دنیا کے کسی علم یا شعبۂ ہائے زندگی میں افراد کے دو طرح کے واضح گروہ بہرطور موجود ہیں۔ ایک روایت پرست اور دوسرے جدیدیت کے علمبردار۔ لیکن دونوں کا ہر شعبے میں اپنا اپنا احترام کا رشتہ قائم رہتا ہے۔ ادب میں ایک گروہ ہمیشہ پرانی طرزِ تحریر کا علمبردار ہوتا ہے اور دوسرا روایت شکن۔ آج سے پچاس ساٹھ سال قبل جب مبارک احمد اور اس کے ساتھیوں نے نثری نظم لکھنے کا آغاز کیا تو غزل کو شاعری کا کمالِ فن قرار دینے والا طبقہ ان کے خلاف لٹھ لے کر پڑ گیا۔ تمام معاشرے، کہانی کہنے اور لکھنے کے فن سے افسانہ نگاری اور ناول نگاری تک آئے۔ بڑے بڑے نام جن کے افسانے اور ناول دنیا کی ہر زبان میں ترجمہ ہوئے، لیکن جب ایک صدی قبل آئرلینڈ کے جیمز جوائس (James Joyce) نے اپنے مشہور ناول "Ulysses" کے ذریعے ایک ایسی طرزِ تحریر کو ایجاد کیا جس میں کہانی مفقود ہوگئی، افسانے کا ربط جاتا رہا اور صرف فقرے کی لذت اور تشبیہ و استعارے کا حُسن باقی رہ گیا تو بے شمار قدامت پسند ناول نگار اور افسانہ نویسوں نے اسے "خللِ دماغ" سے تعبیر کیا۔
اردو ادب میں بھی ڈپٹی نذیر احمد، منشی پریم چند اور سعادت حسن منٹو سے انتظار حسین تک، خوبصورت کہانی تحریرہوتی رہی، لیکن جیسے ہی ڈاکٹر انور سجاد اور ان کے ساتھیوں نے یورپ میں لکھے جانے والے جدید ناولوں اور افسانہ نگاروں کے طرزِ تحریر کو یہاں عام کیا تو روایت پرست کہانی سننے اور لکھنے والے دونوں کے ہاں، معتوب ٹھہرے۔ یہی عالم قدیم مصوری اور پینٹنگز کرنے والے مصوروں کا رہا ہے کہ ان کے چاہنے والوں نے جدید مصوری پر اتنے طعن و تشنیع کے تیر برسائے اور اتنے لطیفے مشہور ہوئے کہ تجریدی آرٹ کو ایک لایعنی فن بنا کر رکھ دیا گیا۔ بقول ضمیر جعفری "میں انناس سمجھتا تھا وہ عورت نکلی" جیسے اعتراض کے باوجود فرانس کے پکاسو سے لیکر ہمارے ملک کے احمد پرویز تک کسی کو بھی کبھی مصوروں کی فہرست سے خارج نہیں کیا گیا اور نہ ہی عبد الرحمٰن چغتائی اور استاد اللہ بخش کے احترام اور ان کے ماننے والوں میں کوئی کمی آئی۔
طب اور میڈیسن کی دنیا میں بھی ایسے ہی دو طرح کے گروہ مسلسل پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو روائتی طریقِ علاج پسند کرتے ہیں اور اسی پر قائم ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو سٹیرائیڈ اور اینٹی بائیوٹک کو علاج کے لیئے حرام اور مضر قرار دیتے ہیں۔ ہومیوپیتھک میں سنگل ریمڈی یعنی صرف ایک دوا کا استعمال قدیم طرزِ علاج ہے جس پر بیشمار ڈاکٹر ایمان کی حد تک عمل کرتے ہیں اوران کے نزدیک بہت سی (Multiple)دواؤں کے استعمال کا درجہ شرک سے کسی طور کم نہیں ہے۔ ماہرینِ دماغی امراض کا ایک طبقہ آج "ECT" یعنی دماغ کے خلیوں کو بجلی کے جھٹکوں سے زندہ کرنے کو اہمیت دیتا ہے، جبکہ اکثریت ایسی ہے جو اسے مفروضے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔ یہی عالم قدیم یونانی طب کا بھی ہے۔ دو طرح کے حکیم آپ کو دنیا بھر میں مل جائیں گے۔ پرانے اصولوں پر قائم اور انہیں علاج کے لیئے سودمند سمجھنے والے اور جدید دنیا کی تحقیق کے ساتھ دیگر نئی ادویات کو بھی علاج میں شامل کرنے والے۔ موسیقی کے باب میں تو گذشتہ ایک صدی سے یہ نظریاتی اختلاف اسقدر واضح ہے کہ کلاسیکل موسیقی والے فنکار یا ان کے دلدادہ جدید موسیقی کو سوہانِ روح سمجھتے ہیں، جبکہ جدید موسیقی کے پروانے اسقدر زیادہ ہیں کہ ان کے نزدیک قدیم کلاسیکی موسیقی اب صرف عجائب گھروں کی زینت بن چکی ہے۔ اسی طرح گھر بنانے اور طرزِ تعمیر میں جدید سہولیات کی بجائے پرانے اصول و قواعد کے مطابق حویلیاں اور محل نما گھر تعمیر کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ایسے لوگ جو دیواروں اور دہری چھتوں سے ائیرکنڈیشنڈ کا کام لیتے ہیں، جبکہ جدید دنیا کا ماہر تعمیرات اسے سرمائے کا زیاں قرار دیتا ہے۔
دنیا کے ہر شعبۂ ہائے زندگی میں قدیم تصورات پر قائم اور جدید دنیا کے طرزِ زندگی کو نہ اپنانا ایک ایسا رویہ ہے جس سے کوئی نفرت نہیں کرتا بلکہ اس کے ساتھ ایک طرح کی رومانیت وابستہ کی جاتی ہے۔ گاؤں کی طرح دوردراز علاقے میں کچے گھر میں جاکر رہنا، کھڈی کے بنے ہوئے کپڑے پہننا، خالص مکھن، لسی اور سبزیاں، دالیں استعمال کرنا، کار کی بجائے گھوڑوں کی بگھی استعمال کرنا، اور یوں اپنے لیئے ایک ایسا ماحول تخلیق کرنا، جو کئی صدیاں پرانا ہو تو اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر جگہ ایسے شہر آباد ہیں جو جدید شہری زندگی، لاؤڈ سپیکر، میڈیا، نیوآئن سائن، ٹریفک کے شور، یہاں تک کے بجلی سے بھی دور ہوتے ہیں۔ امریکی ریاست پنسلونیا کے ریڈ انڈین قبیلے "آمش" (Amish) کے چار لاکھ افراد، سوچ سمجھ کر ان تمام جدید سہولیات کو ترک کرکے رہ رہے ہیں اور پوری دنیا کے لوگ انہیں حسرت اور حیرت کے ملے جلے جذبات سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اوران میں اکثر یہ خواہش بھی کرتے ہیں کہ کاش وہ بھی ایسی ہی پرسکون دنیا آباد کر سکیں۔ یہ تمام" قدیم و جدید" رویوں کا تصادم صرف نظریات کی حد تک نہیں بلکہ عملی طور پر پوری دنیا، اپنے ہر شعبے میں دو گروہوں میں تقسیم ہے۔ لیکن دونوں ایک دوسرے کا احترام بھی کرتے ہیں اور اختلاف بھی رکھتے ہیں۔ کوئی کسی کو فرسودہ، جاہل، ترقی کا دشمن، جدیدیت کا مخالف، ہٹ دھرم اور ناکارہ نہیں کہتا۔
لیکن یہی معاملہ جب اسلام اور مولوی کے ضمن میں پیش آتا ہے تو ہر وہ مولوی یا مسلمان جو قدیم روایات، اسلاف کی روش اور سید الانبیاء ﷺاور ان کے صحابہ ؓ کی طرزِ زندگی کے عین مطابق خود کو ڈھالنا چاہتا ہے تو اسے جاہل، گنوار اور فرسودہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ اگر آج سے ڈیڑھ سو سال قبل چند علماء نے اپنی قدامت پرستی اور روایت سے محبت کی وجہ سے لاؤڈ سپیکر کو عام زندگی کے لیئے نہیں بلکہ صرف اور صرف نماز کے لیئے حرام قرار دیا تھا تو ان علماء کی یہ خطاء جو خالصتاً قدیم روایت سے محبت تھی، آج تک معاف نہیں کی جاتی۔ کوئی نوجوان جو سیکولرازم اور لبرل ازم میں قدم رکھتا ہے تو اس کو یہ درس دیا جاتا ہے کہ یہ مولوی تو جاہل ہیں، لاؤڈ سپیکر کو بھی حرام کہتے تھے۔ یہی معاملہ شروع شروع میں کیمرے سے تصویر اتارنے کے بارے میں دیکھنے میں آیا۔ چند علماء نے اسے صرف اپنے لیئے حرام قرار دیا، لیکن اسلام کے دشمنوں کی یادداشت اسقدر مضبوط ہوتی ہے کہ آج بھی اس عمل کو مولوی کو بدنام کرنے کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کوئی اتباعِ سنت ؐ میں اگر داڑھی رکھتا ہے، پگڑی پہنتا ہے، ٹخنوں سے اونچی شلوارپہن کر قدامت سے اپنا رشتہ قائم کرتا ہے تو اسے کوئی جدیدیت کا مارا محبت کی نظر سے نہیں بلکہ تفننِ طبع کے طور پر دیکھے گا۔
مولوی سے نفرت کی وجہ اس کا قدامت پرست لباس یا بود و باش اختیار کرنا نہیں بلکہ "اسلام" ہے۔ کسی سیکولر، لبرل یا ملحد کو کبھی ہندو پنڈت کے گیروے کُرتے اورماتھے کے تلک، یہاں تک کہ ننگے بدن گھومنے والے سے نفرت بھی نہیں ہوتی، کوئی بدھ بھکشُوؤں کے لباس کا مذاق نہیں اڑاتا، پادری کے لمبے چوغے اور رہباؤں کے حجاب اور عبایا کو برا نہیں کہا جاتا، یہودیوں کی ٹوپی مذاق کا باعث نہیں۔ بلکہ ان تمام مذاہب کے یہ لباس، رسم و رواج اور انکا رنگ ڈھنگ، جدید دنیا کے باسیوں کے لیئے ایک خوبصورت جہانِ حیرت ہے، رنگارنگ اور دلفریب منظرنامہ ہے۔ لیکن مولوی کا جبّہ و دستار، عمامہ و شلوار، داڑھی کی مقدار، عورتوں کا عبایا و حجاب سب کا سب "ارتقا" کا دشمن ہے، تہذیب کا قاتل ہے، جدیدیت کے راستے کی رکاوٹ ہے۔ اس کی اصل وجہ سمجھناکوئی مشکل نہیں۔ اقبال نے خوب سمجھائی تھی۔ اس نے اپنی نظم ابلیس کی "مجلسِ شوریٰ" میں ابلیس کے منہ سے کہلوایا
ہے اگر کوئی خطرہ مجھ کو تواس اُمت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو