہ اختیار کرتا ہوا ایک جانب گوادر اور دوسری جانب کولمبو، کوالالمپور، جکارتہ اور ہنوئی کے راستے دنیا بھر کا چکر کاٹتا ہوا واپس چین پہنچ جاتا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد تقریباً ایک سو ممالک چین کی تجارت اور معیشت کے ساتھ منسلک ہو جائیں گے۔ ان میں یورپ، ایشیاء اور افریقہ کے تمام ممالک شامل ہیں۔ اس "سمندری اور خشکی کی مشترک گزرگاہ" میں سب سے اہم "لنک" کاشغر سے گوادر تک کا وہ راستہ ہے جو چین کو مختصر ترین وقت میں ایشیاء اور افریقہ سے ملاتا ہے۔
جس وقت امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف تھا اور یہودی صہیونی لابی کے زیرِاثر اسرائیل کو محفوظ بنانے کے لئے ہر مسلمان ملک کو لگام ڈال رہا تھا اور انہیں جنگ اور خانہ جنگی سے تباہ کر رہا تھا، چین دنیا بھر میں سرمایہ کاری کر رہا تھا تاکہ کل اگر سمندری اور خشکی کی مشترک گزرگاہ مکمل ہو تو ان سے منسلک ممالک کا چین سے وابستہ تجارتی مفاد اس گزرگاہ کو آباد رکھے۔ دنیا کے اہم ترین ادارے جو معاشی سرمایہ کاری پر نظر رکھتے ہیں، ان کے مطابق چین نے اس وقت دنیا بھر میں تقریباً ایک ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ چین نے زیادہ تر سرمایہ کاری نسبتاً غریب اور ترقی پذیر ممالک میں کی ہے جو اس کی کل سرمایہ کاری کا 84فیصد ہے۔ اس نے ان تمام ممالک کی سڑکوں اور ذرائع آمدورفت کو بہتر بنانے کے لئے 734 ارب ڈالر خرچ کئے ہیں۔ چین کی سرمایہ کاری صرف ان ممالک تک محدود نہیں جہاں سے کل یہ شاہراہ گزرے گی بلکہ اس نے بحر اوقیانوس کے پار جنوبی امریکہ اور جزائر غرب الہند (Carribean) میں بھی تقریباً 73 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔
یہ وہ ممالک ہیں جنہیں کبھی امریکہ اپنا معاشی محکوم سمجھتا تھا۔ برازیل میں چین نے 55ارب ڈالر، پیرو میں 20ارب ڈالر، ارجنٹائن میں 12ارب ڈالر، یوسی ڈور میں 8 ارب ڈالر اور وینزویلا میں 5ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اسی طرح افریقہ کے ممالک میں بھی چینی سرمایہ کاری تقریباً 45ارب ڈالر ہے۔ ان تمام ممالک کے علاوہ خود عالمی طاقت امریکہ میں چین کی براہِ راست سرمایہ کاری 171ارب ڈالر ہے، جبکہ برطانیہ میں 73ارب ڈالر، سویٹزرلینڈ میں 60ارب ڈالر، کینڈا میں 50ارب ڈالر اور روس میں 39ارب ڈالر ہے۔ چین اپنی مشرقی سمت کے اہم ترین ممالک کی معیشتوں میں بھی اتنا ہی اہم ہو چکا ہے جتنا یورپ، ایشیاء اور افریقہ کیلئے ہے۔ آسٹریلیا میں چین کی سرمایہ کاری امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر 91ارب ڈالر ہے، سنگاپور میں 31 ارب ڈالر، کازکستان میں 19ارب ڈالر، ملائیشیا میں 18ارب ڈالر اور انڈونیشیا میں 14ارب ڈالر ہے۔ یہ اعداد و شمار ان ملکوں کے براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری (Foreign Direct Investment:FDI) چارٹس میں واضح ہیں۔
اتنی بڑی سرمایہ کاری اور اس کے ساتھ پوری دنیا کو "ایک سمندری اور خشکی کی گزرگاہ" سے منسلک کرنے کا منصوبہ ایسا ہے جسے بظاہر معاشی طور پر لگام ڈالنا امریکہ کے بس میں ہی نہیں ہے۔ امریکی معیشت کے پاس اسقدر سرمایہ ہی موجود نہیں۔ دنیا کی معیشتوں کو تباہ کرنے کا امریکہ کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ انہیں عسکری طور پر کچلے یا پھر ان ممالک کو اندر کی خانہ جنگی سے کھوکھلا کیا جائے۔ عالمی میڈیا میں گذشتہ بیس سال سے چین کے جنوب مغربی علاقے میں مسلمانوں کی بغاوت اور ان پر ظلم کی داستانیں عام کی جارہی ہیں اور وہاں ایک مسلح جدوجہد کو منظم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ وہ امریکہ کہ اگر کوئی مسلمان جہاد کی آیات بھی اپنی تقریر میں استعمال کرے تو اسے دہشت گرد قرار دے دیتا ہے، وہی امریکہ چین میں مسلمانوں کے جہاد کا علمبردار بنا ہوا ہے۔ چین کے مسلمانوں کے ذریعے بغاوت کی آگ بھڑکانے کے لئیے بہترین ملک پاکستان تھا۔ لیکن پاکستان کے چین کے ساتھ مضبوط تعلقات نے امریکہ کے لئے یہ راستہ مسدود کر کے رکھ دیا۔ پاکستان میں موجود جہادی قوتوں نے بھی اس معاملے میں امریکہ کا ساتھ نہ دیا۔ اصل وجہ یہ تھی کہ، چین کی گلگت بلتستان کے ساتھ کی سرحد سے مسلسل تجارت ہوتی ہے۔
اگر چین کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم و تشدد ہو رہا ہوتا تو جس طرح افغانستان سے مہاجر پاکستان آتے تھے، چین سے بھی مظلوموں کے قافلے جوق درجوق یہاں آتے۔ لیکن حیرت ہے چند چینی مسلمان یورپ میں بیٹھ کر ظلم کی داستانیں سناتے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن ان ہزاروں پاکستانیوں کو وہاں ایسا کچھ نظر نہیں آتا جو روزانہ چین جاتے ہیں۔ پاکستان سے مایوس ہو کر امریکہ نے بھارت کو یہ ذمہ داری سونپی اور "رائ" نے وہاں کئی سال تک افراتفری پھیلانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔ امریکہ کو چین میں بغاوت یا سول وار کا کوئی راستہ نہیں مل پارہا تھا اور دوسری جانب چین معاشی طور پر ملک پر ملک فتح کئے جا رہا تھا۔ ایسے میں گھبرایا ہوا امریکہ جو معاشی میدان میں تو چین کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا، اس نے خود کو عسکری ذرائع سے چین کو لگام دینے کے لئے 4نومبر2019ء کو بحرہند اور بحر الکاہل کو آزاد اور کھلا رکھنے کے عالمی پلان کا اعلان کردیا گیا۔ اس اعلان کے بعد سے بحر ہند اور بحر الکاہل، دونوں ایک بڑے میدانِ جنگ کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ یہ جنگ کب ہوگی، کون جیتے گا، کون زیادہ طاقتور ہے، کیا یہ جنگ صرف سمندر میں ہی لڑی جائے گی یا زمینی محاذ بھی کھلیں گے۔ بہت سے ایسے سوال ہیں جو تفصیل طلب گفتگو چاہتے ہیں۔ فی الحال یہ بات کہ اقبال کی سو سال پہلے کی گئی پیش گوئی روزِ روشن کی طرح واضح ہو چکی ہے۔
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے