ایسے شخص کو کبھی معاف نہیں کیا گیا جس نے عالمی سُودی مالیاتی نظام اور جعلی کاغذی کرنسی کے عالمی شرح متبادل سے نکلنے کی تھوڑی سی بھی جنبش کی، ذرا سی دیر کو بھی آنکھیں دکھائیں یا ان معاشی غنڈوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو کی۔ اس حرکت کے بعد بے شک وہ واپس پلٹ بھی گیا ہو، "اچھا بچہ" بننے کی بھی پوری کوشش کرے، لیکن عالمی شکنجے سے آزادی کی یہ چھوٹی سی کوشش بھی معاف نہیں کی جاتی اور اسے نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے۔
عمران خان کی اس معاملے میں مماثلت نہ قذافی سے ہے اور نہ ہی صدام حسین، اس لئے کہ ان کے پاس تو تیل کی دولت تھی اور وہ اس دولت کو ڈالر کی سلطنت سے الگ کرنا چاہتے تھے جس کی سزا دونوں کی ذِلت آمیز موت بنی۔ ایک کو گلیوں، بازاروں میں گھسیٹا گیا تو دوسرے کو بِکائو ججوں کے ہاتھوں ذلیل کروایا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ پھانسی پر جھولنے سے پہلے کی صدام حسین کی وڈیو نے اسے صدیوں کے لئے امر کر دیا ہے، "جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے"۔
عمران خان کا پاکستان کیا اور اس کے وسائل کیا۔ اس ملک کو سیاستدانوں نے جس طرح مسلسل محنت سے مقروض کیا ہے، ایسے ملک کی تو چھوٹی سی خطا بھی ناقابلِ معافی ہوتی ہے۔ پاکستان کی یہ کہانی دراصل یونان جیسے معاشی طور پر بدحال ملک سے بہت حد تک مماثلت رکھتی ہے۔
اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی دونوں ملک آئی ایم ایف کے پروگرام میں جکڑے ہوئے، شدید معاشی مسائل کا شکار تھے۔ تبدیلی کی خواہش میں دونوں ممالک میں تھوڑے سے وقفے کے ساتھ، معاشی بحران سے نکالنے کا دعویٰ کرنے والی پارٹیاں برسراقتدار آئیں۔ یونان میں 2015ء اور پاکستان میں 2008ء میں ایسے وزراء اعظم برسر اقتدار آئے جنہوں نے انکار کی ذرا سی جرأت کی اور انہیں واپس عوام میں لوٹا دیا گیا۔
دونوں ملکوں میں برسراقتدار آنے والے وزرائے اعظم، یونان کے الیکسز زیپراس (Alexis Tsipras) اور پاکستان کے عمران خان نے کوئی ایسی بغاوت بھی نہیں کی تھی، بس چند ماہ کے لئے آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے اپنے ملکوں کی خودمختاری اور معاشی آزادی کے لئے گفتگو کی تھی۔
اس گفتگو کی سزا اتنی بڑی دی گئی کہ آج دونوں اپوزیشن میں ہیں۔ دونوں وزرائے اعظم نے ملکی حالات اور اپنی اپنی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے اپنے پَر سمیٹ بھی لئے تھے اور خاموش بھی ہو گئے تھے مگر دونوں کا یہ چند لمحوں والا غیرت و حریت سے کھڑے ہونا بھی معاف نہ کیا گیا۔
غیرت و حمیت کے ان چند لمحوں کی قیادت دونوں ممالک کے وزرائے خزانہ نے کی۔ یونان کا وزیر خزانہ یانس وارو فاکس (Yanis Varoufakis) اور پاکستان کا اسد عمر۔ دونوں روایتی سیاست دان نہیں تھے۔ یانس وارو فاکس نے معاشیات میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا اور اسد عمر نے ایم بی اے کرنے کے بعد کارپوریٹ دُنیا کی راہ لی۔ دونوں سیاست میں آنے سے پہلے اپنے اپنے ملکوں میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ اسد عمر کی تنخواہ تقریباً چھ کروڑ نوے لاکھ سالانہ تھی۔
یونان میں الیکسز زیپراس کی حکومت جنوری 2015ء میں برسراقتدار آئی۔ اس وقت یونان اپنے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا تھا۔ حالت یہ تھی کہ دکاندار یونانی کرنسی میں سودا بیچنے کو تیار نہ تھے، کہتے تھے گھر سے کوئی چیز اُٹھا کر لے آئو، ہم اس کے بدلے میں تمہیں سودا سلف دے دیں گے۔
الیکسز زیپراس کی حکومت بھی عمران خان کی طرح اتحادیوں سے مل کر بننے والی ایک کمزور حکومت تھی۔ اقتدار میں آتے ہی اس نے یانس واروفاکس کو اپنا وزیر خزانہ مقرر کیا۔ حکومت کے کاروبار کو آگے بڑھانے کے لئے ضروری تھا کہ یونانی حکومت، آئی ایم ایف کے پروگرام کی توسیع کے لئے گفتگو کرے۔
یونان کو بھی ان سے پہلی والی حکومتوں نے بالکل ویسے ہی قرض کی دلدل میں اُتارا ہوا تھا جیسے پاکستان میں بے نظیر، نواز شریف اور زرداری نے اُتارا تھا۔ یورپی یونین خصوصاً جرمنی کے بینکاروں کے ساتھ اس طرح کی بے حد سخت شرائط پر قرضے لئے گئے تھے جن کی وجہ سے ملک معاشی غلامی میں چلا گیا تھا۔ آئی ایم ایف کا پروگرام بھی دراصل انہی بینکاروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔
یانس واروفاکس کی آئی ایم ایف کے عہدیداروں کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر لڑائیاں شروع ہوئیں۔ آئی ایم ایف والے اسے مسلسل مشورہ دیتے تھے کہ تم اپنا مستقبل بنائو، چند سالوں کے لئے آئے، اور تمہیں قوم کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ تم ہماری بتائی ہوئی شرائط پر معاہدہ کرو، قرضے اُتارنے کے لئے یورپی بینکوں سے مزید قرضے لو اور عیش کرو۔ کچھ دیر کے لئے سہی لیکن تمہارے ملک میں خوش حالی نظر آئے گی اور تمہاری پارٹی کی ساکھ بڑھے گی جس سے اس کی سیاست زیادہ مقبول ہو جائے گی۔
قرضہ دینے والے گروہوں کا ایک اتحاد تھا جسے Troska "ثلاثہ" کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اس وزیر خزانہ پر عالمی طاقتوں کے ذریعے دبائو بڑھایا کہ وہ ان کی شرائط مان جائے لیکن وہ کسی طور پر یونان کی اس معاشی خودکشی پر راضی نہ ہوا۔ آخر 25 جون 2015ء کو یورپی بینکاروں کے گروپ نے اس کو آخری اَلٹی میٹم دیتے ہوئے اس کے سامنے ایک کاغذ رکھا جس میں (1) مالیاتی تجاویز (Fiscal Proposal)، (2) اصلاحات کا ایجنڈا (Reform Agenda)، اور (3) سرمایہ کاری کا فارمولا (Funding Formula) تینوں درج تھے۔
اس نے اس فارمولے کو یونان کے لئے معاشی خودکشی قرار دیا۔ ادھر عالمی طاقتوں نے اس کے وزیر اعظم پر دبائو ڈالنے کے لئے اپنے خریدے ہوئے ممبرانِ اسمبلی کے ذریعے پارٹی کے اندر تضادات پیدا کروائے اور ممبرانِ اسمبلی نے علیحدہ پارلیمانی گروپ بنا لئے۔ یونان کے ان "جہانگیر ترینوں" کے زبردست دبائو پر یورپی یونین کی تجاویز کے اگلے ہی دن ہی وزیر اعظم نے عوامی رائے لینے کے لئے ریفرنڈم کا اعلان کر دیا۔
ریفرنڈم اس بات پر تھا کہ "کیا آپ آئی ایم ایف اور یورپی بینکوں کی شرائط تسلیم کرتے ہیں یا نہیں"۔ یانس وارو فاکس نے اس ریفرنڈم میں "نہیں" (No) کے ووٹ کے لئے لوگوں کو قائل کرنا شروع کر دیا۔ اس نے کہا کہ اگر یہ بل منظور ہو گیا تو وہ وزارتِ خزانہ سے استعفیٰ دے دے گا۔ اس نے ٹیلی ویژن پر مذاکروں میں حصہ لیا، ریلیوں سے خطاب کیا۔
اس کی ساری محنت کے برعکس یونان کے عوام نے 62 فیصد ووٹوں سے اس کے فارمولے کو مسترد کر دیا اور وزیر اعظم الیکسز زیپراس، جس نے اسے خود وزیر خزانہ لگایا تھا وہ جیت گیا۔ یانس وارو فاکس نے استعفیٰ دینے کے بعد کہا کہ اس نے تو ریفرنڈم والی رات ہی استعفیٰ لکھ کر وزیر اعظم کو دے دیا تھا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ یہ ریفرنڈم عالمی طاقتوں سے خوفزدہ ہو کر کروایا ہے۔
یانس واروفاکس وزارت سے نکل گیا جبکہ اس کے برعکس وزیر اعظم الیکسز زیپراس کو ٹائمز میگزین نے سو بااثر افراد کی فہرست میں شامل کر لیا۔ عمران خان اور اسد عمر کی کہانی بھی ویسی ہی ہے۔ اسد عمر جب پہلی دفعہ امریکہ گیا تو وہ بھی آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران یونانی وزیر خزانہ یانس وارو فاکس کی طرح دلائل دینے لگا۔ عالمی مالیاتی طاقتیں اس گستاخی پر یونان کے وزیر خزانہ کو نشانِ عبرت بنا چکی تھیں۔
اسد عمر کو سمجھایا گیا، وہ نہ مانا۔ اسد عمر کی یہ گستاخی ان کے لئے کسی صورت بھی قابلِ قبول نہ تھی۔ ان کی خواہش تھی کہ پاکستان بھی یونان کی طرح قرض در قرض لیتا چلا جائے۔ اسد عمر نے ایسا نہیں کیا۔ یانس واروفاکس کو صرف چھ ماہ بعد عہدے سے ہٹایا گیا اور اسد عمر کو آٹھ ماہ بعد ہٹا دیا گیا۔
اسد عمر کی جگہ اسٹیبلشمنٹ اپنے بندے حفیظ شیخ کو لے آئی۔ جس طرح یونان کے وزیر اعظم کو معاشی بحران سے اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے خوفزدہ کئے رکھا ویسے ہی عمران خان کو بھی مسلسل ڈرایا گیا۔ ناتجربہ کار اور سادہ لوح عمران خان ان کے چکر میں آ گیا، سب کچھ مان گیا، مگر نہ یونان کے وزیر اعظم کی خطا معاف کی گئی اور نہ ہی عمران خان کی آج تک ہو سکی۔ آج دونوں ہی اپوزیشن میں بیٹھے ہیں۔