اس عالمِ بے بسی اور قید تنہائی کے عالم میں بھی اگر کوئی مسلمان قرآن پاک کی تعلیمات اور سید الانبیاء ﷺ کی احادیث کی روشنی میں موجودہ حالات کی گتھی سلجھانے کی کوشش نہیں کرتا، تو یقیناً وہ ایسا بدنصیب ہے جس پر ابھی نور ہدایت کے دروازے کھلنے کا وقت نہیں آیا۔
افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور وسیع ریگستانوں میں دنیا کی جدید اور طاقتور ترین جنگی صلاحیت کی ذلت آمیز شکست سے لے کر نیویارک لندن اور پیرس جیسے شہروں میں انسان کی طبی سائنس کی بے بسی تک، کیا یہ سب کچھ کافی نہیں ہے کہ ہم اس کائنات پر ویسے ہی غور کرنا شروع کر دیں جیسے اس کائنات کا مالک چاہتا ہے۔ میرا اللہ تو اپنے ذکر کو بھی تفّکر سے منسلک کرتا ہے، "جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور زمین اور آسمانوں کی ساخت میں غوروفکر کرتے ہیں" (آل عمران: 19)۔
زمین و آسمان کی تخلیق میں اللہ نے ابدی راز چھپا رکھے ہیں تاکہ جب انسان ان کی وسعتوں میں کھونا شروع کرے تو اسے خالق و مالکِ کائنات کی قدرت، ہیبت اور انصرام کا اندازہ ہو۔ یہ سب تو اللہ نے علم کے راستے کے مسافروں کے لیے فرمایا کہ غوروفکر جن کا اوڑھنا بچھونا ہے، مگر اللہ تو ایک عام ذہن رکھنے والے کے لیے بھی بار بار اپنی نشانیوں سے سمجھاتا ہے۔ زمین پر بسنے والے خداؤں کو انکے سامنے بے بس کر دیتا ہے۔ ایسے میں جو ہدایت کے طلبگار ہوتے ہیں وہ سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا رکھی ہے وہ اس بے بسی کی کوئی نہ کوئی سائنسی تعبیر کرکے دل کو تسلی دیتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن انسان موت پر قابو پا لے گا، دوا ایجاد کر لے گا، ٹیکنالوجی جیت جائے گی۔
یہ ہے وہ فریب نظر جس میں اس وقت دنیا کے سات ارب انسانوں کی اکثریت گرفتار ہے۔ بڑے بڑے شہروں کے تنگ فلیٹوں میں بندلوگ مایوسی کا شکار ہیں، بڑے گھروں کے باہر سڑکوں کا سناٹا انہیں کھانے کو دوڑ رہا ہے۔ وہ جو سرِشام ساغرومینا میں غرق اور رقص و سرود میں غلطاں ہوا کرتے تھے، یاد کرتے ہیں تو رو پڑتے ہیں۔ فیکٹریوں، کارخانوں، شاپنگ مالوں اور کاروباری سلطنتوں کی بیلنس شیٹ خاموش ہے، یوں لگتا ہے ان سے کسی نے زبردستی یہ رجسٹر چھین کر بند کر دیئے ہیں۔ شادی کی خوشی میں جام لنڈھائے جارہے ہیں اور نہ ہی پیاروں کو دفن کرتے وقت سیاہ لباس زیب تن کرکے پھولوں کے گلدستے سجائے جا رہے ہیں۔
لاتعداد ایسے ہیں جنہوں نے مدتوں سے اپنی تفریحی شیڈول بنا رکھے تھے، ٹور آپریٹرز کے سفری منصوبے (Itenerary) جن کے ہاتھوں میں تھی، ہوٹلوں، کیسینوز اور بحری سفر کی بکنگ موجود تھی، وہ جن کی پورے سال کی بزنس میٹنگز، ورکشاپ، کانفرنسیں ایک ترتیب سے منعقد ہونا تھیں، آج سب کے سب دم بخود سانس روکے ہوئے ہیں۔ سب اس انتظار میں ہیں کہ کوئی اچانک پکار اٹھے " کورونا پر قابو پالیا" اور وہ ایک دم تنہائی کا خول توڑ کر عالمِ رقص میں آجائیں۔ لیکن وہ کہ سائنس جن کا اوڑھنا بچھونا ہے، خوب جانتے ہیں کہ اپنی تمام تر ترقی کے باوجود ابھی تک انسان اس قابل نہیں ہو سکا کہ ہمالہ کی بلندیوں سے یہ پکار کر کہے "یہ دیکھو ہم نے کورونا پر قابو پا لیا"۔
آج سے دو سو سال قبل جن سیکولر ملحدین نے یہ نعرہ بلند کیا تھا، " انسان عظیم ہے خدایا"، ان کے پیرو کار بھی خود کو اس دعویٰ کے قابل نہیں سمجھ رہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس بیچارے کمزور انسان نے کورونا وائرس کے جد امجد "سپینش فلو"کا جو 1918ء میں پانچ کروڑوں انسانوں کی جان لے کر گیاتھا، آج سو سال گزرنے کے بعد بھی علاج دریافت نہیں کیا۔ یہ وائرس کبھی برڈفلو اور سوائن فلو کی صورت شکلیں بدل کر حملہ آور ہوتا رہتا ہے، "یہ ترقی یافتہ انسان" کورونا پر قابو پانے میں نہ جانے کتنے سال لے گا۔
آج یہ کمزور انسان رفتہ رفتہ ڈپریشن اور ذہنی امراض کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے، مستقبل سے مایوسی اسے پاگل بنا رہی ہے، تنہائیاں اسے دیوانگی کی حد تک پریشان کر چکی ہے، لیکن ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ حرم کے میناروں سے ویٹیکن کی کھڑکیوں تک، بنارس کے ساحلوں سے دیوار گریہ تک، سات ارب انسانوں نے بحیثیت مجموعی اللہ کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کرکے اب تک مدد نہیں مانگی۔
کچھ دیوانے ہیں، جو راتوں کو روتے ہیں اور اللہ سے معافی کے طلب گار ہیں، لیکن اجتماعی جرائم اور ظلم کے بعد اللہ نے ایک ہی راہ دکھائی۔ اجتماعی معافی مانگنے کی راہ، فرمایا، "پھر کیا کوئی ایسی مثال ہے کہ ایک بستی عذاب دیکھ کر ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کیلئے نفع بخش ثابت ہوا ہو؟ یونسؑ کی قوم کے سوا (کوئی نظیر نہیں )۔ وہ قوم جب ایمان لے آئی تو ہم نے اس پر سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ٹال دیا تھا اور اس کو ایک مدت تک زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقع دے دیا تھا (یونس: 98)۔
ہمارے ہاں یہ تصور شاید عام ہے کہ چونکہ ہم مسلمان ہیں تو ہم صاحب ایمان ہیں۔ ایمان اقرار نہیں تصدیق چاہتا ہے اور اللہ ہر لمحے اپنے اوپر ایمان کی آزمائش کرتا ہے۔ وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ آپ زندگی میں اس سے کب، کیسے اور کس طرح مدد مانگتے ہیں، اور آپ کو اس کی ذات پرکس قدر بھروسہ ہے۔ انفرادی زندگی کی پریشانیوں، مصیبتوں اور الجھنوں سے تنگ آیا، شخص جب تنہائی میں اپنے رب کو پکارتا ہے تو وہ مضطرب دلوں کی فریاد سنتا ہے۔ لیکن جب مصیبت اجتماعی ہو تو اللہ، رجوع، استغفار اور توبہ بھی اجتماعی چاہتا ہے۔
وہ چاہتا ہے کہ پوری کی پوری قوم اپنی بے بسی، لاچاری اور بے ثباتی کا کھلے عام اجتماعی طور پر اظہار کرے۔ لیکن شاید ابھی تک وہ دن نہیں آیا۔ ابھی تک انسانوں کو اپنے قوت بازو پر بھروسہ اور اپنی سائنسی تحقیق سے امیدیں وابستہ ہیں کہ ایک دن اچانک کسی لیبارٹری سے یہ نعرہ مستانہ بلند ہوگا کہ "ہم نے کورونا پر قابو پالیا"۔ ہو سکتا ہے کہ یہ نعرہ بلند بھی ہو جائے۔ انسان کچھ عرصے بعد نارمل زندگی کی جانب بھی لوٹ آئے، بازار کھل جائیں، شہروں کی چہل پہل بحال ہوجائے۔ یہ سب کچھ عین ممکن ہے۔
میں یہ دعوی سائنسی طور پر نہیں اللہ پر تیقن کی بنیاد پر کر رہا ہوں۔ اس لیے کہ اللہ کسی بستی کو کبھی مسلسل عذاب کی کیفیت میں اسی وقت ڈالتا ہے جب اسے مکمل تباہ کرنا مقصود ہو، جبکہ موجودہ دنیا نے تو ابھی قیامت کی آمد کے تمام مراحل سے گزرنا ہے۔ اس دنیا پر ابھی حق نے واضح ہونا ہے۔ ایسے میں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دنیا اسی طرح مسلسل لاک ڈاؤن چلتی رہے۔ یقیناََ میرا اللہ اپنی اس ناراضگی کو ہم سے دور کر لے گا۔ مگر آزمائش کے خاتمے کے بعد خطرہ صرف اور صرف ایک ہی ہے وہ بہت خوفناک ہے کہ ہم اللہ کی طرف پلٹنے کا سنہری موقع کھو دیں گے۔
اللہ نے جنوری 1918ء سے دسمبر 1920ء تک اس دنیا کو ایسا ہی ایک موقع دیا تھا، جھنجھوڑا تھا۔ پچاس کروڑ شکار ہوئے اور پانچ کروڑ مارے گئے، لیکن جیسے ہی اللہ نے وہ آفت دور کی تو انسان پکارا "ہم نے "سپینش فلو " پر قابو پا لیا" اورپھر اس کے بعد اس دنیا کے سو سال اللہ کی نافرمان تہذیب کو پروان چڑھایا، جدید مغربی تہذیب جس کی بنیاد منکرات، سود، فحاشی اور مادیت پر رکھی گئی۔ سو سال پہلے اس دنیا کے خرابے میں مسلمان، ہندو، عیسائی، یہودی سب آباد تھے۔ ان سب نے کہا ہم بیسویں صدی کے سائنسی اور عقلی انقلاب میں داخل ہوگئے ہیں۔ ہم اللہ کو دکھائیں گے کہ "انسان عظیم ہے"۔
آج ٹھیک سو سال بعد اللہ نے انسان کی بسائی ہوئی ساری بستی اجاڑ دی ہے، ساری برتری خاک میں ملا دی ہے۔ عین ممکن ہے یہ وارننگ کچھ دیر بعد ختم ہو جائے، لیکن ایک خوف ہے، ڈر ہے کہ انسان اللہ کی طرف رجوع، توبہ استغفار کا یہ آخری موقع نہ کھو دے۔ ہمیں اللہ نے خواب غفلت سے جگایا ہے۔ جھنجھوڑا ہے اگر اب بھی ہم اللہ کی طرف نہ لوٹے تو پھر جس آخری دور میں ہم داخل ہو چکے ہیں شاید ہمیں دوبارہ موقع نہ مل سکے۔