کیا کسی کو علم ہے کہ جنوبی امریکہ کے مغربی ساحلوں پر ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کا نام ایکوا ڈور (Ecuador)ہے۔ اس نے ایک دن اپنے ملک میں موجود ورلڈ بنک کے مستقل نمائندے کو نکال باہر کیا۔ اس کے مرکزی بنک کی عمارت میں آئی ایم ایف کے دفاتر تھے۔ انہیں حکم دیا کہ فوراً یہاں سے اپنا بوریا بستر گول کرو۔ اور ورلڈ بنک کے 1966ء میں قائم کردہ عالمی سرمایہ کاری کے تنازعات حل کرنے والے ادارے International Center for Settlement of Investment Disuputesسے استعفیٰ دے دیا۔
لیکن یہ کوئی پہلا ملک نہیں تھا اس سے دو سال پہلے بولیویا (Bolivia)نے بھی بینکاری کے اس عالمی آکٹوپس سے نجات کا اعلان کر دیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے وہ تمام قرضے ادا کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا جو عالمی سطح پر ان کے ذمے واجب الادا تھے۔ اس صف میں ارجنٹائن (Argentina)اور پیرا گوئے (Paraguay)بھی شامل ہو گئے۔ انہوں نے اپنے اوپر عالمی بینکاری نظام کے ان قرضوں کو ناجائز اور غیر اخلاقی(ilIegitimate)قرار دے دیا۔ عرف عام میں اس لفظ کا ترجمہ "حرامی" کیا جاتا ہے۔
ان تمام ممالک نے ایسا ایک مسلسل عوامی تحریک کے بل بوتے پر کیا اور ان کی حکومتوں نے اپنے قرضوں کی تفصیلات جانچنے اور نوعیت معلوم کرنے پر طویل محنت کی جسے وہ "قرضوں کا آڈٹ "کہتے ہیں۔ ایکوا ڈور کی مثال کا مطالعہ کرتے ہیں۔ بحرالکاہل کے کنارے پر واقع کولمبیا اور پیرو کا پڑوسی یہ ملک جس کی کل آبادی ایک کروڑ ستر لاکھ کے قریب ہے جس کے پاس دنیا کی عالمی طاقتوں کو للچانے کے لیے تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ یہ ملک مدتوں قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے غربت و افلاس کا شکار رہا یہاں تک کہ 2001ء میں اس کی چالیس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی تھی۔
امریکہ نے جس طرح لاطینی امریکہ کے دیگر ملکوں میں کمیونزم کے خلاف جنگ کے لیے ان کی افواج کو تخت پر بٹھایا تھا۔ ویسے ہی 1972ء میں فوجی جرنیل گولیمر موروڈری گوز"Guillerme Rodriguwz"نے امریکی امداد سے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا اور اس راستے دنیا بھر کے عالمی مالیاتی ادارے بینکار اور معاشی غارت گر سرمایہ کاری کے نام پر اس ملک پر چڑھ دوڑے۔
ان اداروں اور بینکاروں کا اصل مقصد کسی ملک کو قرضوں کی دلدل میں جکڑ کر اس کے وسائل پر قبضہ کرنا ہوتا ہے اور یہی کام ایکواڈور میں کیا گیا۔ لیکن 1993ء میں ایک شخص رافیل کوریاRafael Correaایکوا ڈور کی سیاست کے افق پر نمودار ہوا۔ یہ شخص الینوائے یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی تھا۔ اس نے آمریت کے زمانے میں سرکاری نوکری اختیار کی اور وزارت تعلیم و ثقافت میں ڈائریکٹر ہو گیا اسی دوران اس کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اسے ملک کا وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔
اسی دوران اس کا واسطہ آئی ایم ایف سے پڑا جنہوں نے اس ملک کو قرضوں میں جکڑ رکھا تھا اور 2002ء میں انہوں نے یہ شرط عائد کی تھی کہ ایکواڈور کے تیل سے ہونے والی آمدن کا 70فیصد براہ راست عالمی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ان اداروں یا بینکوں کو دے دیا جائے گا اور اس شرط پر عملدرآمد ہو رہا تھا۔ یوں ملک کے پاس اپنے عوام پر خرچنے کے لیے اپنی ہی دولت میں سے تیس فیصد بچتا تھا۔
وہ اس عالمی مالیاتی نظام اور اس کے شکنجے کا سب سے بڑا ناقد بن گیا، اس نے 2006ء میں صدارتی الیکشن کے لیے اپنی مہم کا آغاز کیا جسے شہری انقلاب یعنی Citizen Revolutionکا نام دیا۔ اس نے عالمی قرضوں، آزاد تجارت اور عالمی مالیاتی اداروں سے نجات کا نعرہ بلند کیا اور وہ پہلی دفعہ الیکشن میں 23فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
مگر کسی کے پاس 51فیصد ووٹ نہ تھے کہ صدر منتخب ہوتا، 4دسمبر 2006ء کو دوبارہ الیکشن ہوئے اور اس نے 57فیصد ووٹ حاصل کر لئے اور وہ ایکواڈور کا صدر بن گیا۔ صدر بننے کے بعد رافیل نے دنیا میں زور شور سے چلنے والی تحریک کو اپنے ملک میں آنے کی دعوت دی۔ اس تحریک کا نام "ناجائز قرضوں کا خاتمہ" Committe for the Abolition of illegitimate Debt تھی۔
اس تحریک کا روح رواں ایرک ٹوسینٹEric Toussaintایک عالمی سطح کا سیاسی معاشیات کا سکالر ہے۔ جس کی کتاب "بینکوکریسی" Banko Cracyنے تہلکہ مچا دیا تھا۔ یہ تنظیم دنیا بھر میں غریب ممالک کو دیے گئے قرضوں کو ناجائز، غیر اخلاقی اور ظلم پر مبنی قرار دیتی ہے اور حکومتوں کو ترغیب دیتی ہے کہ انہیں ادا کرنے سے انکار کر دیں۔
صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی رافیل نے یہ اعلان کیا کہ وہ 1976ء سے لے کر اب تک تمام قرضوں کا آڈٹ کرے گا۔ اس آڈٹ کے لیے اس نے ایک اٹھارہ رکنی کمیشن قائم کیا۔ اس کمیشن کا ایرک ٹو سینٹ بھی ایک رکن تھا۔ اس کمیشن نے چودہ مہینوں میں ہزاروں فائلوں اور معاہدوں کا تفصیل سے جائزہ لیا اور پھر کمیشن نے حکومت کو ایک رپورٹ جمع کروائی کہ ایکوا ڈور کے 80فیصد قرضے ناجائز اور غیر اخلاقیillegitimateہیں۔ کمیشن کی سفارشات کے بعد حکومت نے یک طرفہ طور پر ایسے قرضوں کی ادائیگی سے انکار کر دیا۔
یہ قرضے دراصل بانڈز کی شکل میں تھے جنہوں نے 2012ء سے 2030ء میں ادائیگی کے قابل (Mature)ہونا تھا۔ یہ بانڈز وال سٹریٹ کے بینکوں کو بیچے گئے تھے جو ایکواڈور کی تیل کی دولت پر آنکھ رکھے ہوئے تھے۔ جیسے ہی حکومت نے ان کی ادائیگی سے انکار کر دیا تو ان بینکوں نے خسارے سے بچنے کے لئے سو ڈالر کا بانڈ بیس ڈالر عام مارکیٹ میں فروخت کرنا شروع کر دیا جس کا 91فیصد ایکواڈور نے خرید لیا۔ یوں اس نے 17ارب ڈالر کے اس سودی قرضے سے چند دنوں میں نجات پائی۔
آج یہ ملک کامیاب معیشتوں میں سے ہے۔ اس سے بھی اہم مثال ارجنٹائن کی ہے اس پر 1000(ایک ہزار) ارب ڈالر کا قرضہ تھا۔ اس نے کہا کہ نہ ہمارے معاشی حالات ایسے ہیں کہ ہم یہ قرضہ واپس کر سکیں اور دوسری بات یہ کہ تم نے یہ قرضہ ان حکمرانوں کو دیا ہے جنہوں نے کرپشن اور لوٹ مار سے سب سرمایہ ان بڑی طاقتوں کے بینکوں میں منتقل کر دیا اور وہیں جائیدادیں بنائی ہیں۔ کاروبار شروع کئے ہیں۔ اس لیے ہمارے ملک کے عوام اخلاقی طور پر یہ قرضہ ادا کرنے کے ذمہ دار نہیں اور انہوں نے دسمبر 2001ء میں قرضے کی ادائیگی بند کر دی۔ لیکن پیراگوئے نے تو کمال کر دیا۔
اس چھوٹے سے ملک نے 2005ء میں سوئٹزر لینڈ کے بنکوں کا قرضہ واپس کرنے سے اس بنیاد پر انکار کیا کہ یہ قرضہ ان حکمرانوں کو دیا گیا تھا جو انہوں نے ہم پر مسلط کئے تھے اور وہ قرضہ واپس انہی کے ملکوں میں کرپشن کر کے لے گئے ہیں۔ سوئٹزر لینڈ نے عدالتوں کا رخ کیا تو پیراگوئے کی حکومت نے کہا "ہمیں کسی فیصلے کی کوئی پرواہ نہیں ہم عالمی عدالت میں ان بینکاروں کے خلاف یہ مقدمے لے کر جائیں گے کہ انہوں نے سود اور قرضے کی وصولی کے لیے ہمارے بچوں کو قحط کا شکار کیا۔
عمران خان صاحب کیا آپ کو آپ کا اسد عمر یا آپ کی معاشی ٹیم یہ سب بتاتے ہیں۔ اگر وہ نہیں بتاتے تو پھر آپ اگلے سو سالوں میں بھی اس دلدل سے نہیں نکل سکیں گے۔ آج امریکی قرضے میں جکڑے ہوئے ہو، کل چینی قرضے کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہوں گے، اپنے اس حصار کو توڑ کر نکلو گے تو ملک کی تقدیر بدل سکو گے ورنہ نواز شریف اور زرداری کی طرح ایک اور پانچ سالہ حکومت، فرق یہ ہو گا کہ آپ اس بوسیدہ عمارت کا رنگ روغن بہتر کر دو گے۔ ایک دفعہ ایرک ٹو سینٹ کی تنظیم کو پاکستان بلا کر دیکھو۔