قوموں کی تاریخ میں لاتعداد حکمران آتے ہیں اور ساحل کی ریت پر اپنا نام لکھ کر رخصت ہو جاتے ہیں، جسے آنے والی وقت کی لہر حرفِ غلط کی طرح مٹا دیتی ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد کی منقسم دنیا کے دوسو کے قریب ممالک کے صدور، وزرائے اعظم اور موروثی بادشاہوں کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں، ان میں سے اکثر اپنے ملکوں میں بھی ایک بھولی بسری یاد کی طرح محو کر دیئے گئے۔
پاکستان میں وزرائے اعظم کی میوزیکل چیئر پر آپ تیسویں وزیر اعظم ہیں، لیکن اگر بازار میں گھومتے ہوئے عمر رسیدہ افراد سے بھی پوچھیں تو شاید ہی کوئی ایسا مل جائے جسے تین سے زیادہ وزرائے اعظم کے نام یاد ہوں۔ خان صاحب! یہ بہت ظالم دنیا ہے اور اس کی کشش اس قدر حریصانہ ہے کہ آدمی اس کے جال میں پھنس جاتا ہے لیکن اس کا سب سے مکروہ جال طاقت اور شہرت کا جال ہے۔
شہرت اور طاقت کی رسیاں مل کر جو جال بنتی ہیں اس کی قید سے آزاد ہونا بہت مشکل ہے، بلکہ یہ وہ قید ہے جس کے بارے میں راز الٰہ بادی نے کہا تھا "اتنے مانوس صیّاد سے ہو گئے، اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے"۔ شہرت کی رسی نے آپ کے گرد اپنا جال بننا اوائل عمر میں ہی شروع کر دیا تھا اور آپ نے اس کے نشے کو خوب دیکھا، برتا، بلکہ استعمال بھی کیا۔ لیکن آپ کو شاید ابھی تک اندازہ نہیں ہوا کہ اقتدار کی طاقت کا رسہ جب شہرت کے ساتھ مل کر جال بنتا ہے تو انسان کی پوری شخصیت ان رسیوں کے پیچ و خم میں الجھ کر رہ جاتی ہے۔ وہ سوچتا رہتا ہے کہ اگر ایسا کیا تو شہرت چھن جائے گی، اور ایسا کیا تو طاقت ہاتھ سے چلی جائے گی۔ یوں وہ دونوں کو بچاتے بچاتے خود گمنامی کے اندھے کنویں میں گرتا چلا جاتا ہے۔
خان صاحب! آپ کو جس طرح کا پاکستان میسر آیا ہے، قائد اعظم کو اس سے کئی گنا مشکل اور بے سروسامان ملک ملا تھا اور ان کی صفوں میں بھی کوئی ایسے چمکدار ستارے نہیں تھے۔ اکثریت انگریز کے نظام کے پروردہ، یونینسٹ پارٹی کے بنائے ہوئے "سٹیٹس کو" کے دلدادہ۔ لیکن شاید ہی کبھی حرف شکایت اس شخص کے منہ پر آیا ہو، کبھی گلا کیا ہو کہ مجھے وہ خطہ ملا جسے جان بوجھ کر انگریز نے پسماندہ رکھا، بھارت نے ہمارے حصے کا سرمایہ بھی رکھ لیا۔ کل تیرہ ماہ کے اقتدار میں اس شخص کی تقریریں اس ملک کو ایک مکمل تبدیلی کی راہ دکھا رہی تھیں۔
صرف سٹیٹ بنک کے افتتاح کے موقع پر ہی قائد اعظم کی تقریر کو دیکھا جائے تو ایسے لگتا ہے کہ یہ ایک گورنر جنرل یا وزیر اعظم نہیں صحیح معنوں میں لیڈر کی تعریف پر پورا اترتا ہوا عظیم رہنما ہے۔ کس قدر عظیم شخص کہ دنیا 1945ء میں ایک سودی نظام برٹن ووڈ میں معاہدہ کے تحت اختیار کرتی ہے اور یہ شخص تقریر کرتے ہوئے مغرب کے اس سودی نظام اور معاشی تصورات پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے ایک بدترین دنیا قرار دے کر پاکستان کے معاشی نظام کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کا فیتہ کاٹتے ہوئے "سٹیٹس کو" کے سارے بت توڑ دیتا ہے۔
ایک لمحے کے لیے بھی اس شخص نے یہ نہیں سوچا ہو گا کہ ایسا کرنے سے ہم اس سودی، معاشی نظام سے نکل جائیں گے۔ حکمران اور لیڈر میں یہی فرق ہوتا ہے۔ کیا قرضوں میں جکڑا ہوا ملک اور کرپشن سے تباہ حال معیشت صرف عمران خان کو ورثے میں ملی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ہم جیسے ترقی پذیر ممالک کا المیہ ہی کرپشن اور بیرونی قرضے ہیں۔ جو بھی وزیر اعظم بن کر کرسی پر براجمان ہوتا ہے وہ اسی سسٹم اور اسی "سٹیٹس کو" میں حالات بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ حالات درست کرتا ہے لیکن ایک لیڈر حالات تبدیل کرتا ہے۔ اس کی نیت گھسے پٹے راستوں پر چل کر حالات بہتر بنانے والی نہیں ہوتی جبکہ وزیر اعظم اپنے قرضوں سے نپٹنے کے لیے دیگر ملکوں سے قرض حاصل کرتا ہے بلکہ مزید ترقیاتی کاموں کے لیے بھی قرض حاصل کر لیتا ہے۔
گزشتہ پچاس سالوں سے ساہوکاری کی ایک دکان امریکہ اور یورپ نے کھولی ہوئی تھی، اب ایک اور دکان چین نے کھول لی ہے بلکہ چین کا ساہوکارانہ نظام تو بدترین ہے۔ وہ مقروض ملک پر شرائط عائد نہیں کرتا بلکہ اپنے ملک سے افراد کو کام کرنے وہاں بھیج دیتا ہے جیسے کلکتہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے لوگ آئے تھے۔ اس طرح ایک ناجائز قرض سے نجات کے نتیجے میں آپ ایک اور ناجائز قرضے کا شکار ہو جاتے ہو۔ اس کی بدترین مثال سری لنکا ہے جس نے مٹالا ایئرپورٹ بنایا جہاں چند ایک جہاز اترتے تھے لیکن وہ قرضے اتارنے کے لیے 24ملین سالانہ چین کو دیتا رہے گا بلکہ اب یہ ایئر پورٹ چین کے پاس لیز پر ہے، خود چلائو اور خود ہی اپنا قرضہ وصول کرو۔
یہ مغربی ممالک کے قرضوں سے زیادہ بڑی غلامی کی داستان ہے۔ اگر کوئی لیڈر سری لنکا پر حکمران ہوتا تو وہ اس ایئر پورٹ کے قرضے کو غیر اخلاقی قرار دے دیتا، جیسے جنوبی امریکہ کے ممالک ارجنٹائن، ایکواڈور اور گوئٹے مالا نے کیا۔ کیونکہ انہیں خوش بختی سے ایسے لیڈر میسر آ گئے تھے جنہوں نے اپنے اوپر چڑھے ہوئے تمام قرضوں کا آڈٹ کیا اور ان میں سے جو غیر اخلاقی قرضے تھے ان کو ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ غیر اخلاقی (illegitimate)قرضے کی ایک عالمی تعریف مسلمہ ہو چکی ہے۔ An illegitimate debt is debt contracted of a Privilged minority"ایک غیر اخلاقی قرضہ وہ ہے جو مراعات یافتہ اقلیت کے لیے لیا جائے"۔
اس تعریف میں وہ تمام ایئر پورٹ، چند ہزار گاڑیوں کے لیے موٹروے، بلند و بالا سرکاری ایوان اور دیگر سہولیات آتی ہیں۔ نوے فیصد دیہاتی غرباء کو چھوڑ کر ایک شہر کی تزئین و آرائش پر خرچ کرنا بھی غیر اخلاقی قرضوں میں آتا ہے۔ اگر ایسا کچھ ایکواڈور، ارجنٹائن یا گوئٹے مالا میں ہوا ہوتا تو ان سو دنوں میں قرضوں کا آڈٹ ہو چکا ہوتا اور قرضوں کی ادائیگی سے انکار کیا جا چکا ہوتا۔ ایکواڈور کی طرح ورلڈ بنک کے دفاتر بند کر دیئے جاتے اور آئی ایم ایف کو سٹیٹ بنک کی راہداریوں سے نکال دیا جاتا۔ یہ اب بھی ہو سکتا ہے اگر عمران خان صاحب وزیر اعظم بننے کی بجائے لیڈر ہونے کا کردار ادا کریں۔
خان صاحب! جس بات کا خطرہ تھا وہ آخر ہو کر رہی۔ آپ کو بیورو کریسی نے شیشے میں اتار لیا اور اب آپ اس کے محتاج ہو چکے ہیں۔ اس سٹیٹس کو سے نکلنے کا ایک ہی راستہ تھا کہ آپ اسے چند انگلش میڈیم افراد کے شکنجے سے باہر نکال لیتے، سپریم کورٹ کا فیصلہ نافذ کرتے، ان کے تمام ٹریننگ اداروں اور دفتری زبان کو اردو کرتے، لیکن آپ کے اردگرد سب مرعوب زدہ لوگ جمع ہیں اور آپ ان سے نہیں نکل پا رہے۔ پاکستان کا جوڈیشل سسٹم اینگلوسیکسن قانون پر مبنی ہے۔
جہاں قانون کی حکمرانی ہے، انصاف کی حکمرانی نہیں۔ اسے بدلنے کی سمت چلتے، لاتعداد ایسے اقدامات تھے جو صرف ایک دن میں نافذ ہو سکتے تھے اور اس ملک میں تبدیلی بھی دکھائی دیتی، لیکن شاید آپ وزیر اعظم کی طاقت اور شہرت کا لطف لے رہے ہیں۔ لیڈر بنئے، قرضوں کے آڈٹ کا اعلان کیجئے اور اس وقت تک قرضوں کی قسط ادا کرنے سے انکار کیجیے۔ ان انگریز سے مرعوب ججوں، بیورو کریٹس اور سرکاری ملازمین کو اردو لکھنے پر مجبور کریں۔ یہ ایک دن میں نافذ ہو سکتا ہے۔
سپریم کورٹ اس وقت دراصل ایک "تحقیقاتی" عدالت بن چکی ہے۔ "حریفانہ" نہیں رہ گئی۔ انصاف کے لیے "جے آئی ٹی" بنائی جاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ قدیم اینگلوسیکسن قانون ناکام ہو گیا ہے۔ اسے تبدیل کرنے کا آغاز کون کرے گا۔ بہت کچھ بدل سکتا ہے خان صاحب! اگر آپ لیڈر بن جائیں ورنہ وزرائے اعظم کی فہرست میں ایک اور نام کا اضافہ ہو جائے گا۔