آج سے صرف بیس سال قبل جو افراد، علمائے کرام اور جدیدیت میں جکڑے ہوئے مفکرین، قیامت کے قرب میں ہونے والی بڑی جنگوں کے بارے میں ابوابِ فتن میں موجود احادیث کی اسناد پر بحث کرتے تھے، کسی کو من گھڑت، کسی کو ضعیف اور کسی کو سیاسی مقاصد کے تحت تخلیق کردہ قرار دے کر مسترد کردیتے تھے، آج حیرت میں گم ہیں۔ کیونکہ انکے نظریہ علت و معلول (cause and effect) کے تحت اللہ نے یہ اسباب کی دنیا بنائی ہے، اس لیے جیسے حالات ہوں گے، ویسے ہی نتیجے برآمد ہوں گے۔
ان اصحاب اور ملحدین میں صرف ایک فرق ہے کہ ملحدین سرے سے خدا کے وجود کا انکار کر دیتے ہیں جبکہ انکا تصورِخدا اتنا محدود ہے کہ اس نے یہ دنیا تخلیق کی، اسے ایک قانون کے تابع کیا، پیغمبروں کے ذریعہ ہدایت بھیجی اور قیامت کی آمد کے انتظار تک وہ اب اسکے معاملات سے بے دخل ہوگیا ہے۔ اب جیسا لوگ یہاں کریں گے اسکا نتیجہ بھی ویسا ہی برآمد ہوگا۔
البتہ غلط اور صحیح عمل پر جزا و سزا آخرت میں دی جائے گی۔ لیکن اسلام کا اللہ سمیع و بصیر بھی ہے اور اپنے فیصلوں پر بھی قادر ہے۔ وہ آج بھی لوگوں کو اپنی طرف واپس لانے کے لیے آزمائش اور عذاب میں بھی ڈالتا ہے اور آزمانے کیلئے نعمتوں میں اضافہ بھی کرتا ہے۔ وہ ہر گھڑی لوگوں، قوموں اور گروہوں پر نظر رکھے ہوئے ہے اور انکے بارے میں مسلسل فیصلے بھی صادر فرماتا رہتا ہے۔ اسکے اسی حسنِ انتظام کا ایک بڑا حصہ وقت سے پہلے لوگوں کو ڈرانے (warnings) کا بھی ہے۔
وہ فرماتا ہے "اور اس بڑے عذاب سے پہلے بھی ہم انہیں کم درجے کے عذاب کا مزہ ضرور چکھائیں گے، شاید و باز آجائیں )السجدہ21: (۔ یعنی! قیامت سے پہلے وہ قوموں کے افعال دیکھ کر انہیں مختلف عذابوں سے جھنجوڑتا ہے تاکہ وہ باز آ جائیں۔ یہ اسکی لوگوں کی زندگیوں میں مسلسل براہ راست مداخلت (intervention) ہے۔ وہ پیغمبروں کے ذریعے ہدایت دینے کے بعد بھی ہمیں روز یہ دعا مانگنے کی تلقین کرتا ہے۔ "چلا ہمیں سیدھے راستے پر"(الفاتحہ)۔
یہی وجہ ہے کہ اختتام دنیا سے قبل چونکہ دنیا کے حالات اسقدر دگرگوں ہو جائیں گے کہ آدمی کا ہدایت پر قائم رہنا مشکل ہوگا۔ تو اسی مقصد کے لئے اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے قیامت سے کچھ عرصہ قبل یعنی آخر الزماں کے بارے میں بہت تفصیل سے پیش گوئیاں عوام تک پہنچائیں۔ یہ پیشگوئیاں صرف سید الانبیاء ؐکی احادیث کی صورت میں نہیں ملتیں بلکہ تینوں ابراہیمی مذاہب کی کتب میں ایک بڑا حصہ قیامت کے قریب ہونے والے واقعات کے بارے میں موجود ہے۔
یہودیوں کے ہاں لیسعیاہ (Isaiah) کی کتاب اور دانیال کے مکاشفات اور عیسائیوں کے ہاں بھی ان دونوں پیغمبروں کی کتب کے عہد نامہ قدیم میں موجودگی کے علاوہ متی، بوایل اور مکاشفہ کے ابواب میں قیامت سے پہلے کے دور کے بارے کی مکمل تفصیل موجود ہے۔
بشارتیں، پیش گوئیاں اور جنگوں کا احوال ہے یہی وجہ ہے کہ یہودی بحیثیت قوم گذشتہ ایک سو سال پہلے یعنی 1920ء سے ان پر یقین کرکے اس مقدس جگہ یعنی یروشلم میں جاکر آباد ہونا شروع ہوگئے تھے اور اب وہ ایک طاقتور اسرائیل کے طور پر ان پیشگوئیوں کی سچائی کی علامت بن چکے ہیں۔ جبکہ انہی گذشتہ سو سالوں میں مسلمانوں کے سامنے قرآن میں اس علامت کا ذکر موجود تھا، فرمایا "اسکے بعد بنی اسرائیل سے کہا تم زمین میں بسو لیکن جب آخری وعدے کا وقت آئے گا تو ہم تم کو واپس اکٹھا کر دیں گے(بنی اسرائیل106:)۔ لیکن اس آیت کو عقلیت پرست، روز حشر سے منسلک کرتے رہے اور اللہ نے انکے سامنے ہی اسی بنی اسرائیل کو جسے کہا تھا "ہم نے تم کو مختلف علاقوں میں تقسیم کردیا(الاعراف164: )اپنے وعدے کے مطابق واپس یروشلم میں اکٹھا کر دکھایا۔ لیکن عقل و خرد کے پروانوں کو غیب پر یقین کی لذت بڑی مشکل سے ملتی ہے۔
غور کرو!کہ اب مصر سے لے کر برصغیر تک جو کچھ برپا ہے، جن خطوں میں قتل و غارت اور تباہی و بربادی ہے وہ پکار پکار کر بتارہے ہیں کہ دیکھو سب کچھ تو رسول اکرم ﷺ کی احادیث میں بتائی گئی پیشگوئیوں کے عین مطابق ہو رہا ہے۔ شاید اب کسی کو احادیث کی سند ڈھونڈنے، راوی کے کردار اور نظریات پر بحث کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب(سورج کا نکلنا ہی اس کی دلیل ہوتا ہے)۔
اس دلیلِ آفتاب پر پختہ ایمان ان یہودیوں کا ضرور ہے جو دنیا کے شاندار ملکوں کا عیش و آرام چھوڑ کر بے آب و گیاہ اسرائیل میں آکر آباد ہوئے ہیں۔ وہ اپنی مقدس کتب میں موجود ایک ایک پیشگوئی کی روشنی میں اپنے فیصلے کرتے ہیں۔ چند دن پہلے، 9 اگست 2019 کو اسرائیل کے تمام اخبارات میں ایک ہیڈلائن تھی۔ جس میں ذکر تھا کہ ہیکل سلیمانی "Temple Mount "پر لومڑیوں کا نظر آنا اس پیشگوئی کی صداقت ہے کہ اب یہاں پھر ہیکل دوبارہ تعمیر ہوگایہ لومڑیاں یروشلم کی مغربی دیوار کے ساتھ گھومتی نظر آرہی ہیں۔
اسکا ذکر ان کی کتاب گریہ "Lamentations "کی آیت (5: 18) میں ہے کہ "بابل کے لوگ ہیکل سلیمانی تباہ کر دینگے اور ایک دن اس میں لومڑیاں گھومیں گی"۔ یہ پیشگوئی پیغمبرحضرت اوریا کی ہے۔ جبکہ اس سے براہ راست متعلق دوسری پیشگوئی تالمود میں حضرت زکریا کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ" ایسا اگر ہوا تو ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر ہوگا" (مکوت (24۔ B۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے سے اسرائیل میں ایک خوشی کی لہر دوڑی ہوئی ہے کہ اب ہیکل سلیمانی کی دوبارہ تعمیر ہونے والی ہے اور وہاں سے تخت دائود پر بیٹھ کر پوری دنیا پر حکومت کرنے کے دن قریب ہیں۔
یہ سب تو انکی کتابوں کے مطابق ویسا ہوتا جا رہا ہے اور رسول اللہ کی احادیث بھی بالکل اسکی نشاندہی کرتی ہیں۔ لیکن ایسا ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن یہودیوں کے لیے ایک وارننگ دیتا ہے "لیکن اگر تم وہی کام کرو گے تو تم کو تہس نہس کرکے رکھ دیں گے (بنی اسرائیل: 8) اس تہس نہس کا سارا نقشہ رسول اکرم ﷺ نے ترتیب سے بتا دیا جسکا آخری منظر یہ ہوگا کہ مسلمان یہودیوں کو قتل کریں گے یہاں تک پتھر اور درخت پکاریں گے کہ میرے پیچھے یہودی چھپا ہے اسے قتل کرو (مفہوم حدیث: مسلم، مشکوۃ)۔
دلیل آفتاب کی علامت ایک اور حدیث بھی ہے جسکی سند پر گذشتہ کئی سو سالوں سے بحث جاری ہے، لیکن آج وہ حدیث بھی روز روشن کی طرح واضح ہوتی جارہی ہے۔ یہ حدیث دورِ آخر میں ملکوں کی تباہی اور ہلاکت کے بارے میں ہے۔ لیکن اس سے پہلے قرآن پاک کی پیشگوئی دیکھ لیں"اور کوئی قوم ایسی نہیں جسے ہم روز قیامت سے پہلے ہلاک نہ کریں یا اسے سخت عذاب نہ دیں، یہ بات کتاب میں لکھی جاچکی ہے(بنی اسرائیل: 59)، اس خرابی و تباہی اور عذاب کا تفصیلی تذکرہ دو احادیث میں ملتا ہے، ایک کے راوی حذیفہؓ بن یمان ہیں۔
جسے قرطبی اور نعیم بن حماد نے درج کیا ہے اور دوسری کے راوی وھبؓ بن منبہ ہیں جو السنن الواردفی الفتن میں موجود ہے۔ اس حدیث کے مطابق دنیا میں خرابی و تباہی پھیل جائے گی اور یہ اسوقت تک نہیں ہوگا جب تک مصر خراب نہ ہوگا، مصر تب خراب ہوگا جب بصرہ میں خرابی آئے گی اور بصرہ کی خرابی، عراق کی خرابی سے شروع ہوگی۔ اسکے بعد آپ ﷺ نے خرابی کی وجوہات بتائیں جن میں مکہ ومدینہ کی خرابی بھوک سے ہوگی۔ اسی حدیث میں سندھ یعنی موجودہ پاکستان اور ہند یعنی موجودہ بھارت، اور الصین یعنی موجودہ چین کابھی ذکر ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا سندھ کی خرابی ہند سے، اور ہند کی خرابی چین سے۔ آج کے تناظر میں صرف اس حدیث کو سامنے رکھ کر حالات حاضرہ کا جائزہ لیں تو پورا منظر کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ اس وقت بھارت کے خلاف سیکورٹی کونسل میں سب سے توانا آواز چین کی ہے جس نے اسے اپنے مفادات پر حملہ قرار دیا ہے۔ یہ تناؤ کہاں تک جائے گا، یقیناہند(بھارت) کی تباہی تک جائے گا۔ یعنی اس حدیث کے عین مطابق جس میں غزوہ ہند میں ہند کے بادشاہوں کو جکڑنے کا ذکر ہے، بھارت پہلے ہی کئی حصوں میں تقسیم ہو جائے گا اور پھر غزوہ ہند کا آغاز ہوگا۔
سندھ (پاکستان) اور ہند (بھارت کے درمیان ہونیوالی لڑائی کو بھی سامنے رکھیں جس میں تباہی ہی تباہی ہے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ خراسان کے لشکر کا بیت المقدس میں جانا اور وہاں امام مہدی کی نصرت کرنا پھر وہاں سے جہاد ہند کے لیے لشکر روانہ کرنے کی روایت نظر میں ہو تو آنے والے دنوں کا نقشہ ترتیب دیا جا سکتا ہے۔
پاک بھارت جنگ جسکے نتیجے میں خطے کا امن تباہ، چین کی دخل اندازی، بھارت کا حصوں میں بٹنا، یروشلم میں ہیکل سلیمانی کی تعمیر، خراسان سے فوج کا کمک کیلئے پہنچنا، سیدنا مہدی کا اقتدار اور پھر ہند سے لڑنے کے لیے پاکستان کی جانب فوج کی روانگی، اور دونوں کی مل کر غزوہ ہند میں شمولیت، ھند کی مکمل تباہی، اسکے خزانوں کو بیت المقدس تک لے جانا اور اس دوران سیدنا عیسیؑ کا نزول۔ احادیث سے ترتیب تو یہی لگتی ہے باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔